گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ذرا ان کی شوخی تو دیکھیے، لیے زلفِ خم شدہ ہاتھ میں
مرے پیچھے آئے دبے دبے، مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
ڈر گئے کیا سانپ سے۔۔۔
ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ
سینے پہ لوٹتا ہے غم زندگی کا سانپ
اپنے بدن سے خول انا کا اتار کر
پھنکارتا ہے شام و سحر آگہی کا سانپ
 

اربش علی

محفلین
ڈر گئے کیا سانپ سے۔۔۔
ہاتھ آ گیا ہے جب سے شعور خودی کا سانپ
سینے پہ لوٹتا ہے غم زندگی کا سانپ
اپنے بدن سے خول انا کا اتار کر
پھنکارتا ہے شام و سحر آگہی کا سانپ
دسیں ہنڑ، کیوں ڈرنا اے اساں
غم سے اب گھبرانا کیسا، غم سو بار ملا
 
Top