سید شہزاد ناصر
محفلین
خیر ایک بار پھر
شاید لکی مروت کے رہنے والے اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیںخوش آمدید عینی۔ بڑی بے مروتی سے نام کے مروت کا تعارف نہیں کروایا؟
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم انکو کبھی اپنے گھر کو ۔۔۔ ۔۔
جیہ بہنا، جو صفات بیان کی ہیں اور جتنی گہرائی سےمیری شخصیت کا مشاہدہ کیا ہے حیران ہوں کہ ۔۔یہ میں ہوں یا کوئی اور ہے!؟
لیکن حقیقت یہ ہے کہ عام سے لوگوں میں شمار ہے البتہ ۔۔
ہم جو بھی ہیں وہ آپ کے حسنِ نظر سے ہیں
آپکا بھی غائبانہ تعارف اور مدح وستائش ہر زبان سے سنی ہے ہمارے فورم پر،اور آپکی وسعت ِ علمی کا بہت اچھی طرح سے اندازہ ہے مجھے -یوں آپ مجھے بھی اپنے قدردانوں میں شمار کر سکتی ہیں-
بہت مشکور ہوں اس قدر افزائی اور پرخلوص ' ھرکلے' کے لیے
اللہ مو مدام قدرمنہ لرہ ۔۔۔ سلامتہ اوسئ
مروت پشتونوں کا ایک قبیلہ ہے ۔شاید لکی مروت کے رہنے والے اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں
اور یہ مُروت نہیں مَروت ہے
میرا بھی یہ ہی خیال تھامروت پشتونوں کا ایک قبیلہ ہے ۔
امیج کدھر گیا
بہت شکریہ جناب ،دونوں دفعہ خوش آمدید کے لیےخیر ایک بار پھر
مشکور ہو ں جی۔۔۔خوش آمدید
شاید لکی مروت کے رہنے والے اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں
اور یہ مُروت نہیں مَروت ہے
مروت پشتونوں کا ایک قبیلہ ہے ۔
آپ دونوں کی بات سے اتفاق کرتی ہوںمیرا بھی یہ ہی خیال تھا
واہ محفل پر تیسری عینی کی آمد۔۔۔ ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
خوش آمدید!
ایک عینی شاہ ، دوسری قرۃالعین اعوانایک عینی سے تو تعارف ہو چکا ہے ،یہ۔۔۔ ۔دوسری "عینی" کون ہیں؟
میں بھی عینی ہوں اگر کاف کو نظر انداز کیا جائےایک عینی شاہ ، دوسری قرۃالعین اعوان
یہ کتاب اور شجرہ نسب انٹرنیٹ پر مل سکتے ہیں؟لکی مروت اورا س سرزمین کے باشندوں کا تعارف لے کر حاضر ہوں
لکی مروت خیبر پختونخواہ کے جنوب میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے درمیاں واقع ہےاس سے پہلے یہ ضلع بنوں کی ایک تحصیل تھی ۔مروتوں کا علاقہ 1849 میں انگریز حکومت کی عملداری میں آیا تھا اس وقت ضلع بنوں کا ڈپٹی کمشنر ایک انگریز ایڈورڈ تھا اور اس نے بنوں کا نام اپنے نام پر ایڈوڑ آباد رکھا تھا
یہ علاقہ 1861 میں ضلع بنوں کی تحصیل بنا دیا گیا تھا اور اسے ضلعی انتظامیہ کا درجہ بہت بعد میں 1جولائی 1992 کو دیا گیا
ماؤنٹ سٹؤرٹ ایلفنسٹن ( سیاسی مدبر اور تاریخ داں جو کہ برٹش انڈیا میں کچھ عرصہ ممبئ کا گورنر بھی رہااور اس نے انڈیا اور افغانستان پر کچھ کتابیں بھی تصنیف کیں
شاید وہ پہلا غیر ملکی سیاح تھا جس نے 1809-10 میں اس علاقے(لکی مروت) میں قدم رکھا
اس نے اپنی کتاب ( این اکاؤنٹ آن دہ کنگڈ م آف کابل) میں دیے گئے نقشے میں دریائے گمبیلہ کے داہنے کنارے جنوبی طرف موجود اس علاقے کے اثارکی تصدیق کی تھی
اسکے شمال میں کرک اور ضلع بنوں واقع ہیں جبکہ مشرق میں میانوالی اور مغرب میں اسکی حدود قبائلی علاقہ ٹانک اور وزیرستان سے ملی ہوئی ہیں۔لکی مروت کا رقبہ بنوں ضلع سے زیادہ وسیع ہے اور تقریباً 7,78,529 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے
(3164 - مربع کلومیٹر)۔یہاں تقریباً 250 گاؤں آباد ہیں جو مروتوں کی اس سرزمین کا حصہ ہیں۔
گاؤں کے نام عموماً "خیل" کے لاحقے رکھتے ہیں جیسے کہ متان خیل،غزنی خیل،مما خیل بیگو خیل،شہباز خیل،
٭٭٭
لکی* کے نام کی مناسبت سے کچھ باتیں مشہور ہیں کہ گزرے وقتوں میں مروتوں اور وزیروں (پشتونوں کا ایک اور قبیلہ) کے درمیاں جنگ ہوئی اور مروتوں نے اسکے لیےاتنی بڑی تعداد میں فوج جمع کی کہ لگ بھگ ایک لاکھ شمار ہوئی اسلیے اس لاکھ کو کثرت استعمال سے لک یا شاید لکی کر دیا گیا جب سے اب تک یہ مستعمل ہے
ایک اور کہانی اس نام کو کسی ہندو تاجر لکی رام یا لکھو رام سے منسوب کرتی ہے
kpk tribune*
٭سیاسی حوالے سے یہاں سیف اللہ برادران کافی شہرت کے حامل ہیں۔ جنہیں پاکستان میں بادشاہ گر کے نام سے یاد کیا جاتاہے
(٭وکی پیڈیا)
مروتوں کا شجرۂ نسب ،وطن اور دیگر دلچسپ حقائق
ایک حوالے کے مطابق انکا اصلی وطن کٹواز/کٹہ وازتھا جو کہ افغانستان کے جنوب میں غزنی میں واقع ہے
کٹوازمیں ایک ٹیلہ/پہاڑی ہےجو کہ مروتی کہلاتی ہے ابتداء میں مروت قبیلہ وہاں آباد تھا اسلیے اس نام کی مناسبت سے انہیں بھی مروت کہا گیا!۔
مروت قبائل جو عموماً مورت بھی کہلائے ہیں ،لوہانڑی/نوحانی بن اسماعیل بن سپاںڑی/سپاٹے بن ابراہیم لوئے دے/ لودھی، بن شاہ حسین غوری کی اولاد ہیں۔
شاہ حسین غوری ایک ایرانی شاہزادے تھے (شاہ حسین غوری بن شاہ معز الدین بن جمال الدین حسین بن بہرام بن جلال الدین شاہ نسب)۔
حکومت غور، ہاتھوں سے نکلنے اور اہل خاندان کی جلاوطنی کے بعد اپنے خاندان سے بچھڑ کرقیسی افغانوں کے تیسرے بڑے قبیلےبیٹن کے سربراہ شیخ بیٹن /بیٹ نیکہ( نیکہ نانا یا دادا کو کہتے ہیں)۔کے ہاں پناہ گزین ہو ئے (بقول مخزن افغانی از جناب نعمت اللہ ہروی )بیٹن بابا اس علاقے کے متقی اور پرہیزگار صوفی منش بزرگ /نیکہ تصور کیے جاتے ہیں بیٹن بابا کے ہاں پناہ گزین ہونے کے بعد انکی شرافت اورحسن خلق کی بناءپر انہیں بیٹن بابا نے منہ بولا بیٹا بنا لیا اور جوان ہونے کے بعد اپنی دختر نیک اختر متو یا ماتو بی بی انکے عقد میں دے دی۔انکے ہاں تین( اور ایک حوالے کے مطابق چھ) بیٹے تھے جن میں ابراہیم لودھی اور عبد الرحیم غلچی/غلجی زیادہ مشہور ہوئے۔یہاں ابراہیم لودھی /کو یہ لقب لوئے دے /لودھی ملنے کی وجہ بتاتے چلیں کہ ایک دن نانا حضور نے اپنے دونوں نواسوں**
عبد الرحیم اور ابراہیم (دونوں کی عمر علی الترتیب سات اور پانچ سال تھی) دونوں سے کھانا یا (ڈوڈئ ،روٹی)لانے کی فرمائش کی کہ کون پہلے روٹی لائیگا،عبد الرحیم عمر میں بڑے تھے لیکن ابراھیم معاملہ فہم اور ہوشیارتھے،انہوں نے نانا کا حکم سنتے ہی دھکا یا اڑنگا لگا کر بھائی کو گرایا اور بھاگ کرڈوڈئ نانا کی خدمت میں پیش کر دی ۔۔نانا نے اس موقع پر فرط مسرت سے چھوٹے نواسےکو "" ابراہیم لوئے دے!!۔کہا۔۔یعنی ابراہیم عظیم ہے،اور بڑے نواسے کو غلچی یا غلجی ( سورما ،بہادر )کا نام دیا**۔
The Pathan by olaf Caro**
ابراھیم لودھی/لوئے دے کی متو بی بی سے تین اولادیں تھیں جن میں پہلا بیٹا دوتانڑی/دوتانی اور دوسرا بیٹاسپانٹے جبکہ تیسرانیازئے میں سے مروت منجھلے بیٹے سپانٹے کی اولادوں میں سے ہیں۔
لوہانڑیوں/نوحانی مروتوں کا شجرۂ نسب کچھ یوں ہے
(حوالہ تاریخ نیازی قبائل: طبع چہارم )
ابراھیم لودھی کے جانشینوں میں آگے چل کر لودھی اور سوری پیدہ ہوئے جنہوں نے کچھ عرصہ ہندوستان پر حکومت کی۔
(سلطان بہلول لودھی ، شیر شاہ سوری اور انکے جانشین وغیرہ )
موضوع کے حوالے سے مزید معلومات بھی یہاں شیئر کرتی رہونگی ان شاء اللہ۔۔