غوث خامخواہ کی غزل کے باقی اشعار مندرجہ ذیل ہیں :
مسکراتے ہوئے اس نے یہ کہا شوخی سے
ایک دیوانے نے دیوانہ بنا رکھا ہے
جیب غائب ہے تو نیفا ہے بٹن کے بدلے
تم نے پتلون کا پاجامہ بنا رکھا ہے
مشرقی رہن سہن چال و چلن مغرب کا
ہم نے تہذیب کا شیر خرمہ بنا رکھا ہے
گر صلہ دو گے مجھے میری وفاؤں کے عوض
مانگ لوں گا تمہیں انعام میں کیا رکھا ہے
جو سبھی دیکھ چکے ہم وہ نہیں دیکھیں گے
وہ دکھاؤ ہمیں جو سب سے چھپا رکھا ہے
ان کو اغیار محبت سے لگاتے ہیں گلے
مجھ کو اپنوں نے بھی بیگانہ بنا رکھا ہے
زندگی موت کی تمہید ہے پر لوگوں نے
مختصر بات کا افسانہ بنا رکھا ہے
لوگ بھولیں نہ کبھی ایسا تخلص رکھیے
نام تو نام ہے بس نام میں کیا رکھا ہے
قافیے اور ردیفوں و تخلص کے سوا
ؔخواہ مخواہ آپ کے اشعار میں کیا رکھا ہے