‘زلف‘

شمشاد

لائبریرین
آنچل میں رَچے رنگ نکھاریں تیری زلفیں
اُلجھی ہوُئی زُلفوں کو سنوارے تیرا آنچل
(محسن نقوی)
 

شمشاد

لائبریرین
رو و خال و زلف ہی ہیں سنبل و سبزہ و گُل
آنکھیں ہوں تو یہ چمن آئینۂ نیرنگ ہے
(میر تقی میر)
 

شمشاد

لائبریرین
دھوپ کو دیکھ کے اس جسم پہ پڑتی ہے چمک
چھاؤں دیکھیں گے تو اس زلف کا دھیان آئے گا
(احمد راہی)
 

شمشاد

لائبریرین
چہرے پہ مرے زُلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
(امجد اسلام امجد)
 

شمشاد

لائبریرین
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
(جگر مراد آبادی)
 

شمشاد

لائبریرین
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینہء صد چاک شانہ کیا؟
(حیدر علی آتش)
 

شمشاد

لائبریرین
غزالوں نے وہیں زلفوں کے پھیلا دیئے سائے
جن راہوں پہ دیکھا ہے بہت دھوپ کڑی ہے
(بشیر بدر)
 
Top