’قونصل خانے پر حملے میں امریکی سفیر ہلاک‘

Fawad -

محفلین
بڑا سادہ سا سوال فواد صاحب جس پر اعتراض بھی ہزار ہا بار ہوتا ہے ۔ امریکی قانون ہولو کاسٹ پر اظہار رائے میں کتنی آزادی دیتا ہے ؟

اگر ہولوکاسٹ پر کہنے کی آزادی نہیں تو آپ اس کو کیسے جسٹی فائی کریں گے ؟؟

یورپی ممالک کے بارے میں تو میں جانتا ہوں۔




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


فورمز پر بہت سے رائے دہندگان نے مجھ سے ہالوکاسٹ کے حوالے سے براہراست سوال کيے ہيں اور اس بنياد پر امريکی حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے جو ان کے نزديک امريکہ ميں مختلف مذاہب کے حوالے سے امريکی حکومت کے مبينہ دوہرے معيار کو ثابت کرتا ہے۔ ہالوکاسٹ کے حوالے سے سادہ اور براہراست جواب يہ ہے کہ امريکہ ميں ہالوکاسٹ سميت کسی بھی سياسی يا مذہبی معاملے پر سوالات اٹھانے يا رائے زنی کرنے کی قانونی اجازت ہے۔ يورپ کے کچھ ممالک ايسے ضرور ہيں جہاں مروجہ قوانين کے تحت ہالوکاسٹ کے حوالے سے رائے پر قدغن ہے۔

ليکن ميں واضح کر دوں کہ ان قوانين کا اطلاق امريکہ ميں نہيں ہوتا۔

يہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہيے کہ امريکی حکومت نہ تو مغربی ممالک ميں رائج قوانين کے لیے ذمہ دار ہے اور نہ اس ضمن میں امريکہ کو مورد الزام ٹھہرايا جا سکتا ہے۔ ايسے بہت سے مغربی اور غير مسلم ممالک ہيں جہاں پر قانونی فريم ورک، آئينی اصول اور آزادی رائے کے حوالے سے قوانين امريکی معاشرے ميں متعين کردہ بنيادی جمہوری اصولوں سے متصادم ہيں۔

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور بے شمار نجی تنظيميں ہر سال ايسی بے شمار رپورٹس مرتب کرتی ہيں جن ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے عالمی برادری ميں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جہاں تک اس عمومی تاثر کا تعلق ہے کہ امريکہ ميں يہوديوں يا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف مواد کی اجازت نہيں ہے تو حقائق اس کے بالکل منافی ہيں۔

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ امريکہ کے اندر ايسے کئ افراد اور تنظيميں موجود ہيں جو عوامی سطح پر ہالوکاسٹ کی حقيقت کے حوالے سے کھلم کھلا سوالات بھی اٹھاتے رہتے ہيں اور اس بات پر بھی بضد ہيں کہ اس قسم کا کوئ واقعہ سرے سے ہوا ہی نہيں تھا۔

اس ضمن ميں امريکہ کے اندر اينٹی سميٹک سوچ کی حامل تنظيموں کی مکمل تاريخ ہے جن ميں سے کچھ تو بذريعہ تشدد بھی سفيد رنگت يا آرئين وائٹ سپريمسی کا پرچار کرتی ہيں۔ ان ميں کچھ چيدہ نام يہ ہيں

کرسچن آئڈينٹٹی چرچز
آرئين وائٹ ریذزٹينس
کو کلس کلين
امريکنز نازيز
گينگز آف سکن ہيڈز

اسی طرح کئ قدامت پسند چرچز جيسے کہ ويسٹ برو بيپٹسٹ چرچ بھی اينٹی سميٹک پيغامات کی ترويج اور تشريح کرتے ہيں۔ اکثر اينٹی سميٹک گروہوں کے اراکين اپنے سر منڈھوا کر باقاعدہ نازی سے متعلق نشانات، ٹيٹوز اور پيغامات جيسے کہ سواسٹیکاس، ايس ايس اور "ہيل ہٹلر" بھی نماياں کرتے دکھائ ديتے رہتے ہيں۔ امريکا بھر ميں اينٹی سميٹک گروہ مارچ بھی کرتے ہيں اور اپنے پيغام کو بھی کھلم کھلا سب کے سامنے بيان کرتے ہيں۔

سال 1979 ميں کيلی فورنيا ميں انسٹی ٹيوٹ فار ہالوکاسٹ ريوو (آئ – ايچ – آر) کے نام سے ايک ادارہ بھی قائم کيا گيا تھا جس کا مقصد ہی يہ تھا کہ اس سوچ کو مقبول عام کيا جائے کہ ہالوکاسٹ محض ايک فراڈ تھا۔ اس ادارے کے روح رواں ولس کاسٹرو نے اپنی پوری زندگی اسی بات کے ليے وقف کر رکھی تھی کہ عوامی سطح پر ہالوکاسٹ کے حوالے سے تسليم شدہ تاريخ کو چيلنج کیا جائے۔

اسی طرح 80 کی دہائ ميں کچھ اور گروہ جيسے کہ پوسی کامیٹيٹس پورے امريکہ ميں اينٹی سميٹک پيغامات کی تشہير کے ليے جانے جاتے تھے۔

سال 1987 ميں آئ – ايچ – آر کے سابقہ ميڈيا ڈائريکٹر بريڈلی آر اسمتھ نے کميٹی فار اوپن ڈيبيٹ آن ہالوکاسٹ (سی – او – ڈی – او – ايچ) تشکيل دی۔ امريکہ ميں سی – او – ڈی – او – ايچ نے باقاعدہ اخبارات، خصوصی طور پر کالجوں کے اخبارات ميں ميں اشتہارات بھی جاری کرنے کی کوششيں کی ہيں جن ميں يہ سوال اٹھايا گيا تھا کہ آيا ہالوکاسٹ کا واقعہ کبھی پيش بھی آيا تھا کہ نہيں۔ حاليہ عرصے ميں بريڈلی آر اسمتھ نے ہالوکاست سے انکار سے متعلق اپنی سوچ کی ترويج کے ليے ديگر طريقوں کا استعمال بھی شروع کيا ہے۔

ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں کہ امريکہ ميں ايسی بے شمار کتابيں ، ويڈيوز اور ديگر مواد بآسانی دستياب ہے جن ميں لکھاريوں اور مبصرين نے ہالوکاسٹ کے حوالے سے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کيا ہے۔

اس ضمن میں کچھ مثاليں

http://www.amazon.com/s/ref=nb_sb_noss?url=search-alias%3Daps&field-keywords=The+Hoax+of+the+Twentieth+Century

http://www.amazon.com/The-Great-Holocaust-Trial-Landmark/dp/0970378467


http://www.amazon.com/Did-Six-Million-Really-Die/dp/1471004643


امريکہ بھر ميں ايسی کئ مثاليں موجود ہيں جب کسی مخصوص بيان، فلم، ٹی وی شو، کارٹون، کتاب يا کسی بھی اور ميڈيم کے ذريعے دانستہ يا غير دانستہ اظہار رائے کے نتيجے میں معاشرے کے کسی گروہ نے تضحيک محسوس کی اور اپنے ردعمل کا اظہار کيا۔ اسی ضمن ميں ايک مثال حاليہ فلم "اينجلز اور ڈيمنز" کی بھی دی جا سکتی ہے جس کی ريليز پر عيسائيوں کی ايک بڑی تعداد نے شديد منفی ردعمل کا اظہار کيا تھا۔

يہ تاثر بالکل غلط ہے کہ صرف مسلمان ہی آزادی رائے کے حق کے قانون کی آڑ ميں نشانہ بنائے جاتے ہيں۔

ليکن يہ مطالبہ يا توقع غير منطقی اور امريکی آئين کے خلاف ہے کہ ايسے ہر اقدام کے بعد امريکی حکومت ايسے افراد کی گرفتاری شروع کر دے جو کسی بھی میڈيم کے ذريعے اپنی رائے کے اظہار کے حق کو استعمال کريں۔ اس ضمن ميں سب سے موثر اور تعميری ردعمل يہ ہے کہ معاشرے کی متنوع کميونٹيز کے مابين ڈائيلاگ اور بحث و مباحثے کے ذريعے بہتر شعور اور آگاہی کے رجحان کے فروغ ديا جائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

طالوت

محفلین
وضاحت کے لئے شکریہ ۔

اگرچہ آپ کے مذکورہ مراسلے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ ہولوکاسٹ پر امریکی حکومت کا کیا موقف ہے اور وہ کیسے بضد ہے کہ ہولوکاسٹ بالکل اسی طرح کا واقعہ ہے جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے تاہم آزادی اظہار رائے لا محدود نہیں ہونا چاہیے ، اقوام متحدہ کی حال ہی میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں اسلامی ملکوں کی نمائندگی کرنے والوں نے اس پر کھل کر بات کی ہے اور اس پر قانون سازی کے لئے آوازیں اٹھائی ہیں جو کہ حیران کن مگر خوش آئند ہے ۔ ۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

صدر اوبامہ نے اقوام متحدہ ميں اپنی تقرير ميں جس بات کو واضح کيا وہ امريکی معاشرے ميں رائج قوانين اور آزادی رائے کے اظہار کا وہ بنيادی آئينی حق ہے جو بغير کسی تفريق کے ہر فرد کو حاصل ہے۔

امريکی حکومت کسی مخصوص گروہ کے خلاف دانستہ تشدد کی ترغيب کے سوا آزادی رائے پر کوئ پابندی نہيں لگاتی۔
امريکہ ميں ايسا کوئ قانون موجود نہيں ہے جو کسی بھی شخص کے خلاف کسی مخصوص مذہب، فرقے يا سياسی نظريے کے خلاف بولنے کی پاداش ميں قانونی مقدمے کا سبب بنے۔

مختلف فورمز پر رائے دہندگان جو اس بات پر بضد ہيں کہ اسلام اور مسلمان امريکی حکومت کے ايما پر دانستہ نشانہ بنائے جا رہے ہيں، وہ اپنی دليل کے دفاع ميں ايسی مثالیں بھی ديتے ہيں جو اکثر غير متعلقہ اور تناظر سے ہٹ کر غلط پيرائے میں بيان کی جاتی ہيں۔

حقيقت ميں اس دعوے ميں کوئ سچائ نہيں ہے ۔

اس سوچ کی بنيادی اساس اور نظريہ ہی تضادات پر مبنی ہے۔ ايک جانب تو رائے دہنگان يہ تاثر ديتے ہيں کہ امريکی حکومت اتنی فعال اور وسائل سے مالا مال ہے کہ ہم نے تمام سوشل اور ميڈيا نيٹ ورکس کو اس حد تک اپنے زير اثر اور کنٹرول ميں کيا ہوا ہے کہ ہم مسلمانوں اور اسلام کی اہم اور مقدس شخصيات کے بارے ميں مواد پھيلا سکتے ہيں۔ ليکن زمينی حقائق اور سوشل ميڈيا کے سرسری جائزے سے يہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امريکی مخالف مواد خود امريکہ کے اندر بھی نا صرف يہ کہ باآسانی دستياب ہے بلکہ اس کی کھلم کھلا تشہير بھی جاتی ہے۔

جہاں تک أنور العولقي کی ويڈيوز کا يو ٹيوب سے ہٹايا جانا اورايسی ہی ديگر مثاليں ہيں جن کا رائے دہندگان بار بار حوالہ دے کر امريکی حکومت کی مبينہ دوغلی پاليسی کا ذکر کرتے ہيں، تو اس ضمن ميں يہ سمجھنا ضروری ہے کہ امريکی حکومت کا سوشل ميڈيا پليٹ فارمز کی پاليسيوں، رائج قواعد و ضوابط اور انتظاميہ کے صوابديدی اختيارات پر کوئ کنٹرول نہيں ہے۔ يہ ان ويب سائٹس کی انتظامیہ پر منحصر ہے کہ کس مواد کوپوسٹ کرنے کی اجازت دی جائے اور کون سے مواد ان کی جانب سے ممبران کے ليے وضع کردہ قوانين کی حدود سے باہر ہے۔ امريکی حکومت کا اس سارے عمل پر کوئ اختيار يا کنٹرول نہيں ہے۔ اس بات کے ثبوت کے ليے انھی ويب سائٹس پر ايسی ہزاروں ويڈيوز آپ ديکھ سکتے ہيں جن ميں خود ہماری اپنی حکومت پر تنقيد کے ساتھ ساتھ امريکی صدر کو بھی تضحيک کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ ميں آزادی رائے کے حوالے سے وزير خارجہ ہيلری کلنٹن اور صدر اوبامہ کے بيانات


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

ساجد

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ ميں آزادی رائے کے حوالے سے وزير خارجہ ہيلری کلنٹن اور صدر اوبامہ کے بيانات


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
ارے میرے بھائی ، پاکستان میں یو ٹیوب بند ہے اس کے لنک بھیجنے میں اپنی صلاحیتیں برباد نہ کرو اور اگر یہ چل بھی رہی ہوتی تو ہیلری اور اوبامہ کو دیکھنے اور سننے سے بہتر بہت سارے کام ہیں ہم لوگوں کے پاس۔ وہی گھسا پٹا رونا رو رہے ہوں گے آزادی اظہار کا۔ یار اگر تم لوگ اسی طرح سے آزادی اظہار کرنے کو جائز قرار دیتے ہو تو پھر اس کے رد عمل میں ہونے والے خون خرابے کے بھی تمہی ذمہ دار ہو۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی لا حاصل کوششیں نہ کیا کرو۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی جان اسرائیلی طوطے میں ہے اور اسرائیل کے ہر ناجائز کام کو تم لوگ جس طریقے سے تحفظ دیتے ہو اس فلم کے حوالے سے بھی وہی بات عیاں ہے۔ یہ فلم اسرائیلی شہہ پر بنی ہے اورامریکہ کی کیا مجال کہ اس پر پابندی لگا سکے ۔ بھئی جب ہم تمہاری مجبوری سمجھتے ہیں تو کیا ضرورت ہے اتنی صفائیاں پیش کرنے کی؟۔ یہ تو تم امریکیوں کی سوچ پر منحصر ہے کہ کس حد تک صیہونی غلامی میں جانے کی ہمت رکھتے ہو۔
یہاں آنے سے قبل اپنے عوام اور دانشوروں کو ہی پڑھ لیا کرو جو متواتر امریکہ کو خبردار کر رہے ہیں کہ اس کی جانبدارانہ پالیسیاں دنیا کا امن تباہ کر رہی ہیں۔ کہو تو روزانہ آپ کے امریکی دانشوروں کے مقالات کے لنک آپ کو ارسال کر دیا کروں شاید سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تو آپ کو ان سے دور رکھتا ہو گا۔ اوبامہ کے 4 سال پورے ہونے کو آئے کبھی اس دورانئے پر غور کرو تو سمجھ آ جائے گی کہ امریکہ میں بھی جمہوریت کس قدر مظلوم ہے اور سازشیں کتنی طاقتور۔ دوسروں کے ہمہ قسم معاملات میں ٹانگ پھنسانے والا امریکہ خود کس سازش کا شکار ہے کبھی اس پر بھی ایک آدھ مضمون یہاں شامل کر دیا کرو تا کہ امریکی حکومت کی نام نہاد غیر جانبداری اور آزادی ظہار کا کچھ تو بھرم رہ سکے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دوسروں کے عقائد و ایمان پر بکواس کو آزادی
اظہار کہہ دیا اورجب امریکی عوام Capture Wall Street مظاہرہ کریں تو آزادی اظہار تیل لینے چلی جاتی ہے اور امریکی سیکورٹی سورمے اپنے ہی عوام کو ظالمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ خواتین کو نازک اعضاء سے پکر کر گھسیٹتے ہیں۔
محترم بات سیدھی سی ہے ۔ احترام کروانا ہے تو احترام کرنا ہو گا۔ ورنہ جب تک سپر پاوری کا نشہ ہے تب تک غُل غپاڑہ کرتے رہو تا وقتیکہ کوئی دوسرا بھی کل کو تمہارے اس عمل کا اطلاق تمہی پر کر گزرے اور میں نہیں سمجھتا کہ امریکی تاریخ میں کمزور ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سب کے لئے ایک بڑا نقصان ہو گا لیکن امریکی حکمران ٹولہ امریکہ اور دنیا کا بیڑا غرق کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
ارے میرے بھائی ، پاکستان میں یو ٹیوب بند ہے اس کے لنک بھیجنے میں اپنی صلاحیتیں برباد نہ کرو اور اگر یہ چل بھی رہی ہوتی تو ہیلری اور اوبامہ کو دیکھنے اور سننے سے بہتر بہت سارے کام ہیں ہم لوگوں کے پاس۔ وہی گھسا پٹا رونا رو رہے ہوں گے آزادی اظہار کا۔ یار اگر تم لوگ اسی طرح سے آزادی اظہار کرنے کو جائز قرار دیتے ہو تو پھر اس کے رد عمل میں ہونے والے خون خرابے کے بھی تمہی ذمہ دار ہو۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی لا حاصل کوششیں نہ کیا کرو۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی جان اسرائیلی طوطے میں ہے اور اسرائیل کے ہر ناجائز کام کو تم لوگ جس طریقے سے تحفظ دیتے ہو اس فلم کے حوالے سے بھی وہی بات عیاں ہے۔ یہ فلم اسرائیلی شہہ پر بنی ہے اورامریکہ کی کیا مجال کہ اس پر پابندی لگا سکے ۔ بھئی جب ہم تمہاری مجبوری سمجھتے ہیں تو کیا ضرورت ہے اتنی صفائیاں پیش کرنے کی؟۔ یہ تو تم امریکیوں کی سوچ پر منحصر ہے کہ کس حد تک صیہونی غلامی میں جانے کی ہمت رکھتے ہو۔
یہاں آنے سے قبل اپنے عوام اور دانشوروں کو ہی پڑھ لیا کرو جو متواتر امریکہ کو خبردار کر رہے ہیں کہ اس کی جانبدارانہ پالیسیاں دنیا کا امن تباہ کر رہی ہیں۔ کہو تو روزانہ آپ کے امریکی دانشوروں کے مقالات کے لنک آپ کو ارسال کر دیا کروں شاید سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تو آپ کو ان سے دور رکھتا ہو گا۔ اوبامہ کے 4 سال پورے ہونے کو آئے کبھی اس دورانئے پر غور کرو تو سمجھ آ جائے گی کہ امریکہ میں بھی جمہوریت کس قدر مظلوم ہے اور سازشیں کتنی طاقتور۔ دوسروں کے ہمہ قسم معاملات میں ٹانگ پھنسانے والا امریکہ خود کس سازش کا شکار ہے کبھی اس پر بھی ایک آدھ مضمون یہاں شامل کر دیا کرو تا کہ امریکی حکومت کی نام نہاد غیر جانبداری اور آزادی ظہار کا کچھ تو بھرم رہ سکے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ دوسروں کے عقائد و ایمان پر بکواس کو آزادی
اظہار کہہ دیا اورجب امریکی عوام Capture Wall Street مظاہرہ کریں تو آزادی اظہار تیل لینے چلی جاتی ہے اور امریکی سیکورٹی سورمے اپنے ہی عوام کو ظالمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ خواتین کو نازک اعضاء سے پکر کر گھسیٹتے ہیں۔
محترم بات سیدھی سی ہے ۔ احترام کروانا ہے تو احترام کرنا ہو گا۔ ورنہ جب تک سپ پاوری کا نشہ ہے تب تک غُل غپاڑہ کرتے رہو تا وقتیکہ کوئی دوسرا بھی کل کو تمہارے اس عمل کا اطلاق تمہی پر کر گزرے اور میں نہیں سمجھتا کہ امریکی تاریخ میں کمزور ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سب کے لئے ایک بڑا نقصان ہو گا لیکن امریکی حکمران ٹولہ امریکہ کا بیڑا غرق کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔
کس بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں ساجد بھائی۔۔۔
 

ساجد

محفلین
کس بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں ساجد بھائی۔۔۔
فاتح بھائی اس لئے بجا رہا ہوں کہ ان کا باجا بجنے سے پہلے ان کو بین کی آواز سے آگاہ کر دیا جائے کہ بین کے مقابلے میں باجے کی آواز بہت سخت ہوتی ہے۔ ویسے باجا تو سی آئی اے بھی بجاتی ہے ان لوگوں کا جن کو وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر چکی ہوتی ہے اور پھر ان "رازداروں" کا ایک ہی حل ہوتا ہے جسے موت کہتے ہیں۔
 

فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی اس لئے بجا رہا ہوں کہ ان کا باجا بجنے سے پہلے ان کو بین کی آواز سے آگاہ کر دیا جائے کہ بین کے مقابلے میں باجے کی آواز بہت سخت ہوتی ہے۔ ویسے باجا تو سی آئی اے بھی بجاتی ہے ان لوگوں کا جن کو وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر چکی ہوتی ہے اور پھر ان "رازداروں" کا ایک ہی حل ہوتا ہے جسے موت کہتے ہیں۔
یہ توتا ان کا رازدان تو بہرحال نہیں ہے۔۔۔ لیکن یہ اپنی تنخواہ کھری کرنے کے لیے پیشہ ور قاتلوں کی وکالت کر رہا ہے اور امریکی سانپوں سے یاری میں یقیناً نقصان اس کا اور اس کے خاندان کا ہی ہے کہ یہ کسی بھی وقت ان کی امریکیت (بربریت) کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔
 
یہ فواد صاحب اپنے تعارف میں تو خاصی ڈینگیں ہانک رہے تھے۔
یہاں ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔
فواد صاحب آپ اپنی نوکری سے استعفی دے دیں۔ کیوں کہ آپ میں صلاحیت ہی نہیں کہ آپ کسی کی بات کا جواب دے سکیں۔
امریکہ بہادر کی چمچا گیری کرتے کرتے آپ نے اپنی عزت بھی گنوا دی ہے۔۔۔:ROFLMAO:
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکہ ميں آزادی رائے کے حوالے سے وزير خارجہ ہيلری کلنٹن اور صدر اوبامہ کے بيانات


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
ہمارے یہاں بالکل سچ لکھا آرہا ہے "ناٹ فاؤنڈ"۔۔۔:rollingonthefloor:
 

پردیسی

محفلین
فواد اپنی جگہ پر صحیح ہے اور آپ اپنی جگہ پر ۔۔۔۔۔ فواد اپنی ڈیوٹی پر ہے جس کی وہ تنخواہ لیتا ہے۔اس کے لئے اپنی ڈیوٹی سے زیادہ کوئی اور چیز اہم نہیں ہے
 
سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ ڈیوٹی کیا ہے۔ جو ڈیوٹی یہ حضرت اپنے تعارف میں بیان کر رہے تھے وہ تو یہ کر نہیں رہے۔
اگر ویڈیو شیئر کرنے کے ڈالر ملتے ہیں تو ہمیں بھی بتا دیں۔ ہم بھی یہ کام کر لیں گے۔:D
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ميں سی – آئ –اے کے ليے کام نہيں کرتا۔ ميں ايک امريکی شہری ہوں اور امريکی حکومت سے منسلک سينکڑوں کی تعداد ميں مسلمان شہريوں کے طرح ميں اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے اپنے فرائض انجام ديتا ہوں۔ ميرا مقصد کسی بھی موقع پر فورم پر ممبران کے مذہبی جذبات کو ٹھيس پہنچا کر دل آزاری کرنا ہرگز نہيں ہے۔ ميں صرف امريکی حکومت کا تصديق شدہ درست سرکاری موقف آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، ايک ايسے معاملے کے حوالے سے جس پر فورمز پر بے شمار سوالات اٹھائے گئے ہيں۔

يہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے بھی اور امريکی حکومت کے نمايندے کی حيثيت سے بھی ميں نے کسی بھی موقع پر نا تو فلم ميکر کے فعل کا دفاع، تائيد، سپورٹ يا اس کی توجيہہ پيش کی ہے اور نا ہی اس کے اقدام کو بے ضرر قرار ديا ہے۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس موضوع کے حوالے سے ميری تمام پوسٹنگز کا اگر آپ سرسری جائزہ ليں تو آپ پر واضح ہو گا کہ ميں نے امريکی صدر اوبامہ اور وزير خارجہ ہيلری کلنٹن کے کے بيانات سميت اس معاملے کے حوالے سے مذمتی ردعمل کو ہی اجاگر کيا ہے۔

جہاں تک امريکہ ميں آزادی رائے کے حوالے سے آپ کی رائے ہے تو ميں اس حد تک آپ سے متفق بھی ہوں اور اس غم و غصے کو بھی سمجھ سکتا ہوں جس کی وجہ سے فورمز پر بحث کی جا رہی ہے۔ ميں اس تجزيے کو بھی درست سمجھتا ہوں کہ اس معاملے ميں کچھ افراد نے جانتے بوجھتے ہوئے اپنے حقوق اور قوانين کا استعمال کر کے دانستہ نا صرف يہ کہ امريکی مسلمانوں بلکہ دنيا بھر ميں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کيا ہے۔

ليکن مہذب معاشروں ميں جو قانونی فريم ورک اور آئينی حدود مرتب کی جاتی ہيں انھيں ان چند افراد کے فعل اور خواہشات کے تابع يا يرغمال نہيں بنايا جا سکتا جو بہرکيف دنيا ميں فتنہ پھيلانے کے متمنی رہتے ہيں۔ معاشرے کی عمومی بہتری اور اکثريت کا مفاد ان اصولوں پر منحصر ہوتا ہے جو صديوں سے ہمارے ملک کی بنيادی اساس کا حصہ رہے ہيں۔

افراد کے اظہار رائے کی آزادی اور ان آئينی حقوق کو سلب کرنا، ان پر قدغن لگانا اور پابندياں عائد کرنا جو امريکی معاشرے ميں ہر فرد کو حاصل ہيں نا صرف يہ کہ ہمارے اپنے قوانين اور آئين کی شکنی ہو گی بلکہ ان غير مقبول گروہوں کے ليے بھی فتح کی نويد ہو گی۔ اور اس کا خميازہ امريکی مسلمانوں سميت آبادی کی اس اکثريت کو بھی بھگتنا ہو گا جو انھی قوانين اور حقوق کو استعمال کر کے معاشرے کی بہتری کے ليے بيش بہا کام اور جدوجہد کر رہے ہيں۔

يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے ليے مختلف پيمانے اور امتيازی برتاؤ روا رکھے۔ ہم اس بنياد پر افراد اور گروہوں کے خلاف قانونی چارہ جوہی نہيں کر سکتے کہ انھوں نے دانستہ معاشرے کے ديگر طبقوں کی دل آزاری کے ليے اپنے خيالات کا پرچار کيا ہے، چاہے وہ خيالات کتنے ہی قابل مذمت، غير اخلاقی يا قابل نفرت کيوں نہ ہوں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فاتح

لائبریرین
سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ميں سی – آئ –اے کے ليے کام نہيں کرتا۔ ميں ايک امريکی شہری ہوں اور امريکی حکومت سے منسلک سينکڑوں کی تعداد ميں مسلمان شہريوں کے طرح ميں اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبر کی حيثيت سے اپنے فرائض انجام ديتا ہوں۔
تمھیں کس نے کہہ دیا کہ تم اتنے اہم ہو گئے ہو کہ سی آئی اے کے لیے کام کرو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ساجد بھائی نے لکھا تھا کہ تم جیسوں کو اگر کوئی راز پتہ چل جائیں تو سی آئی اے اپنا کام ختم ہونے کے بعد تم جیسے چھوٹے موٹے پیادوں کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ جب وہ جے ایف کینیڈی کو ختم کر سکتی ہے تو تم کیا چیز ہو؟
ميرا مقصد کسی بھی موقع پر فورم پر ممبران کے مذہبی جذبات کو ٹھيس پہنچا کر دل آزاری کرنا ہرگز نہيں ہے۔ ميں صرف امريکی حکومت کا تصديق شدہ درست سرکاری موقف آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں، ايک ايسے معاملے کے حوالے سے جس پر فورمز پر بے شمار سوالات اٹھائے گئے ہيں۔
اگر تم اتنے ہی سوالات کے جوابات دینے والے ہوتے تو میرے سوالات کا جواب دیتے تکلیف کیوں ہوتی ہے؟ ڈرون کے ذریعے معصوموں کو قتل کر کے امریکیت کا ثبوت دینے کے متعلق سوالات کا ذکر کر رہا ہوں مسٹر جینئس۔
يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے ليے مختلف پيمانے اور امتيازی برتاؤ روا رکھے۔ ہم اس بنياد پر افراد اور گروہوں کے خلاف قانونی چارہ جوہی نہيں کر سکتے کہ انھوں نے دانستہ معاشرے کے ديگر طبقوں کی دل آزاری کے ليے اپنے خيالات کا پرچار کيا ہے، چاہے وہ خيالات کتنے ہی قابل مذمت، غير اخلاقی يا قابل نفرت کيوں نہ ہوں۔
واہ اس سے زیادہ غیر عقلی یا احمقانہ جواب شاید زندگی میں کبھی نہیں سنا ہو گا میں نے۔
نوٹ: اپنے آقاؤں کا لکھا ہوا کاپی پیسٹ کرتے ہوئے فارمیٹنگ ہٹا دیا کرو۔۔۔
 
Top