عیدالفطر سے چند دن قبل ایک سفارتی تقریب میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کو ایک خاتون بیوروکریٹ نے گھیر رکھا تھا۔ خاتون امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر سیخ پا تھیں اور بار بار ایک ہی سوال کئے جا رہی تھیں کہ اے این پی اقتدار میں آنے سے پہلے کہتی تھی کہ امن چاہئے تو ہمیں ووٹ دو، پختونوں نے اے این پی کو اپنے صوبے کا اقتدار دلوا دیا لیکن ابھی تک انہیں امن کیوں نہیں ملا؟ اسفند یار ولی بڑی عاجزی سے یہ کہہ رہے تھے کہ ابھی ہمیں اقتدار میں آئے صرف چند ماہ ہوئے ہیں کچھ وقت دیجئے اور دعا کیجئے انشاء اللہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ خاتون بیوروکریٹ کے لہجے کی تلخی بڑھ رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ ہمیں جھوٹی امیدیں نہ دلائیں۔ ان کا تلخ لہجہ دیگر مہمانوں کو بھی متوجہ کر رہا تھا۔ اسفند یار ولی کے اردگرد اسلام آباد کے چیدہ چیدہ با اثر اور جانے پہچانے مرد و خواتین کا ایک چھوٹا سا مجمع اکٹھا ہو گیا۔ یہ مجمع آہستہ آہستہ عوامی عدالت بننے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ سیاستدانوں کو اپنی اپنی عدالتوں میں گھسیٹنا ہمارا قومی مشغلہ بن چکا ہے۔ اسفند یار ولی پر چاروں طرف سے جرح شروع ہو چکی تھی۔ اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور جرح کرنے والوں سے کہا کہ آپ کے خیال میں ہمیں اقتدار مل چکا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک پورا اختیار نہیں ملا، جب صوبے کی اسمبلی اور منتخب حکومت کے ہر فیصلے پر عمل درآمد ہو گا اور ہر فیصلہ اس سے پوچھ کر کیا جائے گا صرف اسی وقت حالات تبدیل ہوں گے۔ یہ سن کر جرح کرنے والوں نے اپنے چہروں پر حیرت طاری کر لی۔ اس حیرت کو دور کرنے کیلئے اسفند یار ولی نے میری طرف دیکھا۔ میں نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ اے این پی کو صوبے کا مکمل اقتدار مکمل اختیار کے ساتھ حاصل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ایک صاحب نے بڑے غصے میں کہا کہ کھل کر بات کیجئے تا کہ ہمیں سمجھ آئے۔ اسفند یار ولی نے کہا کہ اگر کھل کر بات کر دی تو آپ ایک دفعہ پھر ہمارے خلاف غداری کا فتویٰ صادر کردیں گے اس لئے فی الحال ہم اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر کھل کر بات نہیں کر رہے تاکہ پاکستان میں کوئی نیا طوفان کھڑا نہ ہو جائے۔
اسفند یار ولی اپنی بات مکمل کر کے دوسری طرف متوجہ ہو گئے اور بے چین مجمعے نے مجھے گھیرا ڈال لیا۔ خاتون بیوروکریٹ نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آپ میڈیا والے تو سچائی کے علمبردار بنتے ہیں آپ سچ کیوں سامنے نہیں لاتے؟ طنز کا تیر سیدھا میرے دل میں جا کر چبھا۔ میں نے تلملا کر کہا کہ تو پھر سنئے ! سوات میں دو چینی انجینئروں کے اغواء سے صرف تین دن قبل پشاور میں وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی اور اے این پی کے سیکرٹری اطلاعات زاہد خان نے قومی سلامتی کے ذمہ دار ایک ادارے کے اعلیٰ افسر کو ایک ایسے جرائم پیشہ شخص کے ٹھکانے کے متعلق اطلاع دی جو سوات میں امن و امان کی صورت حال بگاڑنے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ زاہد خان نے مذکورہ افسر سے کہا کہ یہ شخص پشاور کے قریب قبائلی علاقے میں اسلحے کا ذخیرہ اکٹھا کر رہا ہے اور ہم آپ کو اس کے ٹھکانے تک لے جا سکتے ہیں۔ قبائلی علاقے میں صوبے کی پولیس کارروائی نہیں کر سکتی اس لئے آپ سے کہہ رہے ہیں۔ بد قسمتی سے مذکورہ افسر نے سنی ان سنی کر دی اور تین دن کے بعد اس جرائم پیشہ شخص نے دو چینی انجینئر اغواء کر لئے۔مجھ سے چند گز کے فاصلے پر زاہد خان بھی کھڑے تھے۔ میں نے اپنے مخاطب سے کہا کہ اگر یقین نہ آئے تو زاہد خان آپ کے دائیں طرف موجود ہیں ان سے جا کر تصدیق کر لو۔ ان صاحب نے کہا کہ چھوڑئیے جی ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ اسفند یار ولی، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور الطاف حسین پر مشتمل حکمران اتحاد حالات کو سدھارنے کا اہل ہی نہیں یہ تو صرف امریکہ کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بیک وقت تین چار مقررین کی تقریریں شروع ہو چکی تھیں۔ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے ان سب کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ کو سب معلوم ہے باقی لوگ بے وقوف ہیں لہذا میرے ایک سوال کا جواب دیجئے؟ کیا وجہ ہے کہ امریکی جاسوس طیارے بار بار شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر میزائل فائر کرتے ہیں لیکن باجوڑ اور سوات کی طرف نہیں آتے جہاں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ہے؟ کیا امریکیوں کے دشمنوں اور ہماری فوج کے دشمنوں میں کوئی فرق ہے؟
یہ سوال سن کر سفارتی محفل کے تمام سقراط و بقراط خاموش ہوگئے۔ کچھ دور کھڑے اسفند یار ولی نے مجھے اشارہ کیا کہ جواب دو۔ میں بھی خاموش تھا۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کچھ نہ کچھ معلوم ہے۔ آج آپ وہ بتا دیں جو آپ ٹی وی پر نہیں کہہ سکتے اور اخبار میں نہیں لکھ سکتے۔ میں نے اس بزرگ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً بہت سے صحافیوں کو بہت کچھ معلوم ہے لیکن وہ سب کچھ سامنے لانے سے اس لئے گریزاں ہیں کہ پاکستان میں ایک نیا طوفان کھڑا نہ ہو جائے، ریاستی ادارے ایک دوسرے سے ٹکرانے نہ لگیں کیونکہ خدانخواستہ ایسی صورت میں دشمن صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ بزرگ نے زور دیا کچھ تو بتائیے۔ میں نے عرض کیا کہ جو مجھے معلوم ہے وہ کوئی راز نہیں۔ جب سے کابل پر امریکہ کا قبضہ ہوا ہے پاکستان میں بد امنی شروع ہوئی۔ اس خطے میں عدم استحکام کی اصل وجہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی ہے۔ امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت کی مدد سے ایک خطرناک کھیل شروع کر چکا ہے۔ امریکی جاسوس طیارے بار بار شمالی وزیرستان میں میزائل فائر کرتے ہیں تاکہ وہاں کے قبائل بھی ردعمل میں پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
فی الحال شمالی وزیرستان کے عسکریت پسند پاکستانی فوج کے ساتھ نہیں لڑ رہے بلکہ سرحد پار افغانستان میں اپنے بھائیوں کی امریکہ کے خلاف مدد کرتے ہیں۔ امریکی فوجی جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود پر حملہ نہیں کرتی لیکن انگور اڈہ میں بار بار مولوی نذیر پر حملہ کرتی ہے کیونکہ مولوی نذیر پاکستان کے خلاف نہیں لڑتا۔ خیبر میں حاجی نامدار کی تنظیم امر بالعمروف پاکستانی فوج سے نہیں لڑتی تھی بلکہ سرحد پار امریکی فوج سے لڑتی تھی۔ چند ہفتے قبل حاجی نامدار کو باڑہ میں قتل کروا دیا گیا لیکن جو لوگ مہمند میں بیٹھ کر اسفند یار ولی پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ان تک کوئی نہیں پہنچتا۔ دراصل پاکستان میں طالبان کی کوئی مرکزی کمان نہیں۔ طالبان کا صرف نام استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک طالبان وہ تھے جنہوں نے افغانستان میں ایک برطانوی صحافی ایوان ریڈلی کو جاسوسی کے شبے میں گرفتار کیا۔ا یوان ریڈلی افغان طالبان کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی۔ دوسری طرف نام نہاد پاکستانی طالبان کا کردار ہے جو معصوم بے گناہ مسلمانوں کو قتل کر کے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ آئے دن چینی انجینئروں کو اغواء کر کے اور ان پر حملے کر کے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ بھارت و امریکہ کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ایک طرف طالبان کے نام پر منافقت جاری ہے دوسری طرف اس جنگ کو اپنی جنگ کہنے والے بھی منافقت کا شکار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خوست کے راستے بھارت کیا کھیل کر رہا ہے لیکن بھارتی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے سیاسی و صحافتی سورماؤں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ پاکستان کے دوستوں اور دشمنوں میں بیک وقت مقبولیت کی خواہش میں مبتلا حکمرانوں کو چاہئے کہ اب قوم کو سچ بتا دیں کہ اسفند یار ولی پر بار بار قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے وہی ہیں جن کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے، حکمران صرف گماشتوں کو للکار رہے ہیں ان گماشتوں کے غیر ملکی سرپرستوں کا نام نہیں لے رہے۔ دوست بن کر پیچھے سے وار کرنے والے ان دشمنوں کی درست نشاندہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=308385