۔ آپکا آرگومنٹ ہے کہ 2008 میں ملا عمر کے ترجمان ڈان اخبار میں یہ بیان دے رہے ہیں۔
۔ جبکہ محسود کی سرگرمیاں اس سے کہیں پہلے سے جاری ہیں۔
بیت اللہ محسود کی سرگرمیاں یقنا ا س سے قبل جاری تھیں تاہم اکتوبر 2007 سے پہلے پہلے قبائلی علاقوں میں نہ صرف بیت اللہ بلکہ کئی اور افراد سرگر م عمل تھے تاہم تحرک طالبان پاکستان کا وجود نہ تھا ،بطور خاص میرا جو دعوہ ہے وہ یہ کہ تحریک پاکستان طالبان اور افغان طالبان الگ الگ دو تنظیمیں ہیں اور ان کے آپس میں عسکری روابط نہیں ہیں۔آئیے اسی پر بات کرتے ہیں اور یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ تحریک پاکستان طالبان ہی اس وقت نمائندہ تنظیم ہے۔
اکتوبر 2007 میں قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں خفیہ طور پرسرگرم مقامی طالبان کے تقریباً چھ مختلف گروپوں نے متحد ہو کر ’تحریک طالبان‘ ‘ نامی ایک نئی تنظیم تشکیل دینے کا باقاعدہ اعلان کیا۔اس تنظیم کو تنظیم کو ’تحریکِ طالبان مہمند ایجنسی‘ کا نام دیکر عمر خالد کو امیر جبکہ مولانا گل محمد کو نائب امیر مقرر کردیا گیا۔ اس کے بعد دسمبر 2007 میں طالبان کے مختلف گروپوں کے تقریباً بیس نمائندوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ’ تحریک طالبان پاکستان‘ کے نام سے ایک نئی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔جس کے امیر بیت اللہ محسود اوو ترجمان مولوی عمر نامی شخص کو چنا گیا اور جو بیان آپ نے ڈان میں ملاحظہ کیا وہ جنوری 2008 کا ہے چنانچہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بہت جلد اس تنظیم سے لا تعلقی کا اعلان کیا۔اس تنظیم کے قیام سے قبل افغان طالبان اور مقامی قبائلی رہنماوں یعنی بیت اللہ محسود وغیرہ میں یقینا نظریاتی ہم رہی ہو جبھی اس تنظیم کا نام تحریک طالبان پاکستان رکھا گیا ۔اس کے باوجود یہ کہنا کہ اس تنظیم کے ساتھ افغان طالبان کے روابط ہیں یہ حقائق کے خلاف بات ہے کیوں کہ دونوں طرف سے اس سلسلے میں تردیدی بیان آچکا ہے۔
اگر افغانی طالبان واقعی محسود کے خلاف ہوتی اور اسے دہشتگرد، قاتل و خود کش حملوں کا مجرم سمجھ رہی ہوتی اور سمجھتی کہ محسود افغانی طالبان کو بدنام کر رہا ہے، تو اس سے کہیں زیادہ کھل کر اس سے اپنی براۃ ثابت کرتی اور بار بار کرتی اور کسی ایک انگریزی اخبار میں ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا بیان دینے کی بجائے اردو اخبارات میں کھل کر اپنی براۃ کا اظہار کرتی۔
عمومی طور پر آپ کی تحاریر جذاتیت کا شاہکار اور حقائق اور حوالہ جات سے محروم ہوتی ہیں ۔یہ پوسٹ بھی اس کی ایک بدترین مثال ہے اس کے علاوہ آپ کی ڈیمانڈز بھی کافی جلدی جلدی تبدیل ہوتی رہتی ہیں اپنی پہلی پوسٹ پر نظر ڈالئیے
لوگ کہتے ہیں کہ افغانی طالبان محسود کی حمایت نہیں کرتی۔۔۔۔۔ تو یہ بس جھوٹی باتیں ہیں اور نہیں ہیں ان لوگوں کے پاس کوئی ثبوت سوائے بار بار حامد میر جیسے لوگوں کے ذریعے اس پروپیگنڈہ کے دہرانے کے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دہرا دہرا کر باطل کو حق بنا دینے کے
یہاں آپ کہ رہی تھیں کہ ماسوئے حامد میر کے اور کوئی ثبوت نہیں کہ افغان طالبان نے پاکستانی طالبان سے براءت ظاہر کی ہو اور اب جب آپ کو افغان طالبان کا بیان دکھا دیا گیا تو اب آپ یہ کہ رہی ہیں
اگر افغانی طالبان واقعی محسود کے خلاف ہوتی اور اسے دہشتگرد، قاتل و خود کش حملوں کا مجرم سمجھ رہی ہوتی اور سمجھتی کہ محسود افغانی طالبان کو بدنام کر رہا ہے، تو اس سے کہیں زیادہ کھل کر اس سے اپنی براۃ ثابت کرتی اور بار بار کرتی اور کسی ایک انگریزی اخبار میں ایک آدھا ٹوٹا پھوٹا بیان دینے کی بجائے اردو اخبارات میں کھل کر اپنی براۃ کا اظہار کرتی۔
پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کوئی پریس کانفرنس اٍفغان طالبان کسی فائیو اسٹار ہوٹل منعقد کرتے نہیں ہیں نا ہی یہ کوئی جائداد سے محرورمی کے اشتہار کی طرح ہے نہ ہی کسی بڑی پروڈکٹ کے اشتہاری کمپین کی طرح ہے کہ ایک ہفتے تک پہلے صفحے پر بڑے بڑے اشتہار آئیں تاہم آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایسا ہی ایک اور بیان جنگ میں بھی چھپ چکا ہے پڑھیئے
کراچی (امین اللہ فطرت…نمائندہ خصوصی) طالبان اسلامی تحریک افغانستان کے مرکزی ترجمان کمانڈر محموداللہ حق یار نے پاکستان کی طالبان تحریک کے سربراہ بیت اللہ محسود کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی اطلاعات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ طالبان اسلامی تحریک پاکستان ایک خودمختار تحریک ہے اور بیت اللہ محسود اس کے سربراہ ہیں۔ اس تحریک میں ہماری جانب سے ڈکٹیشن اور فیصلے مسلط نہیں کئے جاتے۔ یہ بات انہوں نے نامعلوم مقام سے سیٹ لائٹ فون پر ”جنگ“ کو گفتگو کے دوران بتائی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان کے سربرا ہ ملا محمد عمر کی جانب سے بیت اللہ محسود کو ہٹائے جانے کی اطلاعات ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہیں تاکہ غلط پروپیگنڈا کرکے تحریک طالبان پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے، یہ سب کچھ میڈیا کی ایک مخصوص لابی اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کیلئے کررہی ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی ان کی یہ ڈس انفارمیشن اور منفی پروپیگنڈاکامیاب نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے کہ تحریک طالبان پاکستان اسی طرح مضبوط اور منظم ہے جس طرح افغانستان میں طالبان کی تحریک تمام مظالم، ڈس انفارمیشن اور غلط پروپیگنڈے کے باوجود نہ صر ف فعال اور منظم ہے بلکہ افغانستان میں اس کے اثر و رسوخ اور عوامی پذیرائی کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملا محمد عمر نے بیت اللہ محسود کو کئی مرتبہ تجویز دی ہے کہ وہ پاکستانی فوج سے لڑنے کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلہ کو حل کریں تو یہ تحریک کے لئے فائدہ مند ہوگا، تاہم ہمارے مشورے تجویز کی حد تک ہیں ان پر عملدرآمد کرنا یا نہ کرنا ان کے اپنے دائرہ اختیار میں آتا ہے، ہم ان پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کرتے اور نہ ہی ان کو ڈکٹیشن دیتے ہیں تاہم ہماری ہمدردیاں اور حمایت مکمل طور پر ان کے ساتھ ہے۔ ایک سوال پر طالبان تحریک کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو میں شامل دو تین ممالک نے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے، ہم اس کو مسترد کرتے ہیں، تاہم جب تک وہ اپنی فوجیں افغانستان سے واپس نہیں بلالیتے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جو ممالک مذاکرات چاہتے ہیں وہ امریکا کی حمایت ترک کرکے اپنی فوجوں کو واپس بلالیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ افغانستان میں موجود رہیں اور ہم ان سے مکالمہ کریں
۔
http://search.jang.com.pk/search_details.asp?nid=251030
یعنی یہ کہ افغان طالبان سے اگر پاکستانی طالبان کا کوئی تعلق ہے تو صرف اتنا کہ دونوںجماعتیں امریکی مخالف میں متفق ہیں یہ تعلق نظریاتی ہے نہ کہ افغان طالبان عسکری طور پر پاکستانی طالبان سے کوئی تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ ترجمان نے ڈان میں کہا کہ
there Are Mujahideen In Iraq Who Have Taken Baya’h To Mullah Omar And There Are Mujahideen In Saudi Arabia Who Have Taken Baya’h To Him. So Taking Baya’h Does Not Mean That Mullah Omar Has Direct Operational Control Over Them,” The Spokesman Said
اور اس یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ بیت اللہ محسود اب پاکستانی فوج سے جو جھڑپیں کر رہا ہے اس کو افغان طالبان بھی پسند نہیں کر رہے۔اور یہ بھی المیہ ہے کہ بیت اللہ جو کہ امریکا کا مخالف تھا بعد ازاں پاکستانی فوج سے آمادہ جنگ ہو گیا۔
ان اخباری رپورٹوں کو میں کیسے نگل جاوں کہ مستقل افغانی طالبان کی طرف سے وفود آتے رہے اور مختلف پاکستانی طالبانی دھڑوں کو محسود کے تحت جمع ہونے کی ہدایات دیتے رہے؟
یہ اخباری رپورٹس اگر آُ پ شیئر کر سکیں تو ان پر بھی بات کی جاسکتی ہے۔
یہ دعوی تو ایک مذاق ہے مگر حیف کہ پروپیگنڈہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا دینا اور معصوم انسانوں کو گمراہ کر دینا چنداں مشکل ثابت نہیں ہوتا۔ محسود کے ترجمان ملا عمر کے متعلق یہ غیر ملکی اخبار کونسا ہے اور اسکے یہ دعوی کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟
کیا محسود نے آگے بڑھ کر اس بات کی تکذیب کی؟ یہ اکلوتا سوال کافی ہے۔
مولوی عمر جو تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان ہیں ان کے خودکش حملوں کے بارے میں دعوے عموما غلط ہو تے ہیں اور آپ مجھ سے پوچھ رہی ہیں کہ وہ غیر ملکی اخبار کون سا ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ حملہ پاکستانی طالبان کا نہیں اور جس سے مولوی عمر کا بیان غلط ثابت ہو جاتا ہے ؟ محترمہ مجھے آُ پ سے شکایت بے جا نہیں کہ آپ جذبات کی ایک ایسی اندھی ٹرین یک طرفہ چلاتی ہیں جہاں حقائق ، دلائل اور حوالوں کا کوئی گزر نہیں ہوتا اگر آپ تھوڑی زحمت کرتیں اور میری پہلی پوسٹ جس کے جواب میں آپ اس تھریڈ پر تشریف لائیں ہیں پوری پڑھ لیتیں تو یہ سوال نہیں کرتیں لیجئے پھر پڑھ لیجئے
Thursday's Attack At Wah Is A Portend Of What Lies In Store For The Country. That Attack, Although Claimed By The Pakistan Taliban, Was Carried Out By Pakistani Criminal Gangs With Religious Orientations And Allied With The Takfiris
یہ رپورٹ ایشیا ٹائمز کی ہے اور لنک آپ سابقہ پوسٹ میں دیکھ سکتی ہیں ۔ اس رپورٹ کی تائید بی بی سی کے اس کالم سے بھی ہوتی ہے جس سے یہ تھریڈ شروع ہوئی تھی ذرا اس رپورٹ سے بھی کچھ اقتباسات دیکھیئے
یہاں پر ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ جب کوئی کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو کیا وہ قابل اعتبار ہوتا بھی ہے کہ نہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ کئی برس قبائلی علاقوں، صوبہ سرحد اور جنوبی و مشرقی افغانستان میں جاری شدت پسندی کے واقعات کو رپورٹ کرتے ہوئے میرا ایسی کئی مضحکہ خیز باتوں سے سامناہوا ہے جن سے میری نظروں میں ذمہ داری قبول کیے جانے کے عمل کو مشکوک بنادیا ہے۔ مثال کے طور پر۔۔۔۔۔
جب تین ستمبر کو اسلام آباد ہائی وے پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی گاڑی پر پُر اسرار فائرنگ ہوئی تو مجھے سکیورٹی فورسز کے ساتھ بر سرِ پیکار مسلح طالبان کے ایک معروف رہنماء نے فون کیا اور پوچھا کہ کیا نئی تازی ہے۔ میں نے وزیراعظم کی گاڑی پر فائرنگ کا واقعہ سنایا تو انہوں نے پہلے تو حیران ہوکر پوچھا ’اچھا یہ کب ہوا ہے۔۔۔؟‘ پھر تھوڑی دیر بعد ہنستے ہوئے کہنے لگے ’خبر چلا کر ہمارے ہی کھاتے میں ڈال دو اور کہہ دو کہ یہ باجوڑ اور سوات کے آپریشن کا ردعمل ہے‘۔
دوسری مثال تین جون دو ہزار چار کی ہے جب کراچی میں کور کمانڈر کے موٹر کیڈ پر حملہ ہوا۔ اس دن بی بی سی پشتو کے نامہ نگار نے جنوبی وزیرستان میں ایک معروف طالب کمانڈر کو وانا میں جاری حکومتی کارروائی کے سلسلے میں ان کا مؤقف جاننے کے لیے فون کیا۔ طالب کمانڈر نے حسب معمول حال و احوال کے بعد ملک کی صورتحال پوچھی۔ انہوں نے کور کمانڈر پر حملے کا واقعہ سنایا تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرکے تفصیلات پوچھیں۔ بقول ہمارے نامہ نگار کے کسی اور موضوع پر انٹرویو جونہی شروع ہوا تو طالب کمانڈر نے کہا کہ ’آج کراچی میں کور کمانڈر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری ہم قبول کرتے ہیں اور یہ وانا میں جاری فوجی آپریشن کا ردعمل ہے‘۔
اس قسم کے اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ یہی ہو کہ گزشتہ کئی سال کے دوران پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے میڈیا اور لوگوں سے جان خلاصی کی خاطر درجنوں تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دینے کا اعلان تو کیا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں آج تک ایک بھی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاسکی ہے۔
جس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کیونکہ کسی بھی واقعہ کی بظاہر ذمہ داری تو تحریکِ طالبان قبول کرلیتی ہے جس میں سے کئی حملے انہوں نے کیے بھی ہونگے لیکن بعض اوقات پس پردہ سرگرم کچھ تنظیمیں، گروہ یا افراد کو بچ نکلنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
بیت اللہ محسود اب کیوں اس طرح کے حملے یا ان کی ذمہ داری قبول کرتا ہے اس کا جوابآپ کو بی بی سی کی اس مذکورہ بالا رپورٹ میں مل سکتا ہے تاہم اس خراب صورت حال سے پہلے بیت اللہ محسود نے بھی ایسے حملوں کو رد کیا ہے میرا مشور آپ کو یہ ہے کہ نہ صرف بی بی سی کی یہ رپورٹ بلکہ جناب م م مغل صاحب نے جو دو کالم اسی تھریڈ میں دیے ہیں ان کو بھی بغور پڑھیئے ،چاہیں تو آنکھوں اور دماغ کے ساتھ دل بھی کشادہ کر لیجئے اور بغض معاویہ والی کیفیت سے باہر آجائے، کیونکہ آپ کی یہ پوسٹ حب علی کا تو پتہ نہیں دیتی البتہ بغض معاویہ کا شاہکار ضرور ہے۔
ور بی بی سی کی جو رپورت آپ نے پیش کی ہے اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جس سے افغانی طالبان کی محسودی طالبان سے براۃ ظاہر ہو رہی ہو، بلکہ یہ تو الٹی بات ثابت کر رہی ہے اور انکے آپس کے روابط کو ظاہر کر رہی ہے۔
اقتباس:
ابن حسن برادر کی بی بی سی کی پیشکردہ خبر سے اقتباس
:
آپ جو یہ کوٹ بی بی سی سے کر رہی ہیں یہ تو میں پہلے ہی اپنی پوسٹ میں نقل کر چکا ہوں لیکن آپ اس کو اپنی ڈسکوری قرار دے رہی ہیں؟ چلیں اسی طرح صحیح کچھ تو حوالے آپ کی پوسٹ میں دیکھنے کو ملے۔
مولوی عمر کا یہ بیان ناقابل قبول اس لیے ہے کہ جناب مولوی عمر اکثر متضاد بیانات دیتے ہیں حالانکہ افغان طالبان سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے پھر واہ کینٹ والا ان کا بیان غلط ثابت ہو چکا ہے چنانچہ جب تک ان کے اس بیان کی تائید میں افغان طالبان کا کوئی بیان سامنے نہیں آجاتا اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔کیا آپ اس سلسلے میں کوئی افغان طالبان کا بیان پیش کر سکتی ہیں؟ اگر افغان طالبان اتنے ہی سرگرم عمل ہیں تو یقنا ان کی سرگرمیوں کے ثبوت محض مولوی عمر کے بیانات سے بڑھ کر ہونے چاہیں کوئی ایسی روپرٹس آپ کے پاس ہیں تو شیئر کیجئے۔
افغانی طالبان کے محسود سے روابط چھپی ڈھکی بات نہیں اور اسی زمانے میں اخبارات میں متعدد رپورٹیں شائع ہوئی تھیں جس میں افغانی طالبانی وفود کی پاکستان آمد اور تمام پاکستانی طالبانی گروہوں کو منظم ہو کر محسود کے تحت جمع ہونے کی ہدایات دی گئیں تھیں [اور اوپر رپورٹ میں جو کہا کہ یہ افغانی طالبانی وفد پہلے سے ہی مہمند ایجنسی میں موجود تھا، وہ اسی سلسلے میں وہاں آیا ہوا تھا]۔
حوالہ درکار ہے۔ محض آپ کی تقریر اس کو ثابت نہیں کر سکتی۔
برادر، جب میں نے قادیانی سٹوڈنٹز کے ساتھ غیر قانونی برتاو پر احتجاج کیا تو آپ نے مجھ پر غیر ضروری الزام عائد کیا تھا۔
آپ سے استدعا ہے جو کچھ آپ نے یہاں پر لکھا ہے اس پر عملی طور پر عمل کیجئے۔
والسلام۔
مہوش وہ غیر ضروری الزام کیا تھا۔میرے خیال میں اس سلسلے میں اپ پر میں نے کوئی ضروری یا غیر الزام عائد نہیں کیا کیا آپ وہ غیر ضروری الزام یہاںنقل کر سکتی ہیں؟