سر جی پڑھنا آوندا ہوندا تے ایتھے ہی ہوندے بس جو کچھ لخیا گیا کالم وچ کالم نگار دی قلم تے اعتماد کردیا ہویاں کتاب نوں لتاڑ دتا بس
کالم نگار تو اپنے خیال کے مطابق تڑکہ لگاتا ہے۔ اگر اس کالم نگار کے پچھلے کالم پڑھے ہوں تو معلوم ہوگا کہ یہ ملالہ کے کتنا خلاف ہے۔ تو اس لحاظ سے ملالہ کے بارے میں اس کی کہی ہوئی بات کا اعتبار ہی نہیں رہتا۔ ویسے بھی جب بھی کتاب کی بات آتی ہے تو ہوا میں کوئی بات نہیں ہوتی ہر بات کا سیاق و سباق ہوتا ہے۔ اگر اس کے بغیر کوئی بات پیش کرے تو اس میں بدیانتی کے امکانات کافی بڑھ جاتے ہیں۔
Patriotism is the last refuge of a scoundrel (حب الوطنی ایک بدمعاش کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے) کہاوت کے تحت مقبول جان نے بھی یہی کارڈ کھیلا ہے، بلکہ اب تو اس میں سلمان رشدی اور توہین رسالت کی پناہ گاہیں بھی شامل کر دی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے یہ شخص اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کس حد تک گر سکتا ہے۔
ملالہ نے نہ ہی رشدی کی تعریف کی ہے اور نہ ہی ایسا کر سکتی ہے۔ اس نے صرف اپنے والد کی یہ بات نقل کی ہے کہ رشدی کے خلاف مظاہروں میں اپنے لوگ ہی مارے گئے تھے، اس سے بہتر طریقہ یہ تھا کہ اس کی کتاب کا جواب کتاب لکھ کر دیا جاتا۔ آپ اس کی بات سے اختلاف بھی رکھتے ہوں تب بھی رشدی کی تعریف کا پہلو اس میں کہاں پر نکلتا ہے؟
ہمیں غیرت کا سبق پڑھانے والا کس طرح ہلری کے سامنے مودبانہ انداز میں کھڑا ہے۔