”آئی ایم ملالہ“ کے اقتباسات ۔ ۔ ۔ پڑھتا جا شرماتا جا

سید ذیشان

محفلین
ویسے طالباناں لعنتیاں تے امریکہ بے غیرت نے رل کے کوئی 50000 کوئی ہزار پاکستانی ماد دتا تے پتا نئی کنےس و لولے لنگڑے کردتے نے کہ جنان دا کوئی پرسان حال نئی کی خیال اے اونہاں سبھناں نوں ناں اوس لعنتی نوبل پرائز واسطے نامی نیٹ کردتا جائے دسو کی آہدے اوہ؟؟؟

پا جی تسی جت گئے ہو۔ تسی مہان ہو۔ :notworthy:
 

نایاب

لائبریرین
آج کل کالم نگاروں تجزیہ نگاروں کی جاں پر بن آئی ہے ۔۔۔۔۔
لکھ لکھ قلم اٹکنے لگا لیکن معاشرے میں کوئی سدھار نہ دکھا ۔۔۔۔۔
تجارت تھی قلم کی ۔۔۔ منافع دیتی رہی ۔ لیکن اگہی کی شمع روشن نہ کر سکی ۔
اور اک بچی کی صدا" تعلیم سب کا حق " معاشرے میں آگہی کی شمع روشن کر گئی ۔۔۔۔۔۔۔
قلم کے تاجروں کو یہ کیسے برداشت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملالہ اک معصوم نہتی بچی کی اتنی جرات کیسے ہوئی کہ وہ اپنے حق کے لیئے آواز بلند کرے ۔۔۔۔
چلو آواز بلند کی ۔۔۔۔۔۔ سزا کے طور گولی کھائی ۔۔۔ اور بچ گئی ۔۔۔۔
بچ جانا بھی برداشت ملالہ کا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کی مزید حق گوئی برداشت کیسے ہو ۔
ہم قلم کے تاجروں سے ۔۔۔۔۔۔ زندگیاں گزر گئیں ۔ لکھ لکھ دفتر کے دفتر کالے کر دیئے ۔
لیکن کسی نے گھاس نہیں ڈالی ۔ یہ کل کی بچی اک ڈائری لکھ کر کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔
قلم جس کی قسم کھاتا ہے رب سچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے تو اس قلم سے کسی مرد کو نہ بخشا ۔۔۔ اپنے در پر بلا اپنا حصہ وسول کر لیا ۔۔۔۔
مگر یہ ملالہ اک لڑکی اپنی پنسل سے حق سچ لکھ کر تو ملال ہی بن گئی ہمارے قلم کے لیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ملالہ کا سب سے بڑا جرم اس کا عورت ذات ہونا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت اور حق کی آواز بلند کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں عورت ہوں !
میں جنم لوں تو گالی ہوں
میں ہوش سنبھالوں تو عزت ہوں
میں لٹ جاؤں تو عصمت ہوں
اے لوگو! ہاں میں عورت ہوں
میں پڑھنا چاہوں تو پرایا دھن ہوں
میں گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاؤں تو بٹیا ہوں
میں سر جھکائے ہر بات مانوں تو غیرت ہوں
کسی جبر و ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤں
یا کبھی انصاف مانگوں تو ڈائن ہوں
۔۔؟؟ کیونکہ میں عورت ہوں
m8l8ux.jpg
 

آبی ٹوکول

محفلین
کیا یہ وہی ملالہ ہے؟؟؟...کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔۔۔ انصار عباسی
ملالہ یوسفزئی کی کتاب ۔۔’’I AM MALALA‘‘ پڑھ کر دکھ ہوا ۔ سولہ سالہ بچی پہلے طالبان کے ظلم کا شکار ہوئی اب ایسے لوگوں کے ہاتھوں چڑھ گئی جو اُسے اسلام اور پاکستان کے خلاف استعمال کر نا چاہتے ہیں۔ایک بچی جس پر پہلے ہی ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا اور اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ سے اُس کو نئی زندگی بخشی، اب اُس کو ایسے معاملات میں گھسیٹا جا رہا ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی حساس نوعیت رکھتے ہیںاور جس کی وجہ سے اُس کی زندگی کوپہلے سے موجود خطرات میں بیش بہا اضافہ ہو جائے گا۔ کتاب پڑھ کر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ بےچاری ملالہ استعمال ہو گئی۔ورنہ ایک کتاب جس میں ایک بچی کی اپنی زندگی، اُس کی تعلیم کے حصول کے لیے جدوجہد اور قاتلانہ حملہ کی کہانی ہونی چاہیے تھی اُس میں ملعون سلمان رشدی کی کتاب The Satanic Verses کے حوالے سے آزادی رائے کے حق میں بات کرنا، اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانون کے نفاذپر اعتراض اُٹھانا، ناموس رسالت کے قانون کو پاکستان میں سخت کیے جانے کی بات کرنا، قادیانیوں اور مسیحی برادری پر پاکستان میں حملوں اور یہ کہنا کہ احمدی (قادیانی) اپنے آپ کو تو مسلمان کہتے ہیں جبکہ ہماری حکومت اُن کو غیر مسلم سمجھتی ہے ایسے موضوعات تھے جو مسلمانوں اور اسلام مخالف قوتوں کے درمیان تنائو کا باعث بنتے ہیں۔ یہ معاملات ایک سولہ سالہ بچی کی سمجھ سے بہت بڑے ہیں مگر ملالہ کا نام استعمال کر کے ان معاملات کو اس انداز میں اُٹھایا گیا جو عمومی طور پر مسلمانوںکو دکھ پہنچاتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کتاب پڑھ کر جس بات کا بہت دکھ ہواکہ بار ہا ملالہ نے پیغمبر اسلام ﷺ کا (Holy Prophet)حوالہ دیا مگر ایک مرتبہ بھی ﷺ (Peace Be Upon Him)نہیں لکھا۔ میںنے تو غیر مسلموںتک کو Prophet کے ساتھ PBUH لکھتے دیکھا ہے مگر ملالہ کے نام پرجو کیا گیا وہ نہ صرف کسی مسلمان کے شایان شان نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے جن کے مطابق ہر مسلمان کے لیے آپﷺ کا ذکر آنے پر ﷺ نہ کہنے پر سخت وعید ہے۔ میرے لیے تو یہ بات بھی ناقابل یقین ہے کہ سوات جیسے علاقہ سے تعلق رکھنے والی ایک بچی جو خود سر پر چادر لیے بغیر باہر نہ نکلتی ہو وہ اس بات پر احتجاج کرے گی کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں لڑکیوں کو ہاکی کھیلتے وقت نیکر (shorts)پہننے سے کیوں روکا گیا اور انہیں پاجامہ (baggy trousers) پہننے پر کیوں مجبور کیا گیا۔ملالہ کے نام سے کتاب میں یہ بھی لکھ دیا گیا کہ پاکستان ہندوستان سے تینوں جنگیں ہارا۔ ملالہ کا جنرل مشرف کی روشن خیالی کے حق میں بات کرنا اورجنرل ضیاء مرحوم کو اُن کی اسلامائزیشن کی پالیسیوں کی وجہ سے اس حد تک جانا کہ ضیاء مرحوم کی شکل کا مذاق اڑایا جائے کوئی اچھی بات نہیں۔کتاب میں ملالہ پر اُس کے والد ضیاء الدین یوسفزئی چھائے ہوے نظر آئے۔اس کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ضیاء الدین کوئی بہت بڑا ہیرو ہے جس کے لیے یہ کتاب لکھی گئی۔ ملالہ کے ہر دوسرے جملہ میں اُس کے والد کا حوالہ اور اُن کے خیالات کا اظہار ہے اور اسی وجہ سے ملعون سلمان رشدی جیسا معاملہ کتاب کا حصہ بنا۔ اس ملعون نے ہمارے پیارے پیغمبر محمدﷺ اور امہات المومنین کے متعلق توہین آمیز کتاب لکھی۔ ملالہ کہتی ہے کہ اُس کے والد اس کتا ب کو اسلام مخالف سمجھتے ہیں مگر وہ آزادی رائے کے حق پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ملالہ کو شاید یہ خبر بھی نہ ہو کہ جو اس نے لکھا یہی تو اسلامی دنیا کا مغرب سے جھگڑا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہماری مقدس مذہبی شخصیات اور عقائد کا مذاق نہ اڑایا جائے اور نہ ہی اُن کی توہین کی جائے مگر مغرب وہی بات کرتاجو ملالہ نے اپنی کتاب میں کی۔ہم تو لعنت بھیجتے ہیں ایسی آزادی رائے پر۔ کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ ملالہ اپنے باپ سے بہت محبت کرتی ہے۔ اگر کوئی آزادی رائے کے چیمپئینز کو اور اُن کے والدین کو ننگی گالیاں دیں تو کیا وہ اس کو اظہار کے نام پر برداشت کر لیں گے جب کہ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ آپﷺ کا معاملہ عام انسانوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارا تو ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ آپﷺ کی ذات ہمیں ہر چیز جس میں ہمارے والدین، اولاد بلکہ اپنی جانیں بھی شامل ہیں سے بھی بڑھ کر عزیز نہ ہو۔ بظاہر ملالہ نے اپنے والد کے خیالات کی ہی وجہ سے اپنی کتاب میںجنرل ضیاء سے اس قدر نفرت کا اظہار کیا کہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کر دیا کہ دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر قرار دینا اللہ کا قانون ہے کسی انسان کا نہیں۔ملالہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اور اُس کے والد نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا مگر شاید اُس کے نام کو استعمال کرنے والے یہ بھول گئے کہ یہی قرآن یہ واضح کرتا ہے کہ جو اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہی کافر ہیں، وہی ظالم ہیں اور وہی فاسق ہیں۔ ملالہ لکھتی ہیں کہ قرآ ن کہاں کہتا کہ عورت مرد کے dependent ہیں تو اس کا جواب سورۃ النساء کی وہ آیت ہے جس میں مردوں کو عورتوں پر قوام (نگہبان) بنایا گیا ہے کیوں کہ وہ عورتوں سے زیادہ طاقت اور قوت والے ہیں اوراُن کی کفالت کے بھی ذمہ دار ہیں۔ قادیانیوں کے بارے میں یہ لکھنا کیوں ضروری سمجھا گیا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جبکہ ہماری حکومت کہتی ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ یہ کنفیوژن پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اجماع امت کے نتیجے میں پاکستان کے آئین میں متفقہ طور پر قادیانیوں (احمدیوں، لاہوری گروپ وغیرہ) کو غیر مسلم کہا گیا۔ملالہ کو پڑھ کر یہ بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ امریکا و یورپ جنہوں نے نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں جس میں ہزاروں ملالائیںشامل تھیں اُن کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے وہ سوات کی اس ملالہ پر کیوں اتنے مہربان ہو گئے اور اس بچی کو کس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ باپ نے بیٹی کے نام سے منسوب کتاب میں اپنے انتہائی متنازعہ خیالات کے اظہار کا کیوں ذریعہ بنایا۔ ضیاء الدین کو ضرور سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ بیٹی کے معاملہ میں سنگدلی کا مظاہرہ تو نہیں کر رہا ۔ کاش ملالہ یہ کتاب نہ لکھتی۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
آئی ایم’’مظلوم‘‘ ملالہ...طلوع ۔۔۔۔۔ارشاد احمدعارف
ایک سال قبل نو عمر ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو پوری قوم کو صدمہ پہنچا۔ ہر ایک نے تین معصوم بچیوں پر گولیاں چلانے والوں کی مذمت کی ۔اس ذہین ،دلیراور اپنے ارادوں میں ثابت قدم بچی کے لئے ہر گھر میں دعائیں مانگی گئیں اور صحتیابی کی اطلاع پر ہر صاحب اولاد نے سکون کا سانس لیا مگر امریکہ ومغرب نے جس طرح اس بچی کی پذیرائی کی یہ اچھنبے کی بات تھی تاہم’’آئی ایم ملالہ‘‘ کے نام سے کتاب منظر پر آئی تو ایک پاکستانی بچی کی عالمگیر پذیرائی اور ملکہ برطانیہ سے لے کر باراک اوباما تک ملاقاتوں کا مقصد عیاں ہوگیا۔قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔
مجھے ملالہ سے پہلے بھی ہمدردی تھی، اب بھی ہمدردی ہے پہلے اس کی معصومیت اور مظلومیت نے مجھے متاثر کیا اب عالمی فتنہ گردی نے اس کی آڑ میں جو کھیل کھیلنے کی کوشش کی اور ایک نوعمر بچی کا ذہنی استحصال کیا میں اس پر مغموم ہوں ، زیادہ افسوس باپ پر ہے جس نے اپنی اولاد کو شہرت، دولت اور عزت کے حصول کا ذریعہ بنایا اور سنگدلی کی انتہا ء کردی۔
’’آئی ایم ملالہ‘‘سٹوری تو ملالہ کی ہے مگر لکھی برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے ہے، یہ وہی محترمہ ہیں جسے پاکستان سے اس بناء پر نکالا گیا کہ اوبی لادن کے نام سے جعلی ٹکٹ کٹوا کر پی آئی اے پر سفر کرنا چاہتی تھیں تاکہ پوری دنیا کو یہ بتاسکیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں مقیم اور آزادانہ سفر کرتے ہیں۔ ملالہ، اس کے فنکار والد اور دیگر سرپرستوں نے کتاب اس صحافی خاتون سے لکھوانا کیوں پسند کی؟ یہ کوئی سربستہ راز نہیں ،ایسی کتاب صرف کرسٹینا لیمب ہی لکھ سکتی تھی جس میں ملالہ کے والد پاکستان کا جشن آزادی ’’بازوئوں پر سیاہ ماتمی پٹیاں باندھ کر مناتے نظر آتے ہیں، پاک فوج اور آئی ایس آئی طالبان کی ہمدرد اور مددگار فورس ثابت کی گئی، جنرل پرویز مشرف کی تعریف و توصیف اورملائوں پر جا بجا تنقید میں توازن نظر نہیں آتا اور پاکستان کو ایک ایسی ریاست نے طور پر پیش کیا گیا ہے جہاں عورت سانس لے سکتی ہے نہ گھر سے باہر نکل کر تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے قابل ۔
مگر مجھے ذاتی طور پر بہت سی باتوں سے اختلاف کے باوجود کتاب کے ان حصوں پر کوئی اعتراض نہیں جو اس حقائق کو توڑ ،مروڑ اور ایک مخصوص ایجنڈے کو آگے بڑھایا گیا، پاکستان میں یہ کام ا ور بہت سے ا فراد اور ادارے تندہی سے کررہے ہیں اس میں ایک اضافہ یہ بھی سہی۔ ہاتم گستاخ رسولؐ سلمان رشدی اور اس کی دلازار کتاب سیٹانک ورسز کو قابل قبول بنانے، اسے آزادی اظہار رائے کے نام پر ہضم کرنے اور اس کی مخالفت کرنے والے عاشقان رسول اکرمﷺ کو ملا اور ان کے پیروکار قرار دنیے کا معاملہ قابل برداشت ہے نہ نظرانداز کرنے کی چیز۔ یہ عقیدے، ایمان اور بخشش و شفاعت کا معاملہ ہے جسے محض اس بنا پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک پندرہ سولہ سالہ معصوم بچی کے جذبات ہیں۔
سلمان رشدی کی کتاب ملالہ کی پیدائش سے کوئی دس سال قبل منظر عام پر آئی اس لئے کتاب میں لکھی گئی باتیں کرسٹینا لیمب کی اختراع ہیں، ملالہ کے فنکار والد کے جذبات کا اظہار ورنہ ساری دنیاجانتی ہے کہ اس کتاب کے خلاف احتجاج صرف پاکستان اور ایران میں نہیں ساری عرب دنیا، بھارت، بنگلہ دیش، برطانیہ، جرمنی اور سیکنڈے نیویا میں ہوا۔ امام خمینی کے فتویٰ کی تائید حمایت سازی دنیا کے مسلم سکارلز نے کی اور معتدل مزاج مغربی مصنفین نے اس کتاب کو تھرڈ کلاس کہا۔ پاکستان میں احتجاجی مظاہروں کی قیادت نوابزادہ نصر اللہ خان نے کی جو بابائے جمہوریت اور حکمران پیپلز پارٹی کے حلیف تھے۔ سلسلہ مضامین مولانا کوثر نیازی نے شروع کیا جو ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست رہے اور بینظیر بھٹو کے دور حکمرانی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین۔ ملا چونکہ مغرب کے گلے کی پھانس ا ور اسلام کا نام لیوا ہے اس لئے کتاب کی پذیرائی کے لئے اس کا تحقیر آمیز ذکر لازم تھا اور مسلمانوں کا جذبہ عشق رسولؐ تمام اسلام دشمن مذہب بیزار عناصر کے لئے سوہان روح اس لئے اپنے آقا و مولا ؐ کی حرمت و ناموس کے تحفظ کے لئے احتجاج کا جمہوری حق استعمال کرنے والے شیدائیوں کو ملائوں کا پیروکار قرار دینا ازبس ضروری۔ ٹیری جونز، نکولاہیسلے، سلمان رشدی، تسلیم نسرین سمیت جو بھی اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کرے یا سلمان رشدی جیسوں کی آزادی اظہار کا حق کا دفاع کرے وہ امریکہ و یورپ کا ہیرو ہے اور اسے ملکہ برطانیہ سے لے کر اوباما تک سب گلے سے لگاتے آگے آگے بچھے جاتے ہیں اس لئے آئی ایم ملالہ کے مصنفین نے بھی یہ تکنیک مہارت سے استعمال کی۔ ملالہ ایک سطر ہولوکاسٹ کے خلاف لکھی دیتی تو اسے مغرب کے نظر یہ آزادی اظہار کی حقیقت معلوم ہوجاتی مگر پھر ملالہ کو نوبل انعام کے لئے نامزد کون کرتا؟
ملالہ بچی ہے مگر اتنی بھولی نہیں اس لئے اس نے سارازورِبیان طالبان، پاکستان، پاک فوج، ملّائوں اور عام مسلمانوں کے خلاف صرف کیا جو حضورﷺ کی گستاخی برداشت نہیں کرتے۔ تنگ نظر کہیں کے۔
مجھے دکھ اس بات کا ہےکہ ایک پندر سالہ معصوم بچی کو شہرت کے جال میں پھنسا کر اس ایجنڈے کی تکمیل کی جارہی ہے جومسلمانوں کو اجڈ،گنوار، وحشی،اسلام کو پسماندگی کاعلمبردار مذہب اور حرمت و ناموس رسولؐ کے منافی دلآزار تحریروں و آزادیٔ اظہار کا حق قرار دے کر امریکہ و یورپ کی ذہنی، سماجی، سیاسی و عسکری بالادستی منوانے کےلئے سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ’’نیو ورلڈآرڈر‘‘ کے نام پر وضع کیاگیا اور 9/11 کے بعد زور شور سے پایہ تکمیل کو پہنچایا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے دارالحکومتوں میں کارپٹ استقبال، مقامی و عالمی میڈیا پر مدح سرائی، نوبل، سخاروف اور دیگر ایوارڈ اور پاکستان جیسے ممالک میں وزیراعظم بننے کاجھانسہ، انسان کے پھسلنے میں کتنی دیرلگی ہے ملالہ تو بچی ہے۔
ایک طرف ہالینڈ کا آرنوڈ وین ڈرو ہے جس نےفلم ’’فتنہ‘‘بنائی مگر حضور اکرمﷺ سے مسلمانوں کی والہانہ محبت، دلآزار فلم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو دیکھ کر موم ہوگیااور ا ب حجاز ِمقدس میں بیٹھا اپنے رب اورمحبوب ِ خداﷺ سے معافی مانگ رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی دولت سے نوازا اور دنیاو آخرت سنوار دی۔ دوسری طرف ملالہ ،اس کے والد اور کرسٹینالیمب ہیں جو سلمان رشدی کے گستاخانہ انداز ِفکر کو آزادی ٔ اظہار رائے کی آڑ میں جائز قرار دینے کے لئے کوشاں ہیں ورنہ ’’آئی ایم ملالہ ‘‘میں اس واہیات کتاب، جنونی مصنف اور بکواس اظہار رائےکا ذکر ضروری نہ تھا۔ اس کاملالہ کی زندگی، جدوجہداور خدمات سے کیا تعلق؟ شاید نوبل انعام کمیٹی کے ارکان نے یہ کتاب نہیں پڑھی اورسلمان رشدی کے حقوق، مسلمانوں کے جذباتی پن اورملّائوں کی تقلید والے حصے پر غور نہیں کیا ورنہ انعام دینے سےگریز نہ کرتے۔ مغرب کی دیرینہ روایت تو یہی ہے۔ خدااس معصوم بچی کواپنے دوستوں کےشر اور دشمنوں کے حسد سے محفوظ رکھے۔خاص طور پر والدگرامی جو ذہین بیٹی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ہوشیاری سےاستعمال کر رہے۔ محمد نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور بہت سارے دوسرے نوبل انعام نہ ملنےپر مغموم ہیں۔
 

دوست

محفلین
(تحریر: نیرؔ آفاق)

گزشتہ برس، تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے قاتلانہ حملے کے بعد، جب ملالہ یوسف زئی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی، سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کردی گئی۔ حملے کے کچھ ہی روز بعد ،ایک سیاسی مذھبی جماعت سے منسک ویب سائٹ نے ملالہ کی کردار کشی کی مہم چلاتے ھوئے، اس مظلوم بچی کی بی بی سی اردو کے لئے لکھی گئی ڈائری کو شائع کیا، اور کمال مہارت سے برقعے اور داڑھی سے متعلق ایک متنازعہ جملہ از خودشامل کر دیا، جو ملالہ کی اپنی تحریر نہ ھونے کے باوجود اس سے منسوب ھوتا رھا، اور اس کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا رھا۔ اس کے فوراً بعد پے در پے شائع ھونے والے سازشی نظریات اوران کی بنیاد پر حقائق کو توڑ مروڑ کر طالبان کے حق میں رائے عامہ ھموار کی گئی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ ملالہ کو تو کوئی گولی لگی ھی نہیں۔ کبھی یہ کہا گیا کہ یہ سب امریکہ اور آئی ایس آئی کی سازش ھے، اور وہ اس واقعے کی آڑ میں وزیرستان پر حملے کا جواز پیدا کرنا چاھتے ھیں ۔ کبھی یونیسیف کی تقریب میں ملالہ اور اس کے والد کی لی گئی تصویر کو یہ کہہ کر اچھالا گیا کہ یہ کوئی خفیہ ملاقات تھی، جس میں قومی امور کے معاملات زیر بحث آئے اور ملکی مفادات کا سودا کیا گیا۔ اس طرح کی ان گنت لغو باتیں ھمارے سامنے آئیں، مگر ان میں سے کوئی بھی عقل اور دلیل کی کسوٹی پر پوری نہ اتری۔کسی نے یہ تک نہ سوچا کہ اگر بدنامِ زمانہ اسامہ بن لادن کے یہاں سے بر آمد ھو جانے پر بھی امریکہ نے وزیرستان پر چڑ ھائی نہیں کی، تو اسے ملالہ جیسی کم سن لڑکی پر حملے کے واقعے کی کیا ضرورت پیش آنی ھے؟ بس ایک جنون تھا، اور سازشی نظریات کا ایک طوفان، جس کے دھارے میں سب بہتے چلے گئے۔ سوشل میڈیا پر مذھبی جذبات ابھارنے والی اور فریب پر مبنی ایک ایسی مہم کا آغاز کیا گیا کہ لوگ بنا کسی تحقیق کے اس پر ایمان لاتے چلے گئے ۔ ھماری عقل وخرد کی صفات سے عاری قوم نے ملالہ کے بارے میں منفی اور لغو پروپیگینڈا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس معاشرے کو موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا اس معصوم بچی پر ذرہ بھر رحم نہ آیا۔ میری روح تک لرز اٹھتی ھے کہ فساد پھیلانے والے، فریب اور نفرت کے یہ نمائندے، دائے بر حق کا کیسے سامنا کریں گے؟

طالبان نے بارھا اس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ صرف یہی نہیں، اس پر اور اس کے والد پر پھر سے حملہ کرنے کے لئے طالبان نے مزید دھمکیاں دیں۔ مگر ملک سے باھر علاج کے لئے جانے کی وجہ سے وہ طالبان کی دسترس سے دور تھی، سو محفوظ رھی۔ آئیے ھم دیکھتے ھیں کہ ملالہ دنیا کے لئے اس قدر اھم کیسے بنی اور اس نے ایسا کیا کارنامہ سر انجام دیا جو دنیا بھر کے لوگ اس کی ھمت کی داد دیتے ھوئے اس کی پزیرائی کر رھے ھیں۔

سوات میں 2005ء کے لگ بھگ ایک انتہائی بے رحمانہ کمپین شروع ھوئی، جسے مولانا فضل اللہ (تحریک نفاذ شریعت محمدی) اور ان کے ھزاروں عسکریت پسندوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ فرسودہ سوچ کے حامل، تنگ نظر افراد تھے۔ یہ حجاموں کے خلاف تھے، ٹی وی کی مخالفت کرتے تھے، پولیو مہم سے روکتے تھے اور لڑکیوں کی تعلیم سے تو انہیں انتہا درجے کا بیر تھا۔ ان لوگوں نے دھمکی آمیز خطوط لکھ کر حجاموں اور سکولوں میں بھیجنا شروع کئے۔ اپنی دھشت کا بازار گرم کرنے کے لیے ،انہوں نے لیڈی ھیلتھ ورکروں کو مارنا شروع کردیا۔ آئے روز حجاموں کی دکانوں اور سکولوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کردیا۔ اپنے مخالفین کی سر عام گردنیں کاٹنا شروع کردیں۔ جب 2007ء کے وسط میں وھاں پر فوج کو بھیجا گیا، تواسے ان دھشت گردوں کی طرف سے شدید مذاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکورٹی فورسز اور فوجیوں کو پکڑ پکڑ کر ان کی سر عام گردنیں کاٹی گئیں۔سڑکوں اور بازاروں میں سر بریدہ لاشیں ملنا روز کا معمول بن گیا۔ اس درندگی کے ویڈیو ثبوت تک موجود ھیں، اورمولانا فضل اللہ اور ٹی ٹی پی اس سب پر فخر کا اظہار بھی کرتے ھیں۔

ان حالات میں، جب وہاں کوئی ان طالبان کے خلاف کھڑے ھونے کی ھمت نہیں کر سکتا تھا، ملالہ اور اس کے والد نے اپنی قوم کے لئے یہ خطرہ مول لیا۔ ملالہ کے والد، ضیاء الدین یوسف ذئی، ایک شاعر اور ماھر تعلیم ھونے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کے ایک سلسلے کے بانی اور پرنسپل تھے۔ انہیں بھی دھمکی آمیز خطوط ملنا شروع ھوئے۔ ان ھولناک حالات میں ، بی بی سی نے جب وھاں کی رپورٹ بنانا چاھی، تو ان کی مدد کے لئے کوئی تیار نہ تھا۔ تاھم، ضیاء الدین نے ھمت دکھاتے ھوئے، وھاں کے حالات دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ وھاں امن آسکے اور ملک بھر میں طالبان کی بربریت کے خلاف بھی شعور اجاگر ھو۔ملالہ نے بی بی سی اردو کے رپورٹر عبدالحئی کاکڑ کو اپنے ھاتھوں لکھی ھوئی ڈائری دی، جس میں طالبان کے موجودگی میں سوات میں بیتے ھوئے دنوں کی روداد درج تھی۔ اسے بی بی سی اردو نے گل مکئی کے قلمی نام سے شائع کیا۔ ملالہ نے اس طرح ایک نہایت مشکل حالات میں اپنا آپ منوانا شروع کیا۔ اس نے امن اور علم کے دشمن طالبان کو بے نقاب کیا، اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز بلند کی۔ اس سب میں اسے اپنے والد کی سپورٹ حاصل رھی۔

بعد میں جب 2009ء میں ھونے والا ملٹری آپریشن کامیاب ھو گیا، اور سوات میں امن آگیا، تو پھر ملالہ اور اس کے والد کی حوصلہ افزائی اور تعریف کے لئے حکومت نے اقدام کئے۔ ملالہ کو قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ظاھر ھے کہ کسی اور گھرانے یا لڑکی نے ملالہ جیسی ھمت اور قابلیت نہیں دکھائی تھی، تو کسی اور کو پزیرائی کیوں ملتی اور سرکاری تقاریب میں کیوں مدعو کیا جاتا؟ تو المختصر،اس پس منظر میں ملالہ اور اس کے والدین کی امریکی عہدیداران سے ملاقات بھی ھوئی۔ یہ ایک سرکاری نوعیت کی تقریب تھی، جس میں ملالی نے رچرڈ ھالبروک سے تعلیم کے معاملے میں مدد فراھم کرنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر یہ کہہ کر جاری کی گئیں کہ جیسے یہ کوئی خفیہ یا سات پردوں میں چھپی ھوئی ملاقات تھی،اور اس میں کوئی قومی سلامتی کا سود اھونا تھا۔ اس قوم کی عقل پر افسوس۔آپ کو یاد ھو گا کہ ارفع کریم کی بھی بل گیٹس سے ملاقات ھوئی تھی۔ اس لئے کہ اس نے اتنی کم عمری میں اپنی قابلیت کا ثبوت دیا۔ یہی صورت ملالہ کے معاملے میں بھی بنی۔

ایک لڑکی، جس نے صرف امن اور تعلیم کے لئے اس کم سنی میں آواز بلند کی ، اسے اس ‘‘جرم’’ کی پاداش میں بے رحم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنا یا، اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ طالبان نے اس حملے کو عین اسلامی احکامات کے مطابق قرار دیا اور کہا کہ یہ قاتلانہ حملہ قرآن الحکیم کی رو سے جائز تھا۔ واضح رھے کہ یہ اس تکفیری نظریات کے حامل لوگ ھیں، جن کے نزدیک ان کے علاوہ پورا پاکستان مرتد اور واجب القتل ھے۔ یہی وجہ ھے کہ وہ بے دردی سے مساجد، امام بارگاھوں اور اولیاء اللہ کے مزارات پر خود کش حملے کرتے پھرتے ھیں۔ یہ صرف نام کے طالبان ھیں، وگرنہ ان کا طلبِ علم سے کیا رشتہ۔ یہ تو ظالمان ھیں۔ یہ پاکستان کا آئین تسلیم کرتے ھیں،اور نہ ھی جمہوریت۔ اس کے نزدیک قائد اعظم، کافرِا عظم ھیں اور پاکستان کا آئین کفریہ دستاویز۔ یہ درندے، انسانوں کی گردنیں کاٹنے کا جواز پیش کرنے کے لئے بھی مذھب کی آڑ لیتے ھیں اور دین کی ایک ایسی بھیانک اور وحشیانہ تشریح پیش کرتے ھیں کہ خدا کی پناہ۔ ذیل میں دی گئی ویڈیوز سے آپ کو ان کے سیاہ کارناموں اور جرائم کا بخوبی اندازہ ھو جائے گا۔

Video of Taliban beheading in Swat District – (Warning: Gore content – not suitable for all)

Pakistan Soldiers Beheaded by Tehreek-e Taliban Mujahideen (Warninig: Gore content – not suitable for all)

Taliban executes Pakistani soldiers in South Waziristan (Warning: Gore content – not suitable for all)

Pakistan Taliban release ‘police killing’ video (Warning: Gore content – not suitable for all)

افسوس یہ ھے کہ سیاسی و مذھبی تنظیمیں، تمام تر جرائم اور وحشیانہ عزائم سے باخبر ھونے کے باوجود ان کے خلاف ایک لفظ بولنے سے بھی کترا تی ھیں۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بھی ایسی ایسی توجیہات پیش کی جاتی ھیں، جس سے سارا الزام مغرب، امریکہ اور غیر ملکی ایجنسیوں پر لگا دیا جاتا ھے۔ سوشل میڈیا میں اس سب کا اثر پڑتا ھے،اوردھشت گروں کو برا بھلا کہنے کی بجائے، لوگوں کو سازشی نظریات میں الجھایا دیا جاتا ھے۔ ھمیں اپنی آنکھیں کھول کر خود سوچنا چاھئیے کہ جس تحریک طالبان پاکستان نے بظاھر فوج، حکومت، آئی ایس آئی کو تنگ کر رکھا ھے، او ر پاکستان کو انتہا پسندی کی دلدل میں پھنسا رکھا ھے، کیا ھم ان کے لئے نرم گوشہ تو نہیں رکھے ھوئے؟ صرف امریکہ اور مغرب کی دشمنی میں ، بنا سوچے سمجھے اور حالات کا درست ادراک کئے بغیر، ھم کہیں خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی تو نہیں مار رھے۔ افسوس کہ اس کا جواب ھاں میں ھے۔

ابھی کچھ روز قبل ایک نامور کالم نگار جناب اوریا مقبول جان نے ملالہ یوسف زئی کے خلاف ایک نہایت سخت اور غیر منصفانہ کالم لکھ مارا۔ اس کے دیکھا دیکھی میڈیا پر طالبان کے خود ساختہ نمائندے انصار عباسی نے بھی قریباً انہی باتوں کو اپنے کالم میں لکھ دیا اور اس کے فوراً بعد ایک ایسی فضا قائم ھوتی چلی گئی، جس میں تمام لوگ ھی ویسا کچھ ھی کہہ کر ملالہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے لگے۔ سوشل میڈیا پر جو نوجوان ملالہ کے خلاف مہم میں حصہ دار بنے، ان میں اکثریت تحریک انصاف نامی جماعت کی دکھائی دی۔ ان میں سے بیشتر نے تو تحریک طالبان پاکستان کی تعریفیں تک کر ڈالیں اور یہ ایک نہایت ھی پریشان کن امر ھے کہ ایک سیاسی تنظیم کے پیروکار امریکہ، مغرب، ڈرون اور ملالہ کی مخالفت میں اندھے ھو کر دھشت گردوں کی طرف داری کرتے پھریں۔ جب انہی نوجوانوں کی جانب سے دھڑا دھڑ اوریا مقبول جان کا کالم پوسٹ ھوتا رھا، توھم نے سوچا کہ ایک ھی بار اس کالم کا نہایت ھی مفصل جواب تحریر کر دیا جائے۔ بد نصیبی یہ ھے کہ ان میں سے کسی نے بھی ملالہ کی حال ھی میں شائع شدہ کتاب کو بظاھر بالاستیعاب نہیں پڑھا، مگر وہ اوریا مقبول جان سے ادھار مانگی گئی سوچ پر اپنی ایک عمارت تعمیر کئے بیٹھے ھیں۔

آئیے، ذرا نام نہاد دانشور اوریا مقبول جان کی تحریر کا جائزہ لیتے ھیں؛

آپ نے اپنے کالم کا آغاز ایک لطیفے سے کر کے ملالہ کے خلاف زھر اگلنے کے لئے راہ ھموارکی، اور فوراً بعد یہ جملہ لکھ مارا،۔

۔‘‘ملالہ یوسفزئی کی کتاب پڑھنے کے بعد معین اختر کا یہ جملہ شدت سے یاد آتا ھے اور ساتھ ھی اس امریکی کا فقرہ بھی ذھن میں ھتھوڑے کی طرح ٹکرانے لگتا ھے، جو اس نے ایمل کانسی کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کے بعد کہا تھا کہ پاکستانی پیسے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ھیں’’۔

گویا، کالم نویس نے یہ فتویٰ صادر فرما دیا کہ ملالہ پیسوں کی خاطر کچھ بھی کرسکتی ھے۔



اب دیکھنا یہ ھے کہ بقول کالم نویس، ملالہ نے ایسا کیا جرم کر دیا، جو موصوف اس قدر بھڑک اٹھے ھیں۔ اسے ثابت کرنے کے لئے وہ آگے رقم طراز ھوتے ھوئے پہلے تو کرسٹینا لیمب کے بارے میں ایک غیر ضروری سا جملہ لکھتے ھیں۔ پھر اس کے بعد فرماتے ھیں،۔

۔‘‘ملالہ کی یہ کہانی، جو 276 صفحات پر مشتمل ھے، پڑھنے کی آپ کو شاید ضرورت ھی نہ پڑے، اگر بیس سالوں سے اسلام، مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کو بدنام کیا جاتا ھے، وہ سب آپ کے علم میں ھو’’۔

پھر ساتھ ھی اوریا مقبول صاحب لکھتے ھیں،۔

۔‘‘آپ کے ذھن میں یہ سوال ابھرے گا کہ اس کمسن بچی کے منہ میں میرے دین، مسلمان اور پاکستان کے لوگوں کے بارے میں یہ ذلت آمیز لفظ کس نے ڈالے اور کس مقصد کے لئے ڈالے گئے’’۔

اللہ اکبر۔ موصوف نے پہلے تو ایک خاص نفسیاتی داؤ کھیلتے ھوئے اپنے قارئین کو یہ پیغام دیا کہ انہیں اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ھے۔ اور اس کے بعد انہوں نے ملالہ پر اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کو بدنام کرنے کا الزام بھی دھر دیا اور یہ بھی لکھ مارا کہ اس نے ‘‘یہ ذلت آمیز’’ الفاظ کیوں لکھے۔ بھلا کون سے ذلت آمیز الفاظ؟ کوئی ثبوت تو دکھایا جائے۔



مگرھاں، اوریا مقبول جان، ان سنگین الزامات کے فوراً بعد کچھ بلا جواز ‘ثبوت’ بھی پیش کرتے ھیں۔ ذرا ان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ھیں۔

۔ ‘‘سب سے پہلے جس شخص کا تذکرہ ھے، وہ سید الانبیا(صلی اللہ علیہ وسلم)، امہات المومنین اور اھل بیت کے خلاف غلیظ الفاظ استعمال کرنے والا سلمان رشدی ھے، جو مغرب کی آنکھ کا تارہ ھے’’۔

کس نفاست سے دروغ گوئی کا مظاھرہ کرتے ھوئے جناب نے ‘‘سب سے پہلے’’ کے الفاظ استعمال کئے ھیں۔ اوریا صاحب،سب سے پہلے سے مراد تو پہلا صفحہ، یا چلئے دوسرا صفحہ، یا چلئے پانچواں صفحہ ھو سکتا ھے۔ مگر صفحہ نمبر تیس کو آپ کسی صورت ‘‘سب سے پہلے’’ نہیں کہہ سکتے۔ آپ کا ایک جھوٹ تو یہیں پکڑا گیا۔

آگے چلتے ھوئے آپ لکھتے ھیں،۔

۔‘‘اس کے بارے میں ملالہ لکھتی ھے:‘‘پاکستان میں اس کتاب کے خلاف مضامین سب سے پہلے ایک ایسے مولوی نے لکھنے شروع کئے، جو ایجنسیوں کے بہت نزدیک تھا۔’’ (صفحہ 30)۔ تاریخ کا یہ بدترین جھوٹ اس کے منہ میں کس نے ڈالا؟ اسے کس نے یہ لکھنے پر مجبور کیا کہ سلمان رشدی کو ‘آزادیء اظہار’ کے تحت یہ پورا حق تھا’’؟

بہت بھیانک الزام لگایا گیا ھے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ھوگی کہ ملالہ کی کتاب میں ھرگز ھرگز ایسا کچھ نہیں لکھا گیا کہ سلمان رشدی کو توھین آمیز ناول لکھنے کا حق تھا۔ اوریا مقبول جان اس قدر ڈھٹائی سے ایسا جھوٹ بول سکتے ھیں، اس کا اندازہ تو تھا، مگر یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایک سولہ برس کی نہتی لڑکی کو توھینِ اسلام کے الزام میں پھنسانے کے لئے ایسا اوچھا وار کریں گے۔

موصوف کے بہیمانہ الزام کے برعکس ملالہ کی کتاب میں یہ لکھا گیا ھے کہ جب اس کے والد اپنے کالج میں تقاریر اور مباحثوں میں حصہ لیتے تھے، تو ایک موقع پر سلمان رشدی کی کتاب پر ایک علمی مباحثہ میں ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ ھمیں پرتشدد احتجاج کی راہ اپنا کر اپنی املاک کا نقصان کرنے کی بجائے ایک دانشمندانہ لائحہ عمل سوچنا چاھئیے، اور بہتر ھے کہ ھم کتاب کا جواب کتاب سے ھی دیں۔ ملالہ لکھتی ھے کہ اگرچہ ان کے والد آزادی ء اظہار کے حامیوں میں سے ھیں، مگر انہیں بھی رشدی کی کتاب کا جان کر دکھ پہنچا اور ان کے جذبات بھی مجروح ھوئے۔کتاب میں لکھا ھے کہ کالج کے مباحثے میں اس کے والد نے کہا کہ اسلام کو کسی کی ( توھین آمیز ) کتاب سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ۔ اس کے والد نے اپنی تقریر میں کہا کہ میرا دین ایسا کمزور نہیں۔

گویا وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذاتِ بالا صفات اس قدر ارفع اوراعلیٰ مقام پر فائز ھے کہ کسی کی دشنام طرازی سے اسلام اور محبوبِ خدا کی پاک ذات پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔یہ کس قدر پختہ اور قابل قدر سوچ ھے۔ اپنے دل پر ھاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اس سب سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ھے کہ ملالہ یا اس کے والد یہ یقین رکھتے تھے کہ سلمان رشدی کو توھین آمیز کتاب لکھنے کا حق تھا؟ انا للہ ونا علیہ راجعون۔ اوریا مقبول جان نے اتنا بھیانک بہتان لگانے کی حد پار کرلی اور وہ بھی ایک معصوم اور کم سن لڑکی کے بارے میں۔



۔ لگے ھاتھوں اوریا مقبول کا وہ اعتراض بھی دیکھ لیتے ھیں، جو بقول ان کے تاریخ کا سب سے بدترین جھوٹ ھے، جو ملالہ کی کتاب میں لکھا ھوا ھے، یعنی یہ کہ رشدی کی کتاب کے خلاف تحریک کے لئے ایک ایسے مولانا نے اخبارات میں کالم لکھنا شروع کئے، جو ایجنسیوں کے نزدیک تھے۔ یہ کہنا کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ھے، نہایت ھی مضحکہ خیز بات ھے۔ مگر خیر، اس بات کو چھوڑ کر ذرا اس زمانے کی صورت حال کا ایک مختصر جائزہ لے لیتے ھیں۔ سلمان رشدی کی کتاب، پاکستان میں فوری طور پر بین کر دی گئی تھی ۔ اس کے بعد اخبارات میں اس کے خلاف کالموں اور مضامین کا ایک سلسلہ شروع ھو گیا، جس میں مولانا کوثر نیازی پیش پیش تھے۔ عوام الناس کو احتجاج کے لئے کچھ اس انداز میں اکسایا گیا کہ پر تشدد مظاھرے بھی ھونے لگے۔ اس سب سے نہ صرف پاکستان کی بدنامی ھوئی، بلکہ دنیا بھر میں رشدی کی غیر معیاری اور توھین آمیز کتاب کی مفت میں تشہیر بھی ھوئی۔ مولانا کوثر نیازی کی ایماء پر 12 فروری 1989ء میں اسلام آباد میں امریکن کلچرل سنٹر کے سامنے دس ھزار افراد کا احتجاجی مظاھرہ ھوا، جس میں امریکہ کے پرچموں کو نذر ِ آتش کیا گیا اور حالات اس قدر خراب ھو گئے کہ بالآخر سو سے ذائد افراد زخمی اور چھ مظاھرین جاں بحق بھی ھوئے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ھے کہ توھین آمیز ناول کی اشاعت برطانیہ میں ھوئی تھی، اور اس کا کوئی لینا دینا امریکہ یا امریکن کلچرل سنٹر سے نہیں تھا۔ اس زمانے میں مبصرین کے خیال کے مطابق یہ ضیاء الحق کی پالیسیوں کا تسلسل تھا کہ پاکستانی ملٹری اور انٹیلی جنس نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوئے اور لوگوں کے مذھبی جذبات کو استعمال کرتے ھوئے بے نظیر کی نومولود حکومت کو کمزوکرنے کی سازش کی۔ اور اس مقصد کے لئے مولانا کوثر نیازی کو آلہء کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ واضح رھے کہ آپ مولانا وھسکی کے نام سے بھی جانے جاتے تھے، اور شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ یہ ساری بات کتاب میں بیان نہیں ھوئی، البتہ اپنے قارئین کی معلومات کے لئے پیش کی گئی ھے۔

اوریا مقبول جان کے مطابق ‘تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ’ کتنا جھوٹ تھا اور کتنا سچ، اس ساری تفصیل کے بعد اس کا پول بھی کھل گیا۔

موصوف آگے لکھتے ھیں،۔

۔‘‘تاریخ کے یہ اندھے اس قدر لا علم ھیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف مظاھرے سب سے پہلے لندن اور یورپ کے شہروں میں شروع ھوئے تھے اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے تو اس کے قتل کا فتویٰ تک دے دیا تھا’’۔

اوریا مقبول جان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ھے کہ دوسروں کو تو بہت آسانی سے اندھا قرار دے دیتے ھیں، مگر ان کو اپنے اندھے پن کی کوئی خبر آج تک نہیں ھو سکی۔ ملالہ کہ کتاب میں واضح طور پر لکھا ھوا ھے کہ احتجاج کے دو دن کے بعد آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا۔



وہ ساری تمہید اور خرافات جو کالم نگار نے ملالہ کو ایک مذھبی تنازع میں الجھانے کے لئے گھڑی، اس کا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ھو ھی گیا۔ کیا اس شخص کے بقیہ کالم پر بات کرنے کی اب کوئی گنجائش باقی رھتی ھے؟ جو شخص اتنے بڑے بڑے جھوٹ بغیر کسی شرم کے لکھ سکتا ھو، اس نے آگے بھی محض فریب کا ھی سہارا لیا ھو گا۔

آگے لکھتے ھیں،۔

۔‘‘اس کے بعد ضیاء الحق کا ایک مضحکہ خیز قسم کا حلیہ بیان کیا گیا ھے اور ساتھ ھی وہ شور جو اس ملک میں مچایا جاتا ھے کہ ‘‘عورتوں کی زندگی ضیاء الحق کے زمانے میں بہت زیادہ محدود ھوگئی تھی’’(صفحہ 24)’’۔



حیران کن بات ھے کہ موصوف کو ضیاء الحق سے اس قدر عقیدت ھے کہ وہ اس کی ایک بالکل درست تصویر کشی کو ‘مضحکہ خیز’ حلیے سے تشبیہہ دے رھے ھیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ مرد مومن کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے موجود تھے، اور ان کے نمایاں دکھائی دینے والے دانت فوری توجہ حاصل کرلیتے تھے۔ اگر ھاں، تو یہی کچھ ملالہ کی کتاب میں بھی تحریر ھے۔ اور کسے یہ معلوم نہیں کہ ضیاء الحق نے مذھب کو اپنے سیاسی مقاصداور اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال کیا۔ اس میں بھی کیا شبہ ھے کہ ‘اسلامی قوانین’ کے ٹائٹل کی آڑ میں انہوں نے اقلیتوں اور خواتین کے حقوق غصب کئے۔

حدودآرڈیننس کے نفاذ کے بعد جس قدر ظلم ھوا، اور جس طرح مظلوم اور بے بس خواتین کا استحصال ھوا، وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ اگر آپ اس بارے میں مخمصے کا شکار ھیں، تو آپ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال کی کتاب ’اپنا گریباں چاک‘ پڑھ لیجئے، جہاں انہوں نے نہایت دکھ سے ان قوانین پر غم و غصے کا اظہار کیا ھے اور بہت سی مثالیں دے کر بتایا ھے کہ کیسے ان قوانین نے مجرموں کو تحفظ فراہم کیا۔



مگر موصوف اوریا مقبول جان بضد ھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ھوا اور اس کی دلیل میں وہ کہتے ھیں،۔

۔‘‘کوئی 1977ء سے 1988ء کے درمیانی عرصے میں ٹیلی کاسٹ ھونے والے پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کی فہرست اٹھالے تو اسے پتہ چل جائے گا یہ پی ٹی وی اور ڈرامے کا سنہری ترین دور تھا’’۔

ایسی ھٹ دھرمی کی توقع انہی موصوف سے رکھی جا سکتی ھے، جن کی تحریر کا آغاز ھی جھوٹ سے ھوا ھو۔

اس کے بعد کالم نگار نے نہایت ھی بھڑکانے والے جملے لکھ کر مغرب کے خلاف اکسایا ھے اور ملالہ کی کردار کشی کی مہم جاری رکھی ھے۔ ھمیں تو یہاں اسے لکھتے ھوئے بھی گھن آرھی ھے۔ اس لئے ھم اسے با وقار انداز میں نظر انداز کرتے ھیں۔

ذرا آگے بڑھیں، تو موصوف نے ملالہ اور اس کے گھرانے کی حب الوطنی پر وار کرتے ھوئے یہ لکھا،۔

۔‘‘پاکستان سے محبت کا عالم یہ ھے کہ ملالہ پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے دن چودہ اگست کی خوشی منانے سے اپنے والد کے انکار کو فخر سے بیان کرتی اور بتاتی ھے کہ اس کے والد اور اس کے دوستوں نے اس دن بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی تھیں’’۔

اوریا مقبول جان، جو بزعم خود ایک دانشور ھیں، کیا اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکے کہ دکھ اور فخر میں کیا فرق ھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس بنا پر عید نہیں منا رھا اور نیا لباس نہیں بنوا رھا کہ اس ملک کے کتنے ھی لوگ غربت کی چکی میں پس رھے ھیں اور تنگ دستی کے مارے نیا جوڑا نہیں پہن سکیں گے، تو کیا اوریا مقبول جان اس سے یہ استنباط کریں گے کہ وہ شخص ایک اسلامی تہوار کا مذاق اڑا رھا ھے۔ اگر نہیں، تو انہیں بدگمانی کرنے کی بجائے اچھا گمان رکھ کر یہ سوچنا چاھئیے کہ سیاہ پٹی پاکستان کے خلاف نہیں، بلکہ معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر تھی، اور بتانا یہ مقصود تھا کہ وہ جشن نہیں منا رھے۔ اور جشن نہ منانے کو ھرگز یہ مطلب نہیں لینا چاھئیے کہ انہیں آزادی یا پاکستان سے محبت نہیں۔

افسوس یہ ھے کہ ملالہ اور اس کے والد کی حب الوطنی کو داغدار کرنے والے اوریا مقبول جان کو اسی کتاب میں یہ لکھا نظر نہیں آیا، جہاں ملالہ کہتی ھے، ‘‘مجھے فخر ھے کہ ھمارا وطن، دنیا میں مسلمان ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔’’ رنج ھوتا ھے کہ اوریا مقبول جان کو کتاب میں یہ لکھا ھوا بھی نظر نہیں آیا، جہاں ملالہ کہتی ھے، ‘‘میرے والد اضطراب کے عالم میں گھر لوٹے اور کہا کہ اگر لوگ سکول اور سڑکیں تعمیر کرنے کے لئے رضاکارانہ کام کریں اور دریاؤں سے پلاسٹک (اور کاٹھ کباڑ )صاف کردیں، تو خدا کی قسم ھمارا ملک ایک برس میں ھی جنت جیسا ھو جائے گا۔’’ کیا آپ کو ان جملوں میں وطن سے پیار جھلکتا نہیں دکھائی دے رھا؟ اوریا مقبول صاحب کی نظروں سے ملالہ کا یہ جملہ بھی اوجھل رھا جہاں لکھا ھے کہ ‘‘میں نے ڈاکومینٹری بنانے والوں سے کہا کہ وہ (طالبان) مجھے نہیں روک سکتے۔ میں تعلیم حاصل کروں گی، چاھے گھر میں یا سکول میں یا کہیں بھی اور۔ میری دنیا سے درخواست ھے کہ وہ ھمارے سکولوں کو بچائیں، ھمارے پاکستان کو بچائیں ،ھمارے سوات کو بچائیں۔ ’’



آگے اوریا صاحب تحریر کرتے ھیں،۔

۔‘‘پردے اور برقعے تو ایک معمول ھے، اس کا مذاق اڑاتے ھوئے ملالہ کہتی ھے کہ برقعہ’’گرمیوں میں ایک کتیلی کی طرح ھوتا ھے۔‘‘(صفحہ51)’’۔

ملالہ بذات خود ایک با پرد لڑکی ھے، اور ھمیشہ ایک با وقار مسلمان لڑکی کے طور پر ھی میڈیا پر دکھائی دی ھے۔ امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات کے دوران بھی اس نے مکمل پردے کے ساتھ قومی لباس زیب تن کیا ھوا تھا۔ لہٰذا، اوریا صاحب نے یہاں بھی زیادتی کرکے ملالہ پر پردے کا مذاق اڑانے کا الزام لگایا ھے۔ رھی بات شٹل کاک برقعے کی، تو وہ افغانستان میں رائج تھا، اور ملالہ نے اسی کا ذکر کیا ھے۔ اگر جون، جولائی کی شدید گرمیوں میں اوریا مقبول جان خود سے شٹل کاک برقع پہننے کا تجربہ کرسکیں، تو انہیں خود اندازہ ھو جائے گا کہ کیسا محسوس ھوتا ھے۔ اگر ایسا کرنے کے بعد وہ یہ دعویٰ کریں کہ گرمیوں میں شٹل کاک برقع پہن کر انسان کو انٹارکٹکا کی برفانی ھوائیں محسوس ھوتی ھیں، تو ھم ان کی اس بات پر مکمل یقین کر لیں گے، اور ملالہ کی بات کو غلط جان لیں گے۔

اوریا مقبول جان آگے لکھتے ھیں،۔

۔ ‘‘ملا محمد عمر کا ذکر کرتے ھوئے اسے انتہائی تمسخر کے ساتھ ‘‘ون آئیڈ ملا’’ کہا گیا ھے ۔ میں یہاں اس کا ترجمہ نہیں لکھنا چاھتا کہ میرے آباء و اجداد، میرے مذھب اور میری اخلاقیات نے مجھے اس طرح کے تمسخر کی اجازت ھی نہیں دی’’۔

ایک ایسے شخص کو، جو رکھتا ھی ایک آنکھ ھو، انگریزی زبان میں ‘‘ون آئیڈ’’ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ ویسے اوریا صاحب، یہاں یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے کہ کیا آپ کے آبا ؤ اجداد، آپ کے مذھب اور آپ کی اخلاقیات نے آپ کو جھوٹ بولنے کی اجازت دی ھے، جس کا آپ نے اس ایک کالم میں با رھا سہارا لیا ھے؟ یہ کیسی اخلاقیات ھیں، جو ضیاء الحق یا ملا عمر کا نام آنے پر تو نیند سے جاگ اٹھتی ھیں، مگر پچاس ھزار پاکستانیوں کے دھشت گردی میں ھلاک ھوجانے کو جہاد قرارد دیتی ھے، اور تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ھاتھوں لوگوں کو ذبح کئے جانے پر بھنگ پی کر سو جاتی ھیں۔

آگے چلیں، تو اوریا صاحب نے ایک بار پھر مغرب کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی ھے اور لکھا،۔

۔‘‘اس کے بعد امریکہ کے صدر بش کی زبان اس کے منہ میں ڈال دی گئی’’۔

اور کچھ آگے بڑھ کر کہتے ھیں،۔

۔‘‘امریکہ کی زبان بولتے ھوئے ملالہ کو ذرا بھی شرم نہیں آئی’’۔

پھر لکھتے ھیں،۔

۔‘‘لیکن کیا کیا جائے اس‘‘سولہ سالہ معصوم’’ ملالہ سے وہ سب کچھ کہلوانا مقصود تھا، جو امریکہ اور اس کے حواری کہلوانا چاھتے تھے’’۔

اس طرح کے گھٹیا الزامات کا جواب دینا بذات خود ایک تذلیل کی بات ھے۔ کیا ھم اوریا مقبول جان سے یہ پوچھ سکتے ھیں کہ آپ جو کالم آئے روز لکھتے رھتے ھیں، وہ آپ سے کون لکھواتا ھے؟ کون ھے جو آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈالتا ھے کہ القاعدہ شام میں امام مہدی کی فوج کا حصہ ھے۔ آپ کو تحریک طالبان پاکستان سے کتنی ڈکٹیشن اور رقم ملتی ھے؟

۔ اوریا مقبول جان اپنے قلم سے جھوٹ اور تعصب کا زھر اگلتے ھوئے ملالہ پر ایک اور بہتان لگاتے ھوئے لکھتے ھیں،۔

۔‘‘ملالہ کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا دکھ بھی بہت ھے کہ اس کے نزدیک یہ کام تو پارلیمنٹ کا تھا ھی نہیں’’۔



ملالہ کی کتاب میں محض چار مواقع پر پارلیمنٹ کا لفظ استعمال ھوا ھے، اور اس میں کہیں بھی 1974ء کی آئینی ترمیم کا نام و نشاں تک نہیں۔ کتاب میں صرف ایک جگہ پر احمدیوں کا ذکر آیا ھے، اور اس میں بھی ملالہ نے کوئی ایسی بات نہیں لکھی، جیسا کہ اوریا مقبول دعویٰ کر رھے ھیں۔ یہ موصوف کا ایک اور سفید جھوٹ ھے، جو کھل کر سامنے آگیا ھے۔

ضمنی طور پر ھم اپنی رائے بھی لکھتے چلیں کہ ریاست کا کام، شہریوں کے کفر اور ایمان کا فیصلہ کرنا ھرگز نہیں ھوتا۔ قائد اعظم نے بھی واشگاف اعلان کیا تھا کہ ریاستی معاملات اور مذھب کو آپس میں نہیں ملایا جائے گا اور کسی طور یہاں ملائیت نہیں آئے گی۔ یہ الگ بات کہ پاکستان میں سب کچھ اس کے برعکس ھوا۔



اس کے بعد کالم نگار نے ایک طویل داستان بیان کر کے اپنے قارئین کے دماغوں میں یہ بات گھولی ھے کہ سکندر اعظم دنیا کا ظالم ترین شخص تھا ۔ آپ لکھتے ھیں،۔

۔‘‘ملالہ نے اپنے بچپن کا ھیرو سکندر اعظم کو بتایا ھے (صفحہ 20)۔ اس لئے کہ اس ‘‘معصوم’’ نے سکندر اعظم کا جو چہرہ انگریزی نصابی کتب میں پڑھا، وہ ایسا ھے کہ بچے مرعوب ھو جاتے ھیں۔ پورے مغرب میں بچوں کو کوئی نہیں پڑھاتا کہ سکندر وہ ظالم شخص تھا، جس نے تھیبس شہر کے تمام شہریوں حتیٰ کہ معصوم بچوں بچوں کو صرف اس لئے قتل کر دیا تھا کہ انہوں نے دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے تھے۔ اس نے دنیا میں پہلی دفعہ سفارتکاروں کو قتل کرنے کی رسم ڈالی تھی۔ اس نے ایران کے مشہور پارسی عبادت خانے پر سی پولس کو اس لئے تباہ کیا تھا کہ اس میں موجود خزانہ لوٹ سکے۔ لیکن ملالہ نے اپنے والد کے قائم کردہ سکول میں پچپن میں جو نصاب پڑھا تھا، اس کے مطابق سکندر ھیرو ھے’’۔



موصوف نے قارئین کے کانوں میں اپنے الفاظ تو ڈال دئیے، لیکن اگر ملالہ کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے، تو کالم نگار کا جھوٹ ایک بار پھر پکڑا جاتا ھے۔ کوئی ساڑھے تین سو سال قبل مسیح سے متعلق سکندر اعظم کے بارے میں اوریا صاحب نے اس تفصیل سے بیان کیا ھے، جیسے آنکھوں دیکھا حال ھو۔ اتنے قدیم زمانے تک چشم رسا رکھنے والے فرد سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس ماہ شائع ھونے والی کتاب بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکے گا۔ مگر کیا کیجئے کہ جھوٹ، بد گمانی اور فساد پھیلانے کی عادت وہ بلائے بد ھے، جو چھٹتے نہیں چھٹتی۔ ملالہ نے اپنی کتاب میں سکندر اعظم کو کہیں بھی اپنا ھیرو نہیں کہا۔ اس نے سکندر اعظم کا ذکر ضرور کیا ھے، اور وہ بھی اس مناسبت سے کہ اس نے سوات پر اپنی فوج سمیت دھاوا بولا تھا۔ کتاب میں لکھا ھے کہ ھزاروں ھاتھیوں اور سپاھیوں سمیت جب سکندر نے سوات پر حملہ کیا، تو وھاں کے باشندے اپنی جان بچانے کے لئے پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ مگر سکندر بھی اپنی دھن کا پکا تھا اور اس نے انہیں پہاڑوں پہ جا لیا ۔ملالہ آگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے کے جذبے کا اظہار کرتے ھوئے کہتی ھے کہ وہ بھی پہاڑوں کی چوٹی، بلکہ اس سے بھی آگے نکلنے کا خواب دیکھتی ھے۔



آپ نے دیکھا کہ اوریا مقبول جان نے یہاں بھی شدید نوعیت کی مبالغہ آرائی کرتے ھوئے، دروغ گوئی کا سہارا لیا، مگر ایک بار پھر ان کا جھوٹ بے نقاب ھو گیا۔

اپنے نفرت آمیز کالم کے اختتام پر بھی موصوف نے مزید زھر اگلا اور یوں لکیریں کھینچیں،۔

۔‘‘اپنے آباء و اجداد کا تمسخر اڑانے کا درس صرف مسلمانوں کو دیا جاتا ھے’’۔۔۔ ‘‘یہ تو وھی کہتی ھے جو پورا مغرب کہتا ھے’’۔۔۔ ‘‘اسے بھی پاکستان، اسلام اور مسلمانوں میں وھی خرابیاں نظر آتی ھیں، جومغرب کو نظر آتی ھیں’’۔۔۔ ‘‘خاندان کے منہ پر کالک ملنے والی بچی’’۔



انا للہ وا انا علیہ راجعون۔۔۔ اوریا مقبول جان، اس فکر کی نمائندگی کر رھے ھیں، جس نے ملک بھر کو انتہا پسندی اور دھشت گردی کا اکھاڑہ بنا کر ھزاروں گھروں کے چراغ گل کئے۔ یہ وھی اوریا مقبول ھیں، جو شام میں القاعدہ کے تکفیری باغیوں کی حمایت میں احادیث و روایات سے استنباط کرتے ھوئے انہیں نہایت چالاکی سے امام مہدی کے سپاھی قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اور دوسری طرف وہ لوگ نہتے لوگوں کو بے رحمی سے زبح کرتے پھر رھے ھیں۔ اسی طرح یہ وھی اوریا مقبول جان ھیں، جو گزشتہ دنوں تحریک طالبان پاکستان کی تخریب کاریوں کو جہاد کے ارفع مقصد سے تشبیہہ دیتے ھوئے پائے گئے۔ گویا دھشت گرد اور خود کش حملوں میں جل کر راکھ ھوجانے والی پچاس ھزار لاشیں، اوریا مقبول جان کے لئے جہاد کے ارفع مقصد کا عملی مظاھرہ ھیں۔ پاکستانی فوج کے سپاھیوں اور نہتے شہریوں کو پکڑ کر انہیں بے دردی سے ذبح کرنے کے بعد اس ساری درندگی کی ویڈیوز نشر کرنا اور ان کی بیک گراؤنڈ میں قرآن الحکیم کی آیات کی تلاوت، اوریا مقبول جان کو جہاد دکھائی دیتی ھے۔ اوریا مقبول جان کو ملالہ کی کتاب میں ملا عمر کے لئے یہ لکھنا کہ اس کی ایک آنکھ تھی، نہایت ناگوار گزرتا ھے، اور وہ اسے اپنے آباء و اجداد ، اپنے مذھب اور اپنی اخلاقیات کے منافی قرار دیتے ھیں، مگر سراسر جھوٹ اور بہتان کے اینٹ اور گارے سے تعمیر کیا گیا یہ کالم ان کی اخلاقیات کا پول کھولنے کے لئے کافی ھے۔ پچاس ھزار پاکستانیوں کی مسخ اور جلی ھوئی لاشوں اور ان کے پیاروں کی آھوں کے اوپر کھڑے ھو کر وہ اسے جہاد کہتے ھیں، تو اس قوم کو یہ توفیق نہیں ھوتی کہ اس شخص کا گریبان تھام کر انصاف طلب کریں؟



جیسے ایک مکھی گند پر ھی بیٹھتی ھے، اور پھر اس کے بعد اگر وہ صاف شے پر بھی بیٹھے تو اپنے ساتھ لائی ھوئی گندگی، وھاں بھی چھوڑ آتی ھے، ایسے ھی اوریا مقبول صاحب نے ملالہ کی کتاب کے ساتھ سلوک کیا اور اپنے ذھن کا گند اس پر لگا آئے۔ اس کے بعد ان کے ھی نقش قدم پر چلتے ھوئے ان کے ھی فکری قبیلے کے ساتھی انصار عباسی نے بھی اپنی پسند کے معنی کی پوشاک پہنا کر ملالہ کی کتاب کو متنازعہ بنایا۔ پھر ایک لہر چل پڑی اور ایک کے بعد ایک نام نہاد تجزیہ نگار اپنا بغض ظاھر کرتا پھر رھا ھے۔ اور ایسا کیوں نہ ھو کہ آخر کار یہ پاکستان کا میڈیا ھے، جو ھوا کے رخ پر ھی کشتی موڑنے کا عادی ھے۔

اوریا مقبول جان کے کالم کے جواب میں اختتامی طور پر قرآن پاک کے الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ھے کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت۔ اور یہ بھی کہ جب ان سے کہا جاتا ھے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ، تو کہتے ھیں کہ ھم تو اصلاح کرنے والے ھیں۔ بے شک وہ فسادی ھیں، مگر جانتے نہیں
تحریر نیر آفاق
 

دوست

محفلین
تصاویر ٹھیک نظر نہ آنے پر اصل بلاگ پر تشریف لے جائیں جیساکہ آخر میں ربط دیا گیا ہے۔
اور میں بھی یہی کہنا چاہوں گا کہ لعنت اللہ علی الکذبین
اور جیسا کہ البقرہ میں بتایا گیا
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ ڈالو تو کہتے ہیں، ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
یہ وہی لوگ ہیں۔ کل تک یہ بیمار ذہنیت کا شخص شام میں فساد پھیلانے والوں کو امام مہدی کے ساتھی بتا نے کے لیے احادیث اور قرآن کا سہارا لے رہا تھا اور اللہ رسول کے کلام کے بل پر نجومی بنا ہوا تھا۔ آج وہ فساد کم ہو گیا ہے، نظروں سے اوجھل ہے تو اس نے اور ڈگڈگی پکڑ لی۔ اور کل تک یہیں اسی فورم پر اسی ذہنیت کے لوگ اس کے ان نجومیانہ کالموں کو پیسٹ کر کر کے "دیکھا ہم نہ کہتے تھے" کی عملی تصویر بنے ہوئے تھے اور آج وہی ذہنیت پھر سے کارفرما ہے۔ یہ بیمار ذہنیت کہیں نہیں جانے والی اس میں"برکت" ہی پڑنے والی ہے۔
جھوٹوں پر خدا کی لعنت اور جھوٹ پھیلانے والوں پر خدا کی لعنت۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
ملالہ سے قطع نظر مجھے پچھلے کچھ عرصے سے شدید انداز میں محسوس ہو رہا ہے کہ اردو محفل کے ماحول کو آنلائن ویلے بحث بازوں نے آہستہ آہستہ ہائی جیک کر لیا ہے۔ اب پتہ نہیں گھر سے لڑے ہوئے ہیں، زوجہ ماجدہ نے عاق کیا ہوا ہے، بچوں نے ریٹائرمنٹ کا مشورہ دے دیا ہے یا زندگی میں اوریا مقبول جان قسم کے لکھاریوں کو پڑھ کر ان کی پبلسٹی ہی ان کا کام ہے۔ لیکن یہ رجحان انتہائی حد تک پھیل چکا ہے کہ ادھر کسی عقل کے اندھے لکھاری نے آگ لگائی ادھر یہ چوانتی اٹھا لائے کہ ادھر بھی آگ لگائیں۔الفاظ تلخ، لہجہ الزامانہ اور انداز ان مولویوں کا سا جنہیں فرقہ پرست مدرسے بحث بازی کی ٹریننگ دیتے ہیں اور انہیں کے انداز میں (جیسے وہ کتاب کھول کھول کر دوسرے مولویوں کا سیاپا کیا کرتے ہیں اور کرتے تھے) ویسے ہی یہاں ہونے لگا ہے۔ ہم نے اس فورم کی بنیاد رکھی تھی تو یہ نہیں سوچا تھا کہ ایسے پٹ سیاپے وی ہوا کریں گے۔ لیکن اب کم از کم نصف پوسٹیں ایسے مباحثوں کی ہوتی ہیں، اور چوانتی آدھے سے زیادہ مواقع پر اسلام کے مامے/چاچے/ پُھپھڑ یا پھر ٹھیکداروں کی جانب سے آتی ہے۔
آپ کی بات سے متفق ہوں یہ حضرات صرف شرپھیلانے کے لیے ایسے دھاگوں کا اجرا کرتے ہیں اسی دھاگے کے خالق کی مثال لے لیجیے موصوف کے پاس ایک دلیل نہیں نہ ہی اپنے الفاظ میں اپنے تعصبات سے بھرے جذبات کا اظہار کر پاتے ہیں ہاں مگر جہاں کوئی مخالف دلیل دی جاے وہاں کراس لگانے سب سے پہلے پہنچتے ہیں ایسے لوگوں کو اینٹر ٹین کرنا ہی بےوقوفی ہے اس لیے میں تو انہیں نظرانداز کرنا ہی پسند کروں گی ۔
 

دوست

محفلین
یہ ایک نہیں۔ جیسے ٹڈی دل جتھوں کی صورت میں آتے ہیں، یہ طالبان صفت آنلائن بحث باز بھی جتھوں کی صورت میں آتے ہیں۔ ایک کا کام آگ لگانا اور باقیوں کا پھونک مارنا ہوتا ہے۔ ایک نے موضوع پوسٹ کر دیا، باقی وقتاً فوقتاً اس پر آتے جاتے یہی غیر متفق اور نا پسندیدہ کے تمغے لگاتے چلے جاتے ہیں تاکہ آگ لگی رہے اور بجھنے نہ پائے۔
ایک ایسی قوم جس کو اقتصادی طور پر شدید دباؤ کا سامنا ہے، اور ساتھ اندرونی دہشت گردوں نے اور بیرونی دشمنوں نے دیوار سے لگایا ہوا ہے، جس کے کھیل کے میدان بھی خودکش حملوں سے محفوظ نہیں۔ ان پردوہری ستم ظریفی ہے کہ میڈیا پر سیاست نام کی سرکس چلتی ہے، اور انٹرنیٹ پر جہادی گدھ بیٹھے ہیں۔ جن کا کام صرف یہ ہے کہ کسی مثبت سرگرمی میں وقت اور طاقت استعمال نہ ہو جائے ۔بلکہ ہروقت خون کھولتا ہی رہے۔ اس اوریا مقبول جان کی تحریر کو دیکھ لیں۔ کیسے زہر ٹپکتا ہے اس کے ہر لفظ سے، اور اس دھاگے کا عنوان چیک کر لیں ۔ اس سارے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میرے جیسا عام بندہ جو بات سن کر تصدیق کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتا ان کے کہے کو سچ سمجھ کر اپنا خون مفت میں کھولاتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے ان کا مفاد یہ ہے کہ نوجوانوں کا خون کھولے گا تو وہ عقل کے اندھے ہو کر ان کی پیروی کریں گے۔ ان کے تخلیق کردہ افسانوں کو حق اور عین اسلام مانیں گے۔ اس کے بغیر ایجنڈا پورا نہیں ہوتا نا۔ "غلبہ اسلام" کا ایجنڈا۔
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
!عزت راس نہیں آتی

از سلمان حیدر (ڈان اردو)

کہتے ہیں کہ ملّا نصرالدین نے اپنے ایک ہمسائے سے کچھ برتن ادھار لیے۔ استعمال کے بعد جب ملّا نے وہ برتن واپس کیے تو ان میں سے کچھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ پڑوسی نے شکایت کی تو ملّا نے کہا کہ اول تو میں نے آپ سے برتن لیے ہی نہیں، دوسرے جب آپ نے برتن مجھے دیے تو وہ پہلے سے ٹوٹے ہوئے تھے اور تیسرے جب میں نے وہ برتن واپس کیے تو وہ ٹھیک حالت میں تھے۔

اگر آپ نے اب سے کوئی سال بھر پہلے کسی سائبر جہادی یا اخباری ملّا سے ملالئے پر حملےکے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی ہو تو مجھے یقین ہے کہ اس کا جواب ملّا نصیرالدین سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہا ہوگا۔

“ملالئے امریکی ایجنٹ تھی جبھی تو بی بی سی نے اس کی ڈائری چھاپی تھی”۔

لیکن مولانا بی بی سی تو برطانوی ادارہ ہے۔

“وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ سب ڈرامہ ہے ملالئے کو گولی لگی ہی نہیں”۔

لیکن پشاور کے ہسپتال کا عملہ، میڈیا کے کارکن، پنڈی میں سی ایم ایچ والے، ہیلی کاپٹر کا عملہ سب تو سازش میں شریک نہیں ہو سکتے ایسا ہوتا تو کوئی نا کوئی تو بولتا۔

“ہو سکتا ہے گولی لگی ہو لیکن طالبان نے نہیں ماری”۔

ارے بھائی انہوں نے تو خود ذمہ داری قبول کرلی ہے!

“اچھا واقعی، اصل میں طالبان تو خود امریکہ کے ایجنٹ ہیں”۔

لیجیے، امریکہ کے ایجنٹ کو امریکہ کے ایجنٹ نے گولی مار دی قصہ تمام ہوا۔

وقت جیسے جیسے گزرا یہ سازشی نظریے اخبار کے صفحوں اور فیس بک کے پیجز سے اتر کر ردی کی ٹوکری میں، جو ان کی مناسب ترین جگہ تھی، جانے کے بجائے وفاق المدارس السازشیہ فی الباکستان کے اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے عہدے داروں کی یاداشت کی فائلوں میں سنبھالی گئی تاکہ محفوظ رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔

سازش کی یہ فائلیں اس وقت دوبارہ کھولی گئیں جب ملالئے کو نوبل انعام ملنے کے امکان پر بات شروع ہوئی۔

ایجنٹ ہے بھئی ایجنٹ ہے کے نعروں کی گونج میں الزامات کے جلوس اور جہالت کی مظاہرے آپ نے اخباروں میں بھی دیکھے ہوں گے اور سوشل میڈیا پر بھی انہوں نے خاصی رونق لگائے رکھی۔

انہی مظاہروں میں ایک دن وہ آیا کہ جب “لبرل فاشسٹوں” کی لال مسجد کے پیش امام طنز کا برقع اوڑھے انہی مظاہروں میں شریک پائے گئے۔ مزاح کی نقاب میں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کا منظر کچھ ایسا تھا کہ پکّا سا منہ بنائے اندر ہی اندر ہنستے ہوئے پراچہ صاحب صرف عقل کی آنکھ سے دیکھنے والوں کو تو دیکھ رہے تھے لیکن سازش کے شٹل کاک کی جالی سے دنیا دیکھنے والوں کو لبرل فاشسٹ ندیم پراچہ پر جماعت اسلامی کے فرید پراچہ کا گمان گزرا۔

نتیجہ اس چھپن چھائی کا یہ نکلا کہ اس طنزیہ تحریر نے جس میں لبرل پراچہ صاحب نے ملالئے کے حوالے سے سازشی نظریے گھڑنے اور انہیں پھیلانے والوں پر چوٹ کی تھی، قبولیت کے لحاظ سے اصل لال مسجد کے برقع پوش مولانا کے انٹرویو کا ریکارڈ اور سازش کا ننھا سا دل توڑ کے رکھ دیا۔ بہت سے پڑھنے والے اس طنز کو پانے میں ناکام رہے اور ندیم پراچہ کو اپنا ہم نوا سمجھ کر اپنا مذاق آپ اڑاتی اس ‘سازش’ کا شکار ہو گئے۔

اس ‘لبرل سازش’ سے اور کچھ ہوا یا نہیں اتنا ضرور پتا چل گیا کہ ذہنی بیماری کا پتا چلانے کے لیے کسی ڈی این اے کی ضرورت نہیں پڑتی ہزار ڈیڑھ ہزار لفظ کا ایک بلاگ کافی ہوتاہے۔

اگر آپ ملالئے سازش تھیوری کو پڑھتے رہے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ملالئے کو سازش قرار دینے والے دو قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جو طالبان کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے اور اسلام کے ان نمائندوں کے عشق میں مبتلا ہیں۔

یہ حضرات عام طور پر نظریے کی فوٹو شاپ کھولے، ملالئے کی تصویروں میں امریکی جھنڈوں کا رنگ بھرتے اور فتووں کے حاشیے لگاتے مل جاتے ہیں۔ سازش تھیوری کا دوسرا اور بڑا حصہ وہ لوگ ہیں جو ملالئے کے حوالے سے اپنے ذہن میں موجود سوالات کے جواب نہ ملنے پر سازش تھیوری کو ہی صحیح جان کر اسے حسب توفیق پھیلانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

طالبان کو اسلام کا نمائندہ سمجھنے والوں سے تو ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے لیکن وہ سولات جو عام ذہنوں میں کنفیوزن پیدا کر رہے ہیں انہین سمجھنا اور ان کا جواب ڈھونڈنا ضروری ہے۔

کیا ملالئے ہماری ہیرو ہے؟

اگر ہاں تو کیوں؟ آخر اس نے ایسا کیا کیا ہے؟ اگر وہ ہیرو نہیں ہے تو مغرب اسکی اتنی پذیرائی کیوں کر رہا ہے؟ اور بھی تو ہزاروں بچیاں ہیں دو تو ملالئےکے ساتھ زخمی بھی ہوئی تھیں یہ پذیرائی ان کا حصہ کیوں نہیں؟

کوشش کی جائے توان اور ان سے ملتے جلتے اور سوالات کا جواب سازش تھیوری کے علاوہ بھی دیا جا سکتا ہے لیکن شاید ہم مشکل سوالوں کے آسان جواب ڈھونڈنے کے عادی ہو گئے ہیں یہ جانے بنا کے مشکل سوالوں کے سادہ اور آسان جواب عموما عموماً غلط ثابت ہوتے ہیں۔

یوں تو ملالئے کو ہیرو نا ماننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم کسی ایسے فرد کو ہیرو ماننے پر تیار نہیں ہوتے جسے صرف ایک گولی کھا کے ہسپتال جانا پڑے۔ ہمارا ہیرو تو وہ ہوتا ہے جو درجن بھر بندوق برداروں کے برسٹ اپنے جسم پر لے کر بھی مرنے سے پہلے دشمن کی لاشوں پر بھنگڑا ڈالنا ضروری سمجھتا ہے۔

تفنن برطرف، ملالئے ہیرو ہے یا نہیں یہ سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا پڑے گا کہ ہیرو کون ہوتے ہیں اور کیسے بنتے ہیں؟

ہمارا معاشرہ عام طور پر جن لوگوں کو اپنا ہیرو قرار دیتا ہے ان میں ایک بڑی تعداد جنگنوؤں کی ہے۔ قدیم تاریخ ہی نہیں ہماری حالیہ تاریخ میں بھی غیر متنازعہ طور پر ہیرو تسلیم کیے جانے والے لوگ جنگیں لڑنے اور مارے جانے والے افراد ہیں۔

جو معاشرے تضادات اور ٹکراؤ سے بھرپور اور ان کو حل کرنے کے کسی متفقہ طریقے سے محروم ہوتے ہیں ان میں مسئلوں کا حل تصادم اور اس میں اپنی جان پر کھیلنے والے ہی ہیرو قرار پاتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ ایک ایسے ہی مرحلے سے گزر رہا ہے اور اس کا نتیجہ یہ کہ ہم نا صرف اپنے ہیرو جنگوں میں تلاش کرتے ہیں بلکہ عام زندگی کے کسی ہیرو کو پہچاننے اور اسے ہیرو ماننے میں مشکل بھی محسوس کرتے ہیں۔

جو معاشرے اس مرحلے سے گزر کے گروہوں کے بجائے قوم میں ڈھلنے اور تنازعات کے حل سمیت معاشرے کے مختلف فنکشن اداکرنے والے ادارے تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں ان کے ہیرو کی تعریف نسبتا مختلف ہے۔

دنیا اب صرف جنگوں میں مارے جانے والوں کو ہی ہیرو نہیں کہتی بلکہ کوئی بھی ایسا فرد جو اپنے ذاتی نقصان کی پرواہ کیے بغیر یا خود کو خطرے میں ڈالتے ہوئے معاشرے میں طاقت کے کسی غیر اخلاقی استعمال کو روکنے کے لیے آواز اٹھائے اسے بھی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ملالئے کو یورپی یونین نے انسانی حقوق کا جو سخروف ایوارڈ دیا ہے اس ایوارڈ کے لیے ملالئے کے مقابل ایک امیدوار ایڈورڈ سنائیڈن بھی تھا۔ وہی سنائیڈن جس نے اپنی نوکری اور ذاتی آزادی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے سی آئی اے کی طرف سے دنیا بھر کے شہریوں کی ای میلز، فوں کالز اور انٹرنیٹ پر دیگر سرگرمیوں کی اس نگرانی کا راز فاش کیا تھا جسے بعد میں امریکی انتظامیہ نے قانونی بھی قرار دے دیا۔ ہمیں یہ سمجھنے کے لیے کہ ملالئے نے ہیروز والا کون سا کام کیا ہے اپنی ہیرو کی تعریف کو تھوڑا سا وسیع کرنا پڑے گا۔

کیا سینکڑوں سکول اڑانے والے طالبان کے سائے تلے خوف کے زندگی بسر کرتے ہوئے تعلیم جیسا بنیادی حق مانگنے کے لیے کسی جرات کی ضرورت نہیں تھی؟

طالبان جن علاقوں میں سوات سے پہلے قبضہ کر اور سکول اڑا چکے تھے وہاں کی کسی بچی تو کیا کسی استاد نے بھی یہ جرات دکھائی تھی؟

یقیناً خوف کی جس فضا میں وہ بچّے اور اساتذہ زندہ تھے اور ہیں اس میں انہیں یہ کام نا کرنے پر کوئی الزام نہیں دیا جا سکتا لیکن اگر کسی لڑکی نے یہ ہمت کی تو اسے سراہنا نہ صرف صحیح بلکہ نہایت ضروری ہے، کیونکہ ایسی ہی چند روشن مثالیں نسلوں اور قوموں کے لئے مشعل راہ بنتی ہیں.

اگر ہم ان سوالوں کے جواب خود سے مانگ لیں تو بہت آسانی سے یہ پتا چلایا جا سکتا ہے کہ ملالئے ہیرو ہے یا نہیں اور اس نے ایسا کون سا کام کیا تھا کہ اسے ہیرو مانا جائے۔

ہیرو ز کے ضمن میں ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ہیرو اور سیلیبرٹی میں فرق کرنا بھول گئے ہیں۔ ہر مشہور آدمی ہیرو نہیں ہوتا اور ہر ہیرو کو شہرت نہیں مل پاتی۔

بہت سے لوگ جو ملالئے سے خوفزدہ طالبان کا نام لینے سے بھی گھبراتے ہیں ہمارے یہاں بہت مشہور ہیں لیکن ان میں اس اخلاقی جرات کی بے حد کمی ہے جس کا بھرپور مظاہرہ ملالئے نے کیا اور اب بھی کر رہی ہے۔ اس لیے میں ملالئے کے برخلاف انہین سلیبرٹی تو سمجھتا ہوں ہیروکا درجہ دینے کو ہرگز تیار نہیں۔

رہا سوال یہ کہ مغرب ملالئے کو اتنی پزیرائی کیوں دے رہا ہے تو اس سوال کا جواب کچھ حد تک تو اس بات میں موجود ہے کہ مغرب ہیرو کسے سمجھتا ہے۔ باقی جواب کے لیے ہمیں مغرب سے زیادہ اپنے آپ کو اور مغرب سے اپنے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد شاید ہم یہ سمجھ سکیں کہ مغرب اسے پزیرائی کیوں دے رہا ہے یا ہم اسے پزیرائی کیوں نہیں دے رہے۔

دنیا کے وہ ملک جنہیں ہم ‘مغرب’ کے ایک بریکٹ میں اکٹھا کرتے اور ایک سمجھتے ہیں ہمارے دماغ پر بہت بری طرح سوار ہیں ورنہ شاید یہ سوالات کہ مغرب کیا کر رہا ہے اور جو کر رہا ہے وہ کیوں کر رہا ہے اور ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کیوں نہیں کر رہا ہمارے لیے اتنے اہم نہ ہوتے۔

مغرب سے ہمارا رشتہ بہت عجیب ہے۔ ہم اس سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اس جیسا بننا بھی چاہتے ہیں۔ اپنے کارناموں کی پذیرائی کے لیے اس کی طرف دیکھتے بھی ہیں اور جس کام کی پذیرائی وہ کرتا ہے اس کی طرف سے فوراً مشکوک بھی ہو جاتے ہیں۔

میں اپنے مطالعہ پاکستان کے استاد سے لے کر جید کالم نگاروں تک سینکڑوں ایسے دانشوروں کو جانتا ہوں جنہیں آج تک یہ شکایت ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور کو نوبل انعام دیا گیا اور اقبال کو نظر انداز کر دیا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ آج ویسے ہی لوگ ملالئے کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے پر ناراض ہیں۔

ہمارے یہاں کوئی بچہ اے یا او لیول کے امتحان میں ڈیڑھ دو درجن ‘اے’ لیتا ہے تو ہم اخبار کے پہلے صفحے پر اس کا رزلٹ کارڈ بھی چھاپتے ہیں اور اگر ان بچوں میں سے کوئی امریکی سفیر سے انعام لینے سے انکار کر دیتا ہے تو اس کے لیے تالیاں بھی پیٹتے ہیں۔

ہم تو ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ او لیول میں دو درجن اے لینا اچھی بات ہے یا لڑکیوں کے سکول اڑانا دنیا کے سب اچھے دین کا حکم۔

جب تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر لیتے تب تک ہم کبھی تالیاں پیٹ کر ہاتھ اور کبھی گال پیٹ کر منہ لال کرتے رہیں گے لیکن اس سے مغرب کو کوئی فرق پڑے گا نا مشرق کو۔ سورج یونہی مشرق سے نکلتا اور مغرب میں ڈوبتا رہے گا اور ہم سازشی تھیوریوں میں غوطے کھاتے رہیں گے۔ ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے.




 

آبی ٹوکول

محفلین
انتاہئی بے ہودہ آدمی ہے یہ ہود بائی ۔۔۔۔ عموما ایسے لوگ مولویوں پر اعتراضات کرتے ہیں کہ ان میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہوتا اور یہ متشدد ہوتے ہیں دوسرے کا پوائنٹ آف ویو نہیں سنتے اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں ٹالرنس وگیرہ بالکل نہیں ہوتی ان میں وغیرہ وغیرہ لیکن میں نے چند پروگرام دیکھے ہیں اس بے ہودہ ہود بھائی کہ یہ بات ہی دوسروں پر الزام تراشی سے شروع کرتا ہے اورجھٹ سے دوسرے بندہ پر جھوٹا ہونے کا بے دھڑک الزام لگا دیتا ہے۔ ارے بھئی بات ہورہی ہے ملالہ کی کتاب پر تمہاری جو انڈراسٹینڈنگ ہے اس کتاب پر تم وہ بیان کرو اور دلائل سے مخالفین کی بات کا رد کرو یہ کیا بے ہودگی ہوئی کہ دلیل تو ایک بھی نہیں مگر جھٹ سے سامنے والے کو جھوٹا کہہ دیا ویسے بھی اس پروگرام کا اینکر انتہائی نان پروفیشنل ہے اس کے اکثر پروگراموں میں ایسی ہی بے ہودگی ہوتی ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
انتاہئی بے ہودہ آدمی ہے یہ ہود بائی ۔۔۔ ۔ عموما ایسے لوگ مولویوں پر اعتراضات کرتے ہیں کہ ان میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہوتا اور یہ متشدد ہوتے ہیں دوسرے کا پوائنٹ آف ویو نہیں سنتے اور جہالت کا مظاہرہ کرتے ہیں ٹالرنس وگیرہ بالکل نہیں ہوتی ان میں وغیرہ وغیرہ لیکن میں نے چند پروگرام دیکھے ہیں اس بے ہودہ ہود بھائی کہ یہ بات ہی دوسروں پر الزام تراشی سے شروع کرتا ہے اورجھٹ سے دوسرے بندہ پر جھوٹا ہونے کا بے دھڑک الزام لگا دیتا ہے۔ ارے بھئی بات ہورہی ہے ملالہ کی کتاب پر تمہاری جو انڈراسٹینڈنگ ہے اس کتاب پر تم وہ بیان کرو اور دلائل سے مخالفین کی بات کا رد کرو یہ کیا بے ہودگی ہوئی کہ دلیل تو ایک بھی نہیں مگر جھٹ سے سامنے والے کو جھوٹا کہہ دیا ویسے بھی اس پروگرام کا اینکر انتہائی نان پروفیشنل ہے اس کے اکثر پروگراموں میں ایسی ہی بے ہودگی ہوتی ہے۔

اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کا جھوٹا ہونا تو اسی دھاگے میں ثابت ہو چکا ہے۔
 
Top