(تحریر: نیرؔ آفاق)
گزشتہ برس، تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے قاتلانہ حملے کے بعد، جب ملالہ یوسف زئی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی، سوشل میڈیا پر اس کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کردی گئی۔ حملے کے کچھ ہی روز بعد ،ایک سیاسی مذھبی جماعت سے منسک ویب سائٹ نے ملالہ کی کردار کشی کی مہم چلاتے ھوئے، اس مظلوم بچی کی بی بی سی اردو کے لئے لکھی گئی ڈائری کو شائع کیا، اور کمال مہارت سے برقعے اور داڑھی سے متعلق ایک متنازعہ جملہ از خودشامل کر دیا، جو ملالہ کی اپنی تحریر نہ ھونے کے باوجود اس سے منسوب ھوتا رھا، اور اس کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا رھا۔ اس کے فوراً بعد پے در پے شائع ھونے والے سازشی نظریات اوران کی بنیاد پر حقائق کو توڑ مروڑ کر طالبان کے حق میں رائے عامہ ھموار کی گئی۔ کبھی یہ کہا گیا کہ ملالہ کو تو کوئی گولی لگی ھی نہیں۔ کبھی یہ کہا گیا کہ یہ سب امریکہ اور آئی ایس آئی کی سازش ھے، اور وہ اس واقعے کی آڑ میں وزیرستان پر حملے کا جواز پیدا کرنا چاھتے ھیں ۔ کبھی
یونیسیف کی تقریب میں ملالہ اور اس کے والد کی لی گئی
تصویر کو یہ کہہ کر اچھالا گیا کہ یہ کوئی خفیہ ملاقات تھی، جس میں قومی امور کے معاملات زیر بحث آئے اور ملکی مفادات کا سودا کیا گیا۔ اس طرح کی ان گنت لغو باتیں ھمارے سامنے آئیں، مگر ان میں سے کوئی بھی عقل اور دلیل کی کسوٹی پر پوری نہ اتری۔کسی نے یہ تک نہ سوچا کہ اگر بدنامِ زمانہ اسامہ بن لادن کے یہاں سے بر آمد ھو جانے پر بھی امریکہ نے وزیرستان پر چڑ ھائی نہیں کی، تو اسے ملالہ جیسی کم سن لڑکی پر حملے کے واقعے کی کیا ضرورت پیش آنی ھے؟ بس ایک جنون تھا، اور سازشی نظریات کا ایک طوفان، جس کے دھارے میں سب بہتے چلے گئے۔ سوشل میڈیا پر مذھبی جذبات ابھارنے والی اور فریب پر مبنی ایک ایسی مہم کا آغاز کیا گیا کہ لوگ بنا کسی تحقیق کے اس پر ایمان لاتے چلے گئے ۔ ھماری عقل وخرد کی صفات سے عاری قوم نے ملالہ کے بارے میں منفی اور لغو
پروپیگینڈا میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس معاشرے کو موت اور حیات کی کشمکش میں مبتلا اس معصوم بچی پر ذرہ بھر رحم نہ آیا۔ میری روح تک لرز اٹھتی ھے کہ فساد پھیلانے والے، فریب اور نفرت کے یہ نمائندے، دائے بر حق کا کیسے سامنا کریں گے؟
طالبان نے بارھا اس پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ صرف یہی نہیں، اس پر اور اس کے والد پر پھر سے حملہ کرنے کے لئے طالبان نے مزید
دھمکیاں دیں۔ مگر ملک سے باھر علاج کے لئے جانے کی وجہ سے وہ طالبان کی دسترس سے دور تھی، سو محفوظ رھی۔ آئیے ھم دیکھتے ھیں کہ ملالہ دنیا کے لئے اس قدر اھم کیسے بنی اور اس نے ایسا کیا کارنامہ سر انجام دیا جو دنیا بھر کے لوگ اس کی ھمت کی داد دیتے ھوئے اس کی پزیرائی کر رھے ھیں۔
سوات میں 2005ء کے لگ بھگ ایک انتہائی بے رحمانہ کمپین شروع ھوئی، جسے
مولانا فضل اللہ (تحریک نفاذ شریعت محمدی) اور ان کے ھزاروں عسکریت پسندوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ یہ لوگ فرسودہ سوچ کے حامل، تنگ نظر افراد تھے۔ یہ حجاموں کے خلاف تھے، ٹی وی کی مخالفت کرتے تھے، پولیو مہم سے روکتے تھے اور لڑکیوں کی تعلیم سے تو انہیں انتہا درجے کا بیر تھا۔ ان لوگوں نے دھمکی آمیز خطوط لکھ کر حجاموں اور سکولوں میں بھیجنا شروع کئے۔ اپنی دھشت کا بازار گرم کرنے کے لیے ،انہوں نے لیڈی ھیلتھ ورکروں کو مارنا شروع کردیا۔ آئے روز حجاموں کی دکانوں اور سکولوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کردیا۔ اپنے مخالفین کی سر عام گردنیں کاٹنا شروع کردیں۔ جب 2007ء کے وسط میں وھاں پر فوج کو بھیجا گیا، تواسے ان دھشت گردوں کی طرف سے شدید مذاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکورٹی فورسز اور فوجیوں کو پکڑ پکڑ کر ان کی سر عام گردنیں کاٹی گئیں۔سڑکوں اور بازاروں میں سر بریدہ لاشیں ملنا روز کا معمول بن گیا۔ اس درندگی کے ویڈیو ثبوت تک موجود ھیں، اورمولانا فضل اللہ اور ٹی ٹی پی اس سب پر فخر کا اظہار بھی کرتے ھیں۔
ان حالات میں، جب وہاں کوئی ان طالبان کے خلاف کھڑے ھونے کی ھمت نہیں کر سکتا تھا، ملالہ اور اس کے والد نے اپنی قوم کے لئے یہ خطرہ مول لیا۔ ملالہ کے والد، ضیاء الدین یوسف ذئی، ایک شاعر اور ماھر تعلیم ھونے کے ساتھ ساتھ اسکولوں کے ایک سلسلے کے بانی اور پرنسپل تھے۔ انہیں بھی دھمکی آمیز خطوط ملنا شروع ھوئے۔ ان ھولناک حالات میں ، بی بی سی نے جب وھاں کی رپورٹ بنانا چاھی، تو ان کی مدد کے لئے کوئی تیار نہ تھا۔ تاھم، ضیاء الدین نے ھمت دکھاتے ھوئے، وھاں کے حالات دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ وھاں امن آسکے اور ملک بھر میں طالبان کی بربریت کے خلاف بھی شعور اجاگر ھو۔ملالہ نے بی بی سی اردو کے رپورٹر عبدالحئی کاکڑ کو اپنے ھاتھوں لکھی ھوئی ڈائری دی، جس میں طالبان کے موجودگی میں سوات میں بیتے ھوئے دنوں کی روداد درج تھی۔ اسے بی بی سی اردو نے
گل مکئی کے قلمی نام سے شائع کیا۔ ملالہ نے اس طرح ایک نہایت مشکل حالات میں اپنا آپ منوانا شروع کیا۔ اس نے امن اور علم کے دشمن طالبان کو بے نقاب کیا، اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے آواز بلند کی۔ اس سب میں اسے اپنے والد کی سپورٹ حاصل رھی۔
بعد میں جب 2009ء میں ھونے والا
ملٹری آپریشن کامیاب ھو گیا، اور سوات میں امن آگیا، تو پھر ملالہ اور اس کے والد کی حوصلہ افزائی اور تعریف کے لئے حکومت نے اقدام کئے۔ ملالہ کو قومی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ظاھر ھے کہ کسی اور گھرانے یا لڑکی نے ملالہ جیسی ھمت اور قابلیت نہیں دکھائی تھی، تو کسی اور کو پزیرائی کیوں ملتی اور سرکاری تقاریب میں کیوں مدعو کیا جاتا؟ تو المختصر،اس پس منظر میں ملالہ اور اس کے والدین کی امریکی عہدیداران سے ملاقات بھی ھوئی۔ یہ ایک سرکاری نوعیت کی تقریب تھی، جس میں ملالی نے رچرڈ ھالبروک سے تعلیم کے معاملے میں مدد فراھم کرنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر یہ کہہ کر جاری کی گئیں کہ جیسے یہ کوئی خفیہ یا سات پردوں میں چھپی ھوئی ملاقات تھی،اور اس میں کوئی قومی سلامتی کا سود اھونا تھا۔ اس قوم کی عقل پر افسوس۔آپ کو یاد ھو گا کہ ارفع کریم کی بھی بل گیٹس سے ملاقات ھوئی تھی۔ اس لئے کہ اس نے اتنی کم عمری میں اپنی قابلیت کا ثبوت دیا۔ یہی صورت ملالہ کے معاملے میں بھی بنی۔
ایک لڑکی، جس نے صرف امن اور تعلیم کے لئے اس کم سنی میں آواز بلند کی ، اسے اس ‘‘جرم’’ کی پاداش میں بے رحم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنا یا، اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ طالبان نے اس حملے کو عین اسلامی احکامات کے مطابق قرار دیا اور کہا کہ یہ قاتلانہ حملہ
قرآن الحکیم کی رو سے جائز تھا۔ واضح رھے کہ یہ اس تکفیری نظریات کے حامل لوگ ھیں، جن کے نزدیک ان کے علاوہ پورا پاکستان مرتد اور واجب القتل ھے۔ یہی وجہ ھے کہ وہ بے دردی سے مساجد، امام بارگاھوں اور اولیاء اللہ کے مزارات پر خود کش حملے کرتے پھرتے ھیں۔ یہ صرف نام کے طالبان ھیں، وگرنہ ان کا طلبِ علم سے کیا رشتہ۔ یہ تو ظالمان ھیں۔ یہ پاکستان کا آئین تسلیم کرتے ھیں،اور نہ ھی جمہوریت۔ اس کے نزدیک قائد اعظم، کافرِا عظم ھیں اور پاکستان کا آئین کفریہ دستاویز۔ یہ درندے، انسانوں کی گردنیں کاٹنے کا جواز پیش کرنے کے لئے بھی مذھب کی آڑ لیتے ھیں اور دین کی ایک ایسی بھیانک اور وحشیانہ تشریح پیش کرتے ھیں کہ خدا کی پناہ۔ ذیل میں دی گئی ویڈیوز سے آپ کو ان کے سیاہ کارناموں اور جرائم کا بخوبی اندازہ ھو جائے گا۔
Video of Taliban beheading in Swat District – (Warning: Gore content – not suitable for all)
Pakistan Soldiers Beheaded by Tehreek-e Taliban Mujahideen (Warninig: Gore content – not suitable for all)
Taliban executes Pakistani soldiers in South Waziristan (Warning: Gore content – not suitable for all)
Pakistan Taliban release ‘police killing’ video (Warning: Gore content – not suitable for all)
افسوس یہ ھے کہ سیاسی و مذھبی تنظیمیں، تمام تر جرائم اور وحشیانہ عزائم سے باخبر ھونے کے باوجود ان کے خلاف ایک لفظ بولنے سے بھی کترا تی ھیں۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بھی ایسی ایسی توجیہات پیش کی جاتی ھیں، جس سے سارا الزام مغرب، امریکہ اور غیر ملکی ایجنسیوں پر لگا دیا جاتا ھے۔ سوشل میڈیا میں اس سب کا اثر پڑتا ھے،اوردھشت گروں کو برا بھلا کہنے کی بجائے، لوگوں کو سازشی نظریات میں الجھایا دیا جاتا ھے۔ ھمیں اپنی آنکھیں کھول کر خود سوچنا چاھئیے کہ جس تحریک طالبان پاکستان نے بظاھر فوج، حکومت، آئی ایس آئی کو تنگ کر رکھا ھے، او ر پاکستان کو انتہا پسندی کی دلدل میں پھنسا رکھا ھے، کیا ھم ان کے لئے نرم گوشہ تو نہیں رکھے ھوئے؟ صرف امریکہ اور مغرب کی دشمنی میں ، بنا سوچے سمجھے اور حالات کا درست ادراک کئے بغیر، ھم کہیں خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی تو نہیں مار رھے۔ افسوس کہ اس کا جواب ھاں میں ھے۔
ابھی کچھ روز قبل ایک نامور کالم نگار جناب اوریا مقبول جان نے ملالہ یوسف زئی کے خلاف ایک نہایت سخت اور غیر منصفانہ
کالم لکھ مارا۔ اس کے دیکھا دیکھی میڈیا پر طالبان کے خود ساختہ نمائندے انصار عباسی نے بھی قریباً انہی باتوں کو اپنے کالم میں لکھ دیا اور اس کے فوراً بعد ایک ایسی فضا قائم ھوتی چلی گئی، جس میں تمام لوگ ھی ویسا کچھ ھی کہہ کر ملالہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے لگے۔ سوشل میڈیا پر جو نوجوان ملالہ کے خلاف مہم میں حصہ دار بنے، ان میں اکثریت تحریک انصاف نامی جماعت کی دکھائی دی۔ ان میں سے بیشتر نے تو تحریک طالبان پاکستان کی تعریفیں تک کر ڈالیں اور یہ ایک نہایت ھی پریشان کن امر ھے کہ ایک سیاسی تنظیم کے پیروکار امریکہ، مغرب، ڈرون اور ملالہ کی مخالفت میں اندھے ھو کر دھشت گردوں کی طرف داری کرتے پھریں۔ جب انہی نوجوانوں کی جانب سے دھڑا دھڑ اوریا مقبول جان کا کالم پوسٹ ھوتا رھا، توھم نے سوچا کہ ایک ھی بار اس کالم کا نہایت ھی مفصل جواب تحریر کر دیا جائے۔ بد نصیبی یہ ھے کہ ان میں سے کسی نے بھی ملالہ کی حال ھی میں شائع شدہ کتاب کو بظاھر بالاستیعاب نہیں پڑھا، مگر وہ اوریا مقبول جان سے ادھار مانگی گئی سوچ پر اپنی ایک عمارت تعمیر کئے بیٹھے ھیں۔
آئیے، ذرا نام نہاد دانشور اوریا مقبول جان کی تحریر کا جائزہ لیتے ھیں؛
آپ نے اپنے کالم کا آغاز ایک لطیفے سے کر کے ملالہ کے خلاف زھر اگلنے کے لئے راہ ھموارکی، اور فوراً بعد یہ جملہ لکھ مارا،۔
۔‘‘ملالہ یوسفزئی کی کتاب پڑھنے کے بعد معین اختر کا یہ جملہ شدت سے یاد آتا ھے اور ساتھ ھی اس امریکی کا فقرہ بھی ذھن میں ھتھوڑے کی طرح ٹکرانے لگتا ھے، جو اس نے ایمل کانسی کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنے کے بعد کہا تھا کہ پاکستانی پیسے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ھیں’’۔
گویا، کالم نویس نے یہ فتویٰ صادر فرما دیا کہ ملالہ پیسوں کی خاطر کچھ بھی کرسکتی ھے۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ بقول کالم نویس، ملالہ نے ایسا کیا جرم کر دیا، جو موصوف اس قدر بھڑک اٹھے ھیں۔ اسے ثابت کرنے کے لئے وہ آگے رقم طراز ھوتے ھوئے پہلے تو کرسٹینا لیمب کے بارے میں ایک غیر ضروری سا جملہ لکھتے ھیں۔ پھر اس کے بعد فرماتے ھیں،۔
۔‘‘ملالہ کی یہ کہانی، جو 276 صفحات پر مشتمل ھے، پڑھنے کی آپ کو شاید ضرورت ھی نہ پڑے، اگر بیس سالوں سے اسلام، مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کو بدنام کیا جاتا ھے، وہ سب آپ کے علم میں ھو’’۔
پھر ساتھ ھی اوریا مقبول صاحب لکھتے ھیں،۔
۔‘‘آپ کے ذھن میں یہ سوال ابھرے گا کہ اس کمسن بچی کے منہ میں میرے دین، مسلمان اور پاکستان کے لوگوں کے بارے میں یہ ذلت آمیز لفظ کس نے ڈالے اور کس مقصد کے لئے ڈالے گئے’’۔
اللہ اکبر۔ موصوف نے پہلے تو ایک خاص نفسیاتی داؤ کھیلتے ھوئے اپنے قارئین کو یہ پیغام دیا کہ انہیں اس کتاب کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ھے۔ اور اس کے بعد انہوں نے ملالہ پر اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کو بدنام کرنے کا الزام بھی دھر دیا اور یہ بھی لکھ مارا کہ اس نے ‘‘یہ ذلت آمیز’’ الفاظ کیوں لکھے۔ بھلا کون سے ذلت آمیز الفاظ؟ کوئی ثبوت تو دکھایا جائے۔
مگرھاں، اوریا مقبول جان، ان سنگین الزامات کے فوراً بعد کچھ بلا جواز ‘ثبوت’ بھی پیش کرتے ھیں۔ ذرا ان پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ھیں۔
۔ ‘‘سب سے پہلے جس شخص کا تذکرہ ھے، وہ سید الانبیا(صلی اللہ علیہ وسلم)، امہات المومنین اور اھل بیت کے خلاف غلیظ الفاظ استعمال کرنے والا سلمان رشدی ھے، جو مغرب کی آنکھ کا تارہ ھے’’۔
کس نفاست سے دروغ گوئی کا مظاھرہ کرتے ھوئے جناب نے ‘‘سب سے پہلے’’ کے الفاظ استعمال کئے ھیں۔ اوریا صاحب،سب سے پہلے سے مراد تو پہلا صفحہ، یا چلئے دوسرا صفحہ، یا چلئے پانچواں صفحہ ھو سکتا ھے۔ مگر صفحہ نمبر تیس کو آپ کسی صورت ‘‘سب سے پہلے’’ نہیں کہہ سکتے۔ آپ کا ایک جھوٹ تو یہیں پکڑا گیا۔
آگے چلتے ھوئے آپ لکھتے ھیں،۔
۔‘‘اس کے بارے میں ملالہ لکھتی ھے:‘‘پاکستان میں اس کتاب کے خلاف مضامین سب سے پہلے ایک ایسے مولوی نے لکھنے شروع کئے، جو ایجنسیوں کے بہت نزدیک تھا۔’’ (صفحہ 30)۔ تاریخ کا یہ بدترین جھوٹ اس کے منہ میں کس نے ڈالا؟ اسے کس نے یہ لکھنے پر مجبور کیا کہ سلمان رشدی کو ‘آزادیء اظہار’ کے تحت یہ پورا حق تھا’’؟
بہت بھیانک الزام لگایا گیا ھے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرانی ھوگی کہ ملالہ کی کتاب میں ھرگز ھرگز ایسا کچھ نہیں لکھا گیا کہ سلمان رشدی کو توھین آمیز ناول لکھنے کا حق تھا۔ اوریا مقبول جان اس قدر ڈھٹائی سے ایسا جھوٹ بول سکتے ھیں، اس کا اندازہ تو تھا، مگر یہ توقع نہیں تھی کہ وہ ایک سولہ برس کی نہتی لڑکی کو توھینِ اسلام کے الزام میں پھنسانے کے لئے ایسا اوچھا وار کریں گے۔
موصوف کے بہیمانہ الزام کے برعکس ملالہ کی کتاب میں یہ لکھا گیا ھے کہ جب اس کے والد اپنے کالج میں تقاریر اور مباحثوں میں حصہ لیتے تھے، تو ایک موقع پر سلمان رشدی کی کتاب پر ایک علمی مباحثہ میں ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ ھمیں پرتشدد احتجاج کی راہ اپنا کر اپنی املاک کا نقصان کرنے کی بجائے ایک دانشمندانہ لائحہ عمل سوچنا چاھئیے، اور بہتر ھے کہ ھم کتاب کا جواب کتاب سے ھی دیں۔ ملالہ لکھتی ھے کہ اگرچہ ان کے والد آزادی ء اظہار کے حامیوں میں سے ھیں، مگر انہیں بھی رشدی کی کتاب کا جان کر دکھ پہنچا اور ان کے جذبات بھی مجروح ھوئے۔کتاب میں لکھا ھے کہ کالج کے مباحثے میں اس کے والد نے کہا کہ اسلام کو کسی کی ( توھین آمیز ) کتاب سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ۔ اس کے والد نے اپنی تقریر میں کہا کہ میرا دین ایسا کمزور نہیں۔
گویا وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذاتِ بالا صفات اس قدر ارفع اوراعلیٰ مقام پر فائز ھے کہ کسی کی دشنام طرازی سے اسلام اور محبوبِ خدا کی پاک ذات پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔یہ کس قدر پختہ اور قابل قدر سوچ ھے۔ اپنے دل پر ھاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا اس سب سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ھے کہ ملالہ یا اس کے والد یہ یقین رکھتے تھے کہ سلمان رشدی کو توھین آمیز کتاب لکھنے کا حق تھا؟ انا للہ ونا علیہ راجعون۔ اوریا مقبول جان نے اتنا بھیانک بہتان لگانے کی حد پار کرلی اور وہ بھی ایک معصوم اور کم سن لڑکی کے بارے میں۔
۔ لگے ھاتھوں اوریا مقبول کا وہ اعتراض بھی دیکھ لیتے ھیں، جو بقول ان کے تاریخ کا سب سے بدترین جھوٹ ھے، جو ملالہ کی کتاب میں لکھا ھوا ھے، یعنی یہ کہ رشدی کی کتاب کے خلاف تحریک کے لئے ایک ایسے مولانا نے اخبارات میں کالم لکھنا شروع کئے، جو ایجنسیوں کے نزدیک تھے۔ یہ کہنا کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ھے، نہایت ھی مضحکہ خیز بات ھے۔ مگر خیر، اس بات کو چھوڑ کر ذرا اس زمانے کی صورت حال کا ایک مختصر جائزہ لے لیتے ھیں۔ سلمان رشدی کی کتاب، پاکستان میں فوری طور پر بین کر دی گئی تھی ۔ اس کے بعد اخبارات میں اس کے خلاف کالموں اور مضامین کا ایک سلسلہ شروع ھو گیا، جس میں
مولانا کوثر نیازی پیش پیش تھے۔ عوام الناس کو احتجاج کے لئے کچھ اس انداز میں اکسایا گیا کہ پر تشدد مظاھرے بھی ھونے لگے۔ اس سب سے نہ صرف
پاکستان کی بدنامی ھوئی، بلکہ دنیا بھر میں رشدی کی غیر معیاری اور توھین آمیز کتاب کی مفت میں تشہیر بھی ھوئی۔ مولانا کوثر نیازی کی ایماء پر 12 فروری 1989ء میں اسلام آباد میں امریکن کلچرل سنٹر کے سامنے دس ھزار افراد کا احتجاجی مظاھرہ ھوا، جس میں
امریکہ کے پرچموں کو نذر ِ آتش کیا گیا اور حالات اس قدر خراب ھو گئے کہ بالآخر سو سے ذائد افراد زخمی اور چھ مظاھرین جاں بحق بھی ھوئے۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ھے کہ توھین آمیز ناول کی اشاعت برطانیہ میں ھوئی تھی، اور اس کا کوئی لینا دینا امریکہ یا امریکن کلچرل سنٹر سے نہیں تھا۔ اس زمانے میں مبصرین کے خیال کے مطابق یہ ضیاء الحق کی پالیسیوں کا تسلسل تھا کہ پاکستانی ملٹری اور انٹیلی جنس نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ھوئے اور لوگوں کے مذھبی جذبات کو استعمال کرتے ھوئے بے نظیر کی نومولود حکومت کو کمزوکرنے کی سازش کی۔ اور اس مقصد کے لئے مولانا کوثر نیازی کو آلہء کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ واضح رھے کہ آپ
مولانا وھسکی کے نام سے بھی جانے جاتے تھے، اور
شراب اور شباب کے رسیا تھے۔ یہ ساری بات کتاب میں بیان نہیں ھوئی، البتہ اپنے قارئین کی معلومات کے لئے پیش کی گئی ھے۔
اوریا مقبول جان کے مطابق ‘تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ’ کتنا جھوٹ تھا اور کتنا سچ، اس ساری تفصیل کے بعد اس کا پول بھی کھل گیا۔
موصوف آگے لکھتے ھیں،۔
۔‘‘تاریخ کے یہ اندھے اس قدر لا علم ھیں کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف مظاھرے سب سے پہلے لندن اور یورپ کے شہروں میں شروع ھوئے تھے اور ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خمینی نے تو اس کے قتل کا فتویٰ تک دے دیا تھا’’۔
اوریا مقبول جان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ھے کہ دوسروں کو تو بہت آسانی سے اندھا قرار دے دیتے ھیں، مگر ان کو اپنے اندھے پن کی کوئی خبر آج تک نہیں ھو سکی۔ ملالہ کہ کتاب میں واضح طور پر لکھا ھوا ھے کہ احتجاج کے دو دن کے بعد آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا۔
وہ ساری تمہید اور خرافات جو کالم نگار نے ملالہ کو ایک مذھبی تنازع میں الجھانے کے لئے گھڑی، اس کا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ھو ھی گیا۔ کیا اس شخص کے بقیہ کالم پر بات کرنے کی اب کوئی گنجائش باقی رھتی ھے؟ جو شخص اتنے بڑے بڑے جھوٹ بغیر کسی شرم کے لکھ سکتا ھو، اس نے آگے بھی محض فریب کا ھی سہارا لیا ھو گا۔
آگے لکھتے ھیں،۔
۔‘‘اس کے بعد ضیاء الحق کا ایک مضحکہ خیز قسم کا حلیہ بیان کیا گیا ھے اور ساتھ ھی وہ شور جو اس ملک میں مچایا جاتا ھے کہ ‘‘عورتوں کی زندگی ضیاء الحق کے زمانے میں بہت زیادہ محدود ھوگئی تھی’’(صفحہ 24)’’۔’
حیران کن بات ھے کہ موصوف کو ضیاء الحق سے اس قدر عقیدت ھے کہ وہ اس کی ایک بالکل درست تصویر کشی کو ‘مضحکہ خیز’ حلیے سے تشبیہہ دے رھے ھیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ مرد مومن کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے موجود تھے، اور ان کے نمایاں دکھائی دینے والے دانت فوری توجہ حاصل کرلیتے تھے۔ اگر ھاں، تو یہی کچھ ملالہ کی کتاب میں بھی تحریر ھے۔ اور کسے یہ معلوم نہیں کہ ضیاء الحق نے مذھب کو اپنے سیاسی مقاصداور اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال کیا۔ اس میں بھی کیا شبہ ھے کہ ‘اسلامی قوانین’ کے ٹائٹل کی آڑ میں انہوں نے اقلیتوں اور خواتین کے حقوق غصب کئے۔
حدودآرڈیننس کے نفاذ کے بعد جس قدر ظلم ھوا، اور جس طرح مظلوم اور بے بس خواتین کا استحصال ھوا، وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ اگر آپ اس بارے میں مخمصے کا شکار ھیں، تو آپ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال کی کتاب
’اپنا گریباں چاک‘ پڑھ لیجئے، جہاں انہوں نے نہایت دکھ سے ان قوانین پر غم و غصے کا اظہار کیا ھے اور بہت سی مثالیں دے کر بتایا ھے کہ کیسے ان قوانین نے
مجرموں کو تحفظ فراہم کیا۔
مگر موصوف اوریا مقبول جان بضد ھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ھوا اور اس کی دلیل میں وہ کہتے ھیں،۔
۔‘‘کوئی 1977ء سے 1988ء کے درمیانی عرصے میں ٹیلی کاسٹ ھونے والے پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراموں کی فہرست اٹھالے تو اسے پتہ چل جائے گا یہ پی ٹی وی اور ڈرامے کا سنہری ترین دور تھا’’۔
ایسی ھٹ دھرمی کی توقع انہی موصوف سے رکھی جا سکتی ھے، جن کی تحریر کا آغاز ھی جھوٹ سے ھوا ھو۔
اس کے بعد کالم نگار نے نہایت ھی بھڑکانے والے جملے لکھ کر مغرب کے خلاف اکسایا ھے اور ملالہ کی کردار کشی کی مہم جاری رکھی ھے۔ ھمیں تو یہاں اسے لکھتے ھوئے بھی گھن آرھی ھے۔ اس لئے ھم اسے با وقار انداز میں نظر انداز کرتے ھیں۔
ذرا آگے بڑھیں، تو موصوف نے ملالہ اور اس کے گھرانے کی حب الوطنی پر وار کرتے ھوئے یہ لکھا،۔
۔‘‘پاکستان سے محبت کا عالم یہ ھے کہ ملالہ پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے دن چودہ اگست کی خوشی منانے سے اپنے والد کے انکار کو فخر سے بیان کرتی اور بتاتی ھے کہ اس کے والد اور اس کے دوستوں نے اس دن بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی تھیں’’۔
اوریا مقبول جان، جو بزعم خود ایک دانشور ھیں، کیا اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکے کہ دکھ اور فخر میں کیا فرق ھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس بنا پر عید نہیں منا رھا اور نیا لباس نہیں بنوا رھا کہ اس ملک کے کتنے ھی لوگ غربت کی چکی میں پس رھے ھیں اور تنگ دستی کے مارے نیا جوڑا نہیں پہن سکیں گے، تو کیا اوریا مقبول جان اس سے یہ استنباط کریں گے کہ وہ شخص ایک اسلامی تہوار کا مذاق اڑا رھا ھے۔ اگر نہیں، تو انہیں بدگمانی کرنے کی بجائے اچھا گمان رکھ کر یہ سوچنا چاھئیے کہ سیاہ پٹی پاکستان کے خلاف نہیں، بلکہ معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر تھی، اور بتانا یہ مقصود تھا کہ وہ جشن نہیں منا رھے۔ اور جشن نہ منانے کو ھرگز یہ مطلب نہیں لینا چاھئیے کہ انہیں آزادی یا پاکستان سے محبت نہیں۔
افسوس یہ ھے کہ ملالہ اور اس کے والد کی حب الوطنی کو داغدار کرنے والے اوریا مقبول جان کو اسی کتاب میں یہ لکھا نظر نہیں آیا، جہاں ملالہ کہتی ھے،
‘‘مجھے فخر ھے کہ ھمارا وطن، دنیا میں مسلمان ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔’’ رنج ھوتا ھے کہ اوریا مقبول جان کو کتاب میں یہ لکھا ھوا بھی نظر نہیں آیا، جہاں ملالہ کہتی ھے،
‘‘میرے والد اضطراب کے عالم میں گھر لوٹے اور کہا کہ اگر لوگ سکول اور سڑکیں تعمیر کرنے کے لئے رضاکارانہ کام کریں اور دریاؤں سے پلاسٹک (اور کاٹھ کباڑ )صاف کردیں، تو خدا کی قسم ھمارا ملک ایک برس میں ھی جنت جیسا ھو جائے گا۔’’ کیا آپ کو ان جملوں میں وطن سے پیار جھلکتا نہیں دکھائی دے رھا؟ اوریا مقبول صاحب کی نظروں سے ملالہ کا یہ جملہ بھی اوجھل رھا جہاں لکھا ھے کہ
‘‘میں نے ڈاکومینٹری بنانے والوں سے کہا کہ وہ (طالبان) مجھے نہیں روک سکتے۔ میں تعلیم حاصل کروں گی، چاھے گھر میں یا سکول میں یا کہیں بھی اور۔ میری دنیا سے درخواست ھے کہ وہ ھمارے سکولوں کو بچائیں، ھمارے پاکستان کو بچائیں ،ھمارے سوات کو بچائیں۔ ’’
آگے اوریا صاحب تحریر کرتے ھیں،۔
۔‘‘پردے اور برقعے تو ایک معمول ھے، اس کا مذاق اڑاتے ھوئے ملالہ کہتی ھے کہ برقعہ’’گرمیوں میں ایک کتیلی کی طرح ھوتا ھے۔‘‘(صفحہ51)’’۔
ملالہ بذات خود ایک با پرد لڑکی ھے، اور ھمیشہ ایک با وقار مسلمان لڑکی کے طور پر ھی میڈیا پر دکھائی دی ھے۔ امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات کے دوران بھی اس نے مکمل پردے کے ساتھ قومی لباس زیب تن کیا ھوا تھا۔ لہٰذا، اوریا صاحب نے یہاں بھی زیادتی کرکے ملالہ پر پردے کا مذاق اڑانے کا الزام لگایا ھے۔ رھی بات شٹل کاک برقعے کی، تو وہ افغانستان میں رائج تھا، اور ملالہ نے اسی کا ذکر کیا ھے۔ اگر جون، جولائی کی شدید گرمیوں میں اوریا مقبول جان خود سے شٹل کاک برقع پہننے کا تجربہ کرسکیں، تو انہیں خود اندازہ ھو جائے گا کہ کیسا محسوس ھوتا ھے۔ اگر ایسا کرنے کے بعد وہ یہ دعویٰ کریں کہ گرمیوں میں شٹل کاک برقع پہن کر انسان کو انٹارکٹکا کی برفانی ھوائیں محسوس ھوتی ھیں، تو ھم ان کی اس بات پر مکمل یقین کر لیں گے، اور ملالہ کی بات کو غلط جان لیں گے۔
اوریا مقبول جان آگے لکھتے ھیں،۔
۔ ‘‘ملا محمد عمر کا ذکر کرتے ھوئے اسے انتہائی تمسخر کے ساتھ ‘‘ون آئیڈ ملا’’ کہا گیا ھے ۔ میں یہاں اس کا ترجمہ نہیں لکھنا چاھتا کہ میرے آباء و اجداد، میرے مذھب اور میری اخلاقیات نے مجھے اس طرح کے تمسخر کی اجازت ھی نہیں دی’’۔
ایک ایسے شخص کو، جو رکھتا ھی ایک آنکھ ھو، انگریزی زبان میں ‘‘ون آئیڈ’’ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟ ویسے اوریا صاحب، یہاں یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے کہ کیا آپ کے آبا ؤ اجداد، آپ کے مذھب اور آپ کی اخلاقیات نے آپ کو جھوٹ بولنے کی اجازت دی ھے، جس کا آپ نے اس ایک کالم میں با رھا سہارا لیا ھے؟ یہ کیسی اخلاقیات ھیں، جو ضیاء الحق یا ملا عمر کا نام آنے پر تو نیند سے جاگ اٹھتی ھیں، مگر پچاس ھزار پاکستانیوں کے دھشت گردی میں ھلاک ھوجانے کو جہاد قرارد دیتی ھے، اور تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے ھاتھوں لوگوں کو ذبح کئے جانے پر بھنگ پی کر سو جاتی ھیں۔
آگے چلیں، تو اوریا صاحب نے ایک بار پھر مغرب کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی ھے اور لکھا،۔
۔‘‘اس کے بعد امریکہ کے صدر بش کی زبان اس کے منہ میں ڈال دی گئی’’۔
اور کچھ آگے بڑھ کر کہتے ھیں،۔
۔‘‘امریکہ کی زبان بولتے ھوئے ملالہ کو ذرا بھی شرم نہیں آئی’’۔
پھر لکھتے ھیں،۔
۔‘‘لیکن کیا کیا جائے اس‘‘سولہ سالہ معصوم’’ ملالہ سے وہ سب کچھ کہلوانا مقصود تھا، جو امریکہ اور اس کے حواری کہلوانا چاھتے تھے’’۔
اس طرح کے گھٹیا الزامات کا جواب دینا بذات خود ایک تذلیل کی بات ھے۔ کیا ھم اوریا مقبول جان سے یہ پوچھ سکتے ھیں کہ آپ جو کالم آئے روز لکھتے رھتے ھیں، وہ آپ سے کون لکھواتا ھے؟ کون ھے جو آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈالتا ھے کہ القاعدہ شام میں امام مہدی کی فوج کا حصہ ھے۔ آپ کو تحریک طالبان پاکستان سے کتنی ڈکٹیشن اور رقم ملتی ھے؟
۔ اوریا مقبول جان اپنے قلم سے جھوٹ اور تعصب کا زھر اگلتے ھوئے ملالہ پر ایک اور بہتان لگاتے ھوئے لکھتے ھیں،۔
۔‘‘ملالہ کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا دکھ بھی بہت ھے کہ اس کے نزدیک یہ کام تو پارلیمنٹ کا تھا ھی نہیں’’۔
ملالہ کی کتاب میں محض چار مواقع پر پارلیمنٹ کا لفظ استعمال ھوا ھے، اور اس میں کہیں بھی 1974ء کی آئینی ترمیم کا نام و نشاں تک نہیں۔ کتاب میں صرف ایک جگہ پر احمدیوں کا ذکر آیا ھے، اور اس میں بھی ملالہ نے کوئی ایسی بات نہیں لکھی، جیسا کہ اوریا مقبول دعویٰ کر رھے ھیں۔ یہ موصوف کا ایک اور سفید جھوٹ ھے، جو کھل کر سامنے آگیا ھے۔
ضمنی طور پر ھم اپنی رائے بھی لکھتے چلیں کہ ریاست کا کام، شہریوں کے کفر اور ایمان کا فیصلہ کرنا ھرگز نہیں ھوتا۔ قائد اعظم نے بھی واشگاف اعلان کیا تھا کہ ریاستی معاملات اور مذھب کو آپس میں نہیں ملایا جائے گا اور کسی طور یہاں ملائیت نہیں آئے گی۔ یہ الگ بات کہ پاکستان میں سب کچھ اس کے برعکس ھوا۔
اس کے بعد کالم نگار نے ایک طویل داستان بیان کر کے اپنے قارئین کے دماغوں میں یہ بات گھولی ھے کہ سکندر اعظم دنیا کا ظالم ترین شخص تھا ۔ آپ لکھتے ھیں،۔
۔‘‘ملالہ نے اپنے بچپن کا ھیرو سکندر اعظم کو بتایا ھے (صفحہ 20)۔ اس لئے کہ اس ‘‘معصوم’’ نے سکندر اعظم کا جو چہرہ انگریزی نصابی کتب میں پڑھا، وہ ایسا ھے کہ بچے مرعوب ھو جاتے ھیں۔ پورے مغرب میں بچوں کو کوئی نہیں پڑھاتا کہ سکندر وہ ظالم شخص تھا، جس نے تھیبس شہر کے تمام شہریوں حتیٰ کہ معصوم بچوں بچوں کو صرف اس لئے قتل کر دیا تھا کہ انہوں نے دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے تھے۔ اس نے دنیا میں پہلی دفعہ سفارتکاروں کو قتل کرنے کی رسم ڈالی تھی۔ اس نے ایران کے مشہور پارسی عبادت خانے پر سی پولس کو اس لئے تباہ کیا تھا کہ اس میں موجود خزانہ لوٹ سکے۔ لیکن ملالہ نے اپنے والد کے قائم کردہ سکول میں پچپن میں جو نصاب پڑھا تھا، اس کے مطابق سکندر ھیرو ھے’’۔
موصوف نے قارئین کے کانوں میں اپنے الفاظ تو ڈال دئیے، لیکن اگر ملالہ کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے، تو کالم نگار کا جھوٹ ایک بار پھر پکڑا جاتا ھے۔ کوئی ساڑھے تین سو سال قبل مسیح سے متعلق سکندر اعظم کے بارے میں اوریا صاحب نے اس تفصیل سے بیان کیا ھے، جیسے آنکھوں دیکھا حال ھو۔ اتنے قدیم زمانے تک چشم رسا رکھنے والے فرد سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس ماہ شائع ھونے والی کتاب بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکے گا۔ مگر کیا کیجئے کہ جھوٹ، بد گمانی اور فساد پھیلانے کی عادت وہ بلائے بد ھے، جو چھٹتے نہیں چھٹتی۔ ملالہ نے اپنی کتاب میں سکندر اعظم کو کہیں بھی اپنا ھیرو نہیں کہا۔ اس نے سکندر اعظم کا ذکر ضرور کیا ھے، اور وہ بھی اس مناسبت سے کہ اس نے سوات پر اپنی فوج سمیت دھاوا بولا تھا۔ کتاب میں لکھا ھے کہ ھزاروں ھاتھیوں اور سپاھیوں سمیت جب سکندر نے سوات پر حملہ کیا، تو وھاں کے باشندے اپنی جان بچانے کے لئے پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ مگر سکندر بھی اپنی دھن کا پکا تھا اور اس نے انہیں پہاڑوں پہ جا لیا ۔ملالہ آگے بڑھنے اور کامیابی حاصل کرنے کے جذبے کا اظہار کرتے ھوئے کہتی ھے کہ وہ بھی پہاڑوں کی چوٹی، بلکہ اس سے بھی آگے نکلنے کا خواب دیکھتی ھے۔
آپ نے دیکھا کہ اوریا مقبول جان نے یہاں بھی شدید نوعیت کی مبالغہ آرائی کرتے ھوئے، دروغ گوئی کا سہارا لیا، مگر ایک بار پھر ان کا جھوٹ بے نقاب ھو گیا۔
اپنے نفرت آمیز کالم کے اختتام پر بھی موصوف نے مزید زھر اگلا اور یوں لکیریں کھینچیں،۔
۔‘‘اپنے آباء و اجداد کا تمسخر اڑانے کا درس صرف مسلمانوں کو دیا جاتا ھے’’۔۔۔ ‘‘یہ تو وھی کہتی ھے جو پورا مغرب کہتا ھے’’۔۔۔ ‘‘اسے بھی پاکستان، اسلام اور مسلمانوں میں وھی خرابیاں نظر آتی ھیں، جومغرب کو نظر آتی ھیں’’۔۔۔ ‘‘خاندان کے منہ پر کالک ملنے والی بچی’’۔
انا للہ وا انا علیہ راجعون۔۔۔ اوریا مقبول جان، اس فکر کی نمائندگی کر رھے ھیں، جس نے ملک بھر کو انتہا پسندی اور دھشت گردی کا اکھاڑہ بنا کر ھزاروں گھروں کے چراغ گل کئے۔ یہ وھی اوریا مقبول ھیں، جو شام میں القاعدہ کے تکفیری باغیوں کی حمایت میں احادیث و روایات سے استنباط کرتے ھوئے انہیں نہایت چالاکی سے امام مہدی کے سپاھی قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اور دوسری طرف وہ لوگ نہتے لوگوں کو بے رحمی سے زبح کرتے پھر رھے ھیں۔ اسی طرح یہ وھی اوریا مقبول جان ھیں، جو گزشتہ دنوں تحریک طالبان پاکستان کی تخریب کاریوں کو جہاد کے ارفع مقصد سے تشبیہہ دیتے ھوئے پائے گئے۔ گویا دھشت گرد اور خود کش حملوں میں جل کر راکھ ھوجانے والی پچاس ھزار لاشیں، اوریا مقبول جان کے لئے جہاد کے ارفع مقصد کا عملی مظاھرہ ھیں۔ پاکستانی فوج کے سپاھیوں اور نہتے شہریوں کو پکڑ کر انہیں بے دردی سے ذبح کرنے کے بعد اس ساری درندگی کی ویڈیوز نشر کرنا اور ان کی بیک گراؤنڈ میں قرآن الحکیم کی آیات کی تلاوت، اوریا مقبول جان کو جہاد دکھائی دیتی ھے۔ اوریا مقبول جان کو ملالہ کی کتاب میں ملا عمر کے لئے یہ لکھنا کہ اس کی ایک آنکھ تھی، نہایت ناگوار گزرتا ھے، اور وہ اسے اپنے آباء و اجداد ، اپنے مذھب اور اپنی اخلاقیات کے منافی قرار دیتے ھیں، مگر سراسر جھوٹ اور بہتان کے اینٹ اور گارے سے تعمیر کیا گیا یہ کالم ان کی اخلاقیات کا پول کھولنے کے لئے کافی ھے۔ پچاس ھزار پاکستانیوں کی مسخ اور جلی ھوئی لاشوں اور ان کے پیاروں کی آھوں کے اوپر کھڑے ھو کر وہ اسے جہاد کہتے ھیں، تو اس قوم کو یہ توفیق نہیں ھوتی کہ اس شخص کا گریبان تھام کر انصاف طلب کریں؟
جیسے ایک مکھی گند پر ھی بیٹھتی ھے، اور پھر اس کے بعد اگر وہ صاف شے پر بھی بیٹھے تو اپنے ساتھ لائی ھوئی گندگی، وھاں بھی چھوڑ آتی ھے، ایسے ھی اوریا مقبول صاحب نے ملالہ کی کتاب کے ساتھ سلوک کیا اور اپنے ذھن کا گند اس پر لگا آئے۔ اس کے بعد ان کے ھی نقش قدم پر چلتے ھوئے ان کے ھی فکری قبیلے کے ساتھی انصار عباسی نے بھی اپنی پسند کے معنی کی پوشاک پہنا کر ملالہ کی کتاب کو متنازعہ بنایا۔ پھر ایک لہر چل پڑی اور ایک کے بعد ایک نام نہاد تجزیہ نگار اپنا بغض ظاھر کرتا پھر رھا ھے۔ اور ایسا کیوں نہ ھو کہ آخر کار یہ پاکستان کا میڈیا ھے، جو ھوا کے رخ پر ھی کشتی موڑنے کا عادی ھے۔
اوریا مقبول جان کے کالم کے جواب میں اختتامی طور پر قرآن پاک کے الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ھے کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت۔ اور یہ بھی کہ جب ان سے کہا جاتا ھے کہ زمین پر فساد نہ پھیلاؤ، تو کہتے ھیں کہ ھم تو اصلاح کرنے والے ھیں۔ بے شک وہ فسادی ھیں، مگر جانتے نہیں
تحریر نیر آفاق