اوریا مْقبول جان کا ملالہ فوبیا
تحریر: خاپیرئ یوسفزئ
سنا تھا گرنے کی اک حد ہوتی ہے لیکن نظروں سے گرنے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، اور شکر ہے کہ یہ حد مقرر نہیں ورنہ اک حد تک جاکہ ان جھوٹ پرستوں کو رکنا پڑتا۔ اخباری دنیا میں مذہب کے نام پر لوگوں کو ورغلانے میں اوریا مقبول جان کا نام کافی جانا پہچانا ہے۔ موصوف آج کل ملالہ یوسف زئی کے خلاف ’’ جہاد‘‘ میں مصروف ِ عمل ہیں ۔ جو کام طالبان بندوق کی زور سے نا کرسکے وہ اب اوریا مقبول جان اپنی قلم سے سرانجام دینے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ انھوں نے لاہور سے نکلنے والے ایک روزنامہ میں ملالہ کی کتاب پرجس طرح کا ناقص اور گمراہ کن تبصرہ لکھا ہے اس سے ان کی بوکھلاہٹ توصاف ظاہر ہوتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کی انگریزی پڑھنے کی صلاحیت پر بھی شک ہونے لگا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سولہ سال کی ایک بچی نےقدامت پسند سوچ رکھنے والے اس تنگ نظر شخص کی فکر کو للکارا ہے ۔
ایسے حضرات جنھوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے نام پر رائے عامہ کو گمراہ کیا ہے اس بات سےخوفزدہ ہیں کہ اب ایک تعلیم یافتہ نوجوان پشتون لڑکی اقوام متحدہ میں کھڑی ہوکر اپنے حقوق کی بات کرنے کی اہل بن گئی ہے۔
مقبول جان اپنےمضمون کا آغاز پشتونوں کی دل آزاری والے لطیفے سنا کے اپنے حامیوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
وہ لکھتے ہیں کہ ملالہ اپنی کتاب میں سب سے پہلے سلمان رشدی کے بارے میں لکھتی ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کتاب کا آغاز ان کے والد ضیاالدین کی زندگی سے شروع ہوتی ہے اور سلمان رشدی کا تذکرہ اسکی تعریف میں نہیں کیا گیا ہے بلکہ ضیالدین کی جھانزیب کالج کے وقت میں ان مظا ہروں کا ذکر کیا گیا ہے، جب کالج میں سلمان رشدی کے خلاف مظاہرے اور تھوڑ پھوڑ شروع ہوگئے تھے تو ضیالدین نے سب کو جمع کر کے کہا کہ سلمان رشدی کی کتاب پڑھ کے اسکو منطقی جواب دیا جائے۔اگر ہمارا ایمان ہے کہ قرآن پاک کے سب سے پہلے نازل ہونے والی آیت میں اقرا کہہ کر انسانیت کو پڑھنے کی دعوت دی گئی ہے تو پھر یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ اسلام کے خلاف شائع ہونے والی کتاب کا جواب کتاب ہی سے دیا جائے ؟ اوریا مقبول جان جیسے لوگوں کی خواہش ہے کہ مذہب کے نام پر ہر طرف پرتشدد مظاہرے ہوں، لوگ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں اور سرکاری و نجی املاک کو نذر آتش کریں۔ ان کے برعکس ملالہ اور ان کے والد اس سوچ کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اپنے مذہب سے واقفیت رکھتے ہیں وہ کسی صورت میں بھی ایک کتاب سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ جن لوگوں کو ایمان کمزور ہے اور وہ اپنے ہی مذہب کا دلیل سے دفاع نہیں کرسکتے وہی لوگ عوام کو تشدد پر اکساتے ہیں۔
کتاب میں ملالہ کے والد کا کہنا تھا کہ کتاب کا جواب کتاب سے دیا جائے۔ اب اوریا مقبول جان کی جھوٹی کہانی کا اگر جائزہ لیا جاے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کہ اس بچی پہ خدانخواستہ توہین رسالت کا الزام لگا نا چاہتے ہیں۔ یہ فسادی قلم کاروں کا وطیرا رہا ہے کہ جب کسی سے عقل و دلیل کے ذریعے نہیں جیتے تو ان پر اسلام دشمنی کا فتویٰ داغ دیتے ہیں۔ وہ مزیدلکھتے ہیں کہ تاریخ کا یہ بدترین جھوٹ اسکے منہ میں کس نے ڈالا ؟ مقبول جان صاحب، یہ جو آپ لکھ رہے ہوتے ہیں یہ کون آپ کے منہ میں ڈال رہا ہوتا ہے؟آ خر کوئی ذی شعور شخص اس قدر اپنے قلم کے ذریعے معاشرے میں نفرتیں تو نہیں پھیلاتا۔ آپ جو جھوٹ لکھ رہے ہوتے ہیں کیا وہ ایجنسیاںلکھ رہی ہیں یا لکھوارہی ہیں ؟
مقبول جان لکھتا ہے کہ ملالہ کے منہ میں میرے دین اور پاکستان کے خلاف ذلت آمیز لفظ کس نے ڈالے۔ بھئ کونسے ذلت آمیز الفاظ؟ کیا اسلام اور پاکستان کا ٹھیکہ آپ نے اٹھا رکھا ہے اور اب ملک اور مذہب کے بارے میں ہمیں آپ سے درس سیکھنا پڑے گا؟ ملالہ پاکستان کی شہری ہے۔ اور اک شہری ہونے کے ناطے اسکا اس ملک کے نظام ، حکومت اور فوج یا سیکورٹی اداروں پہ تنقید کا حق ہے اور یہ حق اس سے پنجاب کا کوئی بیور کریٹ دانشور نہیں چھین سکتا۔
شاید مقبول جان کی کو ئی بیٹی نہیں ہے ورنہ اسطرح کی باتیں اک باپ کسی اور کی بیٹی کے بارے میں ہرگر نہیں کر سکتا۔ قدامت پسند مردوں کا ہمیشہ سے یہ شیوا رہا ہے کہ جس عورت کا وہ عقل و دانش سے مقابلہ نہیں کرسکتے تو اس کی کردار کشی پر اترآتے ہیں۔ ان جیسے نام نہاد دانشور اکیسویں صدی میں بھی عورت ذات کو بھیڑ بکریوں کی طرح رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی عورت آزادی سے سوچ نہیں سکتی اور نہ ہی اس کا حق بنتا ہے کہ اپنے ہی ملک کے نظام اور حکمرانوں کی پالیسیوں پر تنقید کرے۔ یہ مرد اپنے حصے سے زیادہ اوروں کی ترجمانی کے لئے بے تاب بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے دانشور ہمارے لئے انتہائی مہلک ہیں۔ یہ علم و حکمت کے دشمن ہیں۔ یہ جدیددور میں بھی غلامی کے فلسفے پر یقین رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہ عورت کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے اور جو عورت شہرت کی بلندیوں پر پہنچتی ہے یہ لوگ اس کے پر کاٹنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور یوں ان لوگوں کی پوری زندگی اسی طرح گزر جاتی ہے۔
دنیا بھر میں دانشوروں کا کام اپنی قوم کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں جس طرح کے طالبان طبعیت کالم نویسوں سے ہمارا واسطہ پڑا ہے وہ ہمیں جہالت اور تاریکی میں ڈبو کر ہی رئیں گے۔ جس معاشرے میں ایک سفید ریش صاحب ایک سولہ سال کی بچی سے الجھ جائے تو آپ اطمینان سے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ معاشرہ اخلاقی پستی کی انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ پھر ایسے حالات میں لازم ہوجاتا ہے کہ ایک معاشرہ ایسے افراد سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کھڑا ہو اور واشگاف الفاظ میں کہے کہ مذہب کے نام پر آپ نے جتنی دکان داری چمکانی تھی چمکا چکے اور معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلنا تھا کھیل چکے۔
اوریا مقبول جان اپنی تحریر میں اس بات پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں کہ ملالہ نے ملا عمر کو ایک آنکھ والا کہا ہے۔ تاہم انھیں ۵۰ ہزار بیگناہ انسانوں کے جسم کے پرخچے اڑاے جانا انسان اور خدا کی پاک ذات کا تمسخر اڑانا نہیں لگتا۔ لیکن اس بندے کو ملا عمر کو اندھا کہنا مسلمانیت پہ ہنسنے کے مترادف لگتا ہے۔ مقبول جان نے جس طرح سے ملالہ کی کتاب کو اپنے زہرہلے دماغ سےپڑھا ہے مجھے لگا کہ جناب نے پڑھتے وقت اک پنسل ساتھ رکھا تھا اور ان ساری جگہوں پہ ، جہاںموصوف کو لگا اپنی تخیل کی دنیا میں جھوٹ اور فریب کے پہاڑ بنادے مْقبول جان صاحب نے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ” منہ پہ کالک ملنے والی بچی قابل عزت ہے، آپکو تو ابھی تک یہ بھی پتا نہیں چل سکا کہ اپ نے پورے پاکستان کے منہ پر کالک ملنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اللہ آپ سے جلد ہی اسکا جواب لے گا۔ خدا سب انسانوں کو اور پاکستانیوں کو آپ جیسے سرکاری کالم نویسوں کے شر سے بچائے۔
پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ ہمارے معاشرے میں نفرت اور انتشار پھیلانے والے ایسے کالم نویسوں کا بائیکاٹ کریں اور ان کی من گھڑت کہانیوں پر اعتبار کرنے کے بجائے خود ملالہ کی کتاب سمیت دیگر مواد کا خودمطالعہ کریں تاکہ انھیں حقیقت کا بخوبی پتہ چل سکے۔ جس معاشرے میں پڑھنے لکھنے کا رواج نہ ہو وہاں ایسے سرکش دانشوار سر اٹھا کر چلتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتےہیں۔
بشکریہ دی بلوچ حال