نہیں، ہاں، کیوں؟ لیکن، کیسے!
پہلا دن: پاکستان جیتے گا
دوسرا دن: پاکستان ہی جیتے گا
تیسرا دن: پاکستان نہیں جیتے گا، ڈرا ہو گا
چوتھا دن: ویسٹ انڈیز جیت سکتا ہے
آخری دن: پاکستان؟ نہیں ویسٹ انڈیز، نہیں ڈرا، نہیں پاکستان۔۔۔ نہیں ویسٹ انڈیز، نہیں، ہاں، کیوں، لیکن، کیسے۔۔۔۔۔۔
اتنے بیان تو سیاستدان پانچ سال میں نہ بدلتے ہوں گے جتنے پچھلے پانچ روز میں کرکٹ شائقین کو بدلنا پڑے۔
یہ ہے اصل کرکٹ، پہلے تین روز بالکل گری ہوئی ٹیم آخری دو روز میں یکسر پاکستان پہ حاوی رہی۔
پانچویں دن کے آغاز پہ جب براوو اور سیموئلز کریز پر آئے تو ویسٹ انڈیز میچ جیتنے کے موڈ میں تھا۔ جبھی سیموئلز پہلی ہی گیند پہ عامر کے جال میں پھنس گئے۔
اب میچ مصباح اور براوو کے بیچ میں تھا، براوو وکٹ گرتے ہی ڈرا کے موڈ میں چلے گئے تو مصباح نے بھی براوو کو نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ دوسرے اینڈ پہ اٹیک کیا گیا اور ادھر سے تین وکٹیں گریں۔ براوو اتنا خوبصورت کھیلے کہ ڈرا کے امکانات ماند پڑنے لگے۔
اور دھیرے دھیرے جب براوو کو ہولڈر پہ بھروسہ ہو گیا تو ویسٹ انڈیز ایک بار پھر جیت کے موڈ میں نظر آنے لگا۔ مطلوبہ رن ریٹ کم تھا، پاکستانی باولرز تھکاوٹ کا شکار تھے اور چائے کے وقفے کے بعد اوس پڑنے کا اندیشہ الگ۔
ڈرا؟ خارج از امکان۔
ویسٹ انڈیز ایک تاریخی جیت کے قریب تھا اور پاکستان اپنے 400ویں میچ میں پنک بال کا پہلا مقابلہ ہارنے کے قریب تھا۔
لیکن چائے کے وقفے کے بعد جب پاکستان نے بالنگ شروع کی تو بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کیا۔ مصباح کا پلان بدل چکا تھا، اب تک براوو کے پارٹنرز پہ اٹیک کیا جا رہا تھا۔ لیکن اب عامر نے براوو پہ اٹیک شروع کر دیا۔ چند اوورز بعد ہی دن بھر آہنی اعصاب کا مظاہرہ کرنے والے براوو 91 ویں اوور میں کچھ پریشان سے دکھائی دیے اور دو برے شاٹ دیکھنے کو ملے۔
براوو نے اپنی وکٹ تو عامر کو نہ دی مگر اتنے کنفیوز ہو گئے کہ تین اوور بعد ہی یاسر شاہ کے دام میں آ گئے۔ اور ایک خوبصورت کیچ نے ایک کمال اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ اور جیت پاکستان کے قریب آ گئی۔
Image copyrightAAMIR QURESHI
Image captionبراوو اتنا خوبصورت کھیلے کہ ڈرا کے امکانات ماند پڑنے لگے۔
مصباح حسب معمول اس بار بھی میچ ختم ہونے سے پہلے ہی تنقید کی زد میں رہے۔ فالو آن کیوں نہیں کرایا؟ دو ریگولر سپنر کیوں نہیں کھلائے؟ چوتھی اننگز میں اٹیک کیوں نہیں کیا۔۔۔ وغیرہ، وغیرہ
اور کافی سارے وغیرہ۔
اگر مصباح سارا دن اٹیکنگ فیلڈ رکھتے اور باولرز دبئی کی اس قریب المرگ وکٹ سے سر پٹختے رہتے تو عین ممکن تھا ویسٹ انڈیز جلد آوٹ ہو جاتا۔
عین ممکن تھا ویسٹ انڈیز شیل میں چلا جاتا اور ڈرا ہو جاتا۔
اور یہ بھی عین ممکن تھا کہ ویسٹ انڈیز آسانی سے جیت جاتا۔
مگر مصباح مختلف ہے۔ اچھے کپتان جیتنے کے عادی ہوتے ہیں اور جیت سے اچھا ہے بھی کیا؟ مگر شریفوں کے اس کھیل میں مخالف کے ذہن سے کھیل کر اسے شکست دینے والے اچھے نہیں، بڑے کپتان ہوتے ہیں۔
باتیں تو بہت ہوں گی۔ جیت کے باوجود، مصباح کی کپتانی کو ہر زاویے سے رگڑا جائے گا مگر کیا یہ بھی کہیں زیر بحث آئے گا کہ دوسری اننگز میں بیٹنگ فلاپ ہونے کے بعد ایک یقینی ڈرا کو فتح میں بدلنا کتنا آسان تھا؟ بشو کی آٹھ وکٹوں میں سے کم ازکم آدھی پاکستان کی بے مغز بیٹنگ کی مرہون منت تھیں۔ پہلے آسان دکھائی دیتی فتح اب کئی اگر مگر کا شکار ہو چکی تھی۔ ایسے میں یہ جیت معمولی نہیں ہے۔
مصباح کو سمجھنا تو مشکل ہے مگر سمجھ لینے کے بعد اس میں خامیاں ڈھونڈنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔
ویل پلیڈ براوو! تم نے مصباح سے مقابلہ کیا۔
ویل ڈن ٹیم پاکستان! تم نے ایک تاریخی میچ اچھی کرکٹ کھیل کر جیتا۔
ماخذ