جین آسٹن کے پیچھے کون تھا؟
آکسفرڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے دعویٰ کیا ہے کہ معروف مصنفہ جین آسٹن کا اسلوب خود ان کا نہیں بلکہ ان کے مدیر کے ہنر کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین سودرلینڈ یہ نتیجہ ایسے گیارہ سو صفحات کے مطالعے کے بعد نکالا ہے جو خود جین آسٹن کی اپنی دستی تحریر ہیں اور اب تک غیر مطبوعہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مسودوں میں دھبے اور کاٹ چھانٹ کے بعد ’گرامر کے لحاظ سے عمدہ تصحیح‘ ملتی ہے۔
سودر لینڈ کہتی ہیں کہ ’ایما اینڈ پرسوایشن میں جس نوع کا نکتہ آفرینی پر مبنی عمدہ اسلوب اور اوقاف کا استعمال ہے وہ ان مسودوں میں دکھائی نہیں دیتا‘۔
سودر لینڈ جو یونیورسٹی میں انگریزی زبان اور ادب کے شعبے کی پروفیسر ہیں کہتی ہیں کہ ان کی اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جین آسٹن ’صاحبۂ اسلوب‘ مصنفہ نہیں تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کوئی اور بھی تھا جو ادارت یا ایڈٹنگ کے عمل میں بھر پور انداز سے شریک تھا۔
سودر لینڈ کو قوی گمان ہے کہ یہ ہنرمندی دکھانے والے شخص ولیم گیفرڈ ہو سکتے ہیں جو اس وقت جیس آسٹن پبلشر جون مرے دوم کے ہاں بطور ایڈیٹر کام کر رہے تھے۔
یہ تحقیق اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت جین آسٹن کے تمام مسودوں کو آن لائن دستیاب کیا جانا ہے۔
منصوبہ کنگز کالج لندن، بودلین لایبریری آکسفرڈ اور برٹس لائبریری لندن کی شرکت سے شروع کیا گیا تھا اور 25 اکتوبر کو اس کا اجرا ہونا ہے۔
پروفیسر سودرلینڈ کو جین آسٹن کا ماہر تصور کیا جاتا ہے اور اب ان غیر مطبوعہ اوراق کے مطالعے سے انہیں جین آسٹن کی صلاحتیوں کے مزید قریبی مشاہدے کا موقع ملا ہے۔
ان مسودوں کے مطالعے سے انہیں یہ جاننے کا بھی موقع ملا ہے کہ جین آسٹن تجربات کرنے، نئی سے نئی اختراعات اور نئی سے نئی چیزوں کو سامنے لانے کی کوشش کرتی تھیں۔
اس مطالعے سے یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ وہ اپنے مطبوعہ ناولوں کے برخلاف گفتگو اور مکالمے لکھنے پر زیادہ دسترس رکھتی تھیں۔
جین آسٹن نے (1817-1775) اپنی زندگی کے دورن چھ ناول مکمل کیے جن میں سے دو ان کی موت کے بعد شائع ہوئے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/lg/entertainment/2010/10/101024_jane_austen_sen.shtml