2020 کی بہترین کتاب

سال 2020 میں آپ نے کتنی کتابیں پڑھیں؟

  • 9سے زائد

    Votes: 7 30.4%
  • 5 سے 9 کتابیں

    Votes: 3 13.0%
  • 1سے 4کتابیں

    Votes: 9 39.1%
  • کوئی نہیں

    Votes: 4 17.4%

  • Total voters
    23
  • رائے شماری کا اختتام ہو چکا ہے۔ .

شمشاد

لائبریرین
2020 کی بہترین کتاب:

فکشن : سید ذوالفقار علی بخاری کی "سرگزشت"
مالیات:The Barefoot Investor: The Only Money Guide You'll Ever Need by Scott Pape

جو کتابیں میں نے اس سال پڑھیں اُن میں میرے انتخاب کو بہت زیادہ دخل نہیں تھا۔ بس یوں کہیے کہ کتاب کی دستیابی پہلی ترجیح رہی۔ سرگزشت البتہ میری فہرست میں کافی عرصے سے تھی۔
کیا یہ آن لائن مل سکتی ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
کیا یہ آن لائن مل سکتی ہے؟

اگر آن لائن سے آپ کی مراد سافٹ کاپی ہے تو سرگزشت کی سافٹ کاپی تو مشکل ہی ملے گی۔ اگر دوسری کتاب کا ذکر ہے تو وہ آپ کو ان کی ویب سائٹ سے مل جائے گی۔ انٹرنیٹ پر شاید آپ کو پائریٹڈ نسخہ بھی مل جائے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ، کوئی پوری کتاب پڑھے ہوئے تو زمانہ ہوا ۔ البتہ ضرورتاً مختلف کتب اور رسائل حوالہ جات وغیرہ کے لئے دیکھتا رہتا ہوں بلکہ روزانہ ہی کچھ نہ کچھ دیکھتا ہوں ۔ زیادہ تر پیشہ ورانہ لٹریچر ، یا پھر مذہبی اور ادبی کتب وغیرہ زیرِ نظر رہتی ہیں ۔
یہ مصروف لوگوں کی نشانی ہے۔ :)

بہت سالوں سے میں غیر نصابی اور تفریحی کتابیں پڑھنے کا قائل نہیں رہا ۔ اور یہ بات پوری سنجیدگی سے لکھ رہا ہوں کہ کتابیں ہر ایک کے لئے نہیں ہوتیں ۔

لیکن بہت سی کتابیں چاہے وہ فکشن ہی ہوں، ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کو پڑھنے کے بعد انسان کو لگتا ہے کہ وہ ایک بالکل نئی دنیا سے متعارف ہوا ہے ۔ یا کسی چیز کو نئے انداز میں دیکھنے کے قابل ہوا ہے ۔

اپنے حلقے کے پسندیدہ لوگوں کی کتابیں پڑھنے سے انسان اپنے عقائد و اعتبارات میں مزید راسخ ہوتا ہے۔ یا کبھی کبھی بدظن بھی ہو جاتا ہے۔ :)

مخالفین کی کتابیں پڑھنے سے انسان کو ایک متبادل بیانیہ میسر آتا ہے اور وہ یہ سمجھنے کے قابل ہوتا ہے کہ سامنے والا چیزوں کو کس انداز میں دیکھتا سمجھتا ہے۔ اور اس طرح انسان اندھے تعصب سے بچ سکتا ہے۔

ہاں کچھ کتابیں البتہ آپ کو بہا کر لے جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر آپ مستقل کتابیں پڑھتے رہیں تو پھر آپ کو بہا کر کسی ایک سمت میں لے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

میرے ذہن میں جو اول فول آیا وہ میں نے لکھ دیا۔ اب آپ بتائیے آپ کی کیا مراد تھی اس بات سے۔ :)

اکثر لوگوں کو کتب بینی سے فائدے کے بجائے نقصان پہنچتا ہے ۔

یہ کون سے لوگ ہیں؟

آج کے انسان کو کتابوں کی نہیں بلکہ استادوں (رہنمائوں) کی ضرورت ہے ۔
اس میں تو کوئی شبہ نہیں!

لیکن استادوں کے پاس ہمارے لئے اور ہمارے پاس استادوں کے لئے وقت نہیں ہے سو ہم اُن کی لکھی کتابوں کو دل سے لگا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا ذاتی نسبت و تعلق بے حد ضروری ہے؟

اور یہ کہ کتابیں لکھ کر اساتذہ ہزاروں طلباء کو راستہ دکھا سکتے ہیں جبکہ ذاتی حیثیت میں ایسا کرنا کافی مشکل ہے۔

یہ ہیلمٹ والا ایموجی کہاں مرگیا ۔ جب بھی ضرورت پڑتی ہے ، نظر نہیں آتا

:skywalker:
یہ اب میں نے لگا لیا ہے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ مصروف لوگوں کی نشانی ہے۔ :)
احمد بھائی ، اب مصروف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شروع کی زندگی میں بہت وقت ضائع کیا ۔ یہ بات بہت دیر سے سمجھ میں آتی ہے کہ ہر آدمی کو زندگی میں کچھ ضروری کام نبٹاکر جانا ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زندگی کا دورانیہ تو معین ہے سو جتنی دیر سے آدمی کو اس کا احساس ہوتا ہے اسے پھر اتنا ہی مصروف ہونا پڑجاتاہے ۔ یعنی تین گھنٹے کے سالانہ امتحان میں شروع کے دو گھنٹے اگر چیونگم چبانے اور پنسل تراشنے میں لگادیئے جائیں تو پھر آخری گھنٹے کی مصروفیت کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں ۔ :)

لیکن بہت سی کتابیں چاہے وہ فکشن ہی ہوں، ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کو پڑھنے کے بعد انسان کو لگتا ہے کہ وہ ایک بالکل نئی دنیا سے متعارف ہوا ہے ۔ یا کسی چیز کو نئے انداز میں دیکھنے کے قابل ہوا ہے ۔
اپنے حلقے کے پسندیدہ لوگوں کی کتابیں پڑھنے سے انسان اپنے عقائد و اعتبارات میں مزید راسخ ہوتا ہے۔ یا کبھی کبھی بدظن بھی ہو جاتا ہے۔ :)
مخالفین کی کتابیں پڑھنے سے انسان کو ایک متبادل بیانیہ میسر آتا ہے اور وہ یہ سمجھنے کے قابل ہوتا ہے کہ سامنے والا چیزوں کو کس انداز میں دیکھتا سمجھتا ہے۔ اور اس طرح انسان اندھے تعصب سے بچ سکتا ہے۔
ہاں کچھ کتابیں البتہ آپ کو بہا کر لے جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر آپ مستقل کتابیں پڑھتے رہیں تو پھر آپ کو بہا کر کسی ایک سمت میں لے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
میرے ذہن میں جو اول فول آیا وہ میں نے لکھ دیا۔ اب آپ بتائیے آپ کی کیا مراد تھی اس بات سے۔ :)
کتب بینی کے بارے میں میرا موقف میری اپنی ناقص رائے پر مبنی ہے جس سے سراسر اختلاف ممکن ہے اور ہر آدمی کو اس کا حق ہے ۔ یہ موضوع تو ایک مفصل مضمون کا متقاضی ہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد والی فہرست میں اسے سات سو اٹھارہ نمبر پر رکھ دیا ہے ۔ فی الوقت چند نکات مختصراً اپنی رائے کے حق میں پیش کرتا ہوں ۔ آپ چاہیں تو ان نقطوں کو ملا کر تصویر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ :):):)
یہ گفتگو پاکستانی معاشرے کے پس منظر میں ہورہی ہے اور میرا تبصرہ بھی بالخصوص پاکستان اور(بالعموم تیسری دنیا کے اکثر اسلامی ممالک ) کی صورتحال کے پس منظر میں ہے ۔
  • پاکستان کی پچاس فیصد آبادی ۲۲ سال سے کم عمر کی ہے ۔ اور بقیہ پچاس فیصد میں بھی نوجوانوں کی شرح اچھی خاصی ہے ۔
  • ۲۰۱۷ کی شماریات کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح ۵۹ فیصد ہے(خواتین میں ۴۷٪ اور مردود میں ۷۱٪) اور خواندگی کی تعریف یہ متعین کی گئی کہ آپ اخبار یا رسالے میں سادہ سی تحریر پڑھ سکیں اور سادہ سے جملے لکھ سکیں ۔
  • شماریاتی اعداد سے قطع نظر اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو صاف واضح ہوجائے گا کہ ہماری آبادی کی تعلیمی سطح اس معیار کی نہیں ہے جو ان اعداد سے ظاہر ہوتی ہے ۔
  • ہمارے ابتدائی تعلیمی نظام میں لکھنا پڑھنا تو سکھا دیا جاتا ہے لیکن انسانیت اور شہریت کے بنیادی اوصاف اور اصولوں کی تعلیم و تربیت نہ ہونے کے برابر ہے تعلیمی اداروں میں تربیت پر زور کم ہے ۔
  • نتیجتاً تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ضروری نہیں کہ نوجوانوں میں ذہنی پختگی اور شعور کا وہ درجہ پیدا ہوجائے جو حق و ناحق اور جائز و ناجائز کی تمیز کروا سکے ۔ کسی بات کو تنقیدی اور تحقیقی نظر سے دیکھنا کم ہی لوگوں کے بس کا ہے ۔
  • کتاب شائع کرنا ایک انڈسٹری بن گئی ہے ۔ ہر چیز چھپ رہی ہے ۔ معیار نام کی کسی چیز کو اس میں کم ہی دخل ہے ۔
  • اکثر اوقات مصنفین اور ادارے اپنی جیب سے خرچ کرکے کتاب شائع کرواتے ہیں ۔
  • آزاد اور غیر جانبدارانہ صحافت مفقود اگر نہیں تو بہت ہی کم رہ گئی ہے ۔ چنانچہ کتابوں پر تبصرے بھی اکثر غیر جانبدارانہ اور بے لاگ نہیں ہوتے ۔
  • اچھی کتاب کا انتخاب ایک دشوار مرحلہ ہے تاقتیکہ کہ کوئی مخلص استاد یا رہنما (یا انگریزی میں جسے مینٹور کہئے) میسر نہ ہو ۔
  • غیر پختہ اذہان بہت جلد غلط نتائج اخذ کرسکتے ہیں ۔ اس وقت پاکستانی معاشرے میں جو مذہبی اور سیاسی جذباتیت اور اشتعال انگیزی نفوذ کرگئی ہے وہ میری رائے میں غیر صحتمند مواد کا نتیجہ
  • وغیرہ وغیرہ
ان استادوں کے پاس ہمارے لئے اور ہمارے پاس استادوں کے لئے وقت نہیں ہے سو ہم اُن کی لکھی کتابوں کو دل سے لگا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا ذاتی نسبت و تعلق بے حد ضروری ہے؟ اور یہ کہ کتابیں لکھ کر اساتذہ ہزاروں طلباء کو راستہ دکھا سکتے ہیں جبکہ ذاتی حیثیت میں ایسا کرنا کافی مشکل ہے۔
ان کتابوں کی دریافت اور ان تک رسائی کے لئے بھی کسی مینٹور کا ہونا ضروری ہے ۔

ایک دفعہ ہادیِ عالم اپنی مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ عمر انجیل کے کچھ اوراق پڑھ رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پسند نہیں آیا اور کچھ اس طرح کہا کہ قرآن کے ہوتے ہوئے کسی اور کتاب کو ( ہدایت حاصل کرنے کی غرض سے) پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اسلام دوسرے مذاہب کی کتب کا مطالعہ اور ان پر تحقیق کی اجازت اس غرض سے تو دیتا ہے کہ اس علم کو مناظرے اور مباحثے میں استعمال کیا جاسکے ۔ لیکن ایک دفعہ اسلام پر ایمان لے آنے اور اسے دل سے قبول کرنے کے بعد پھر ان کتب کو بغرضِ رہنمائی پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ میری رائے میں اس اصول کو مذہب کے علاوہ زندگی کے دیگر تمام شعبوں میں بھی رہنما بنایا جاسکتا ہے ۔ علم کو مفید اور نفع بخش ہونا چاہئے ، خواہ اپنی زندگی کے لئے یا دوسروں کے لئے ۔ غیر مفید علم نہ صرف آدمی کا وقت ضائع کرتا ہے بلکہ اکثر اوقات اسے کسی مفید عمل سے دور بھی کرتا ہے ۔(یہ بات میں سینکڑوں بے فضول ناول پڑھنے کے بعد لکھ رہا ہوں ۔ ہائے اِس زود پشیماں کا ۔۔۔۔۔۔ )
احمد بھائی اس تھوڑا لکھے کو بہت جانیں ۔ اس خط کو تار سمجھیں ۔ اور ذرا دیر کے لئے اپنا ہیلمٹ مجھے ادھار دے دیں ۔ :D
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
یہ گفتگو پاکستانی معاشرے کے پس منظر میں ہورہی ہے اور میرا تبصرہ بھی بالخصوص پاکستان اور(بالعموم تیسری دنیا کے اکثر اسلامی ممالک ) کی صورتحال کے پس منظر میں ہے ۔
اس گفتگو کو محدود کرنے کی خاص وجہ؟ کیا امریکا میں معاملہ مختلف ہو گا؟
 

شمشاد

لائبریرین
ظہیر بھائی آپ کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے مزید یہ کہوں گا کہ پاکستان میں کتاب خریدنے کی سکت بھی ہر ایک میں نہیں کہ اب کتابیں بھی اتنی مہنگی ہو گئی ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس گفتگو کو محدود کرنے کی خاص وجہ؟ کیا امریکا میں معاملہ مختلف ہو گا؟
نئی نسل اور موجودہ نظامِ تعلیم کے بارے میں جن مشاہدات کا میں نے ذکر کیا وہ کسی حد تک آفاقی ہیں اور چند استثنیات کے علاوہ امریکی معاشرے پر بھی ان کا اطلاق کیا جاسکتا ہے ۔ البتہ وجوہات کا فرق ہے اور تناسب کا فرق بھی ہے ۔ یہاں فلموں اور ٹی وی اور اسپورٹس انڈسٹری نے ذہن سازی کو روکا ہوا ہے ۔ لیکن چند مثبت وجوہات کی بناہ پر یہاں معاشرے کی عمومی فضا ذرا مختلف ہے سو مجموعی طور پر صورتحال اتنی نہیں بگڑی ۔ مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی ابھی اس درجے پر نہیں پہنچی کہ جو پاکستان وغیرہ میں نظر آتی ہے ۔ البتہ پچھلے پانچ چھ سالوں میں حالات واضح طور پر رو بہ زوال نظر آئے ہیں ۔ اس موضوع پر کوئی نو دس سال پہلے ایک کتاب The Dumbest Generation نظر سے گزری تھی ۔ حقائق کا اچھا اور متوازن تجزیہ کیا گیا تھا اس میں ۔ دلچسپی ہو تو دیکھئے گا ۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میں تو کتنے عرصے سے کتاب کو اس طرح نہیں پڑھ سکی جیسے کبھی پڑھا کرتی تھی یعنی فرصت سے اور بغیر زیادہ وقفہ دیے۔ لیکن ابھی کچھ مشکل ہوتا جاتا ہے۔ کنڈل میں اکثر کتابیں جو مستعار لی ہوتی ہیں ایمزون سے وہ ویسے ہی واپس کرنی پڑتی ہیں بعض اوقات ۔ جو خریدی ہیں ان کو بھی بعض اوقات طویل وقفے دے کر پڑھ سکتی ہوں۔ سب سے زیادہ مزہ ہاتھ میں کتاب لے کر پڑھنا ہے۔ کوشش رہتی ہے کہ ایسا کیا جائے۔
اس سال لوگوں نے لاک ڈاون یا قرنطینہ میں بہت کتابیں پڑھیں لیکن میں تو نہیں پڑھ سکی کچھ بھی کیوں کہ میرا ایک تو ورک فرام ہوم چل رہا تھا اور دوسرا گھر میں کچھ لوگ آئسولیشن میں بھی رہے۔ بہرحال چند ایک کتابیں پڑھی ہیں۔ چند عرصہ دراز پہلے کی پڑھی ہوئی کتابوں کو دوبارہ بھی پڑھا۔ انھی میں این فرینک کی ڈائری آف آ ینگ گرل بھی شامل ہے اور سچ بتاوں تو پہلی بار اس کے خوف کو درست طرح سمجھ سکی کیوں کہ ان دنوں کرونا وائرس کی تازہ تازہ آمد ہی ہوئی تھی۔
اگلی پوسٹ میں بہترین کتاب کے بارے میں لکھوں گی ان شاءاللہ۔
 

زیک

مسافر
کیا کنڈل پہ ادھار کتابیں بھی ملتی ہیں؟ یہ سہولت صرف کنڈل ڈیوائسز پہ ہے یا اینڈرائڈ ایپ پہ بھی؟
ہماری لائبریری سے ای بک کنڈل ڈیوائس یا ایپ پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایمزون کے پرائم ریڈنگ اور کنڈل ان لیمیٹڈ پروگرام بھی ہیں۔
 

فہیم

لائبریرین
ہماری لائبریری سے ای بک کنڈل ڈیوائس یا ایپ پر پڑھی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایمزون کے پرائم ریڈنگ اور کنڈل ان لیمیٹڈ پروگرام بھی ہیں۔
خوش قسمت لوگ ہیں جو شادی کے بعد بھی پوری پوری کتابیں پڑھ لیتے ہیں وہ بھی کنڈل پر:LOL:

خود ہمیں تو اب کوئی مووی بھی کسی قسط وار ڈرامے کی طرح دیکھنی پڑتی ہے:confused:
 

زیک

مسافر
خوش قسمت لوگ ہیں جو شادی کے بعد بھی پوری پوری کتابیں پڑھ لیتے ہیں وہ بھی کنڈل پر:LOL:
شادی کا اس سے کیا تعلق؟ ہاں چھوٹے بچوں کے ہوتے ہوئے مشکل ہوتی ہے۔ جب بچے اتنے بڑے ہو جائیں کہ پڑھنے لگیں تو مل کر پڑھ سکتے ہیں
 
آخری تدوین:
Top