زیک
مسافر
ریموٹ کس کے پاس ہوتا ہے؟ کنٹرول اسی کا ہو گاخود ہمیں تو اب کوئی مووی بھی کسی قسط وار ڈرامے کی طرح دیکھنی پڑتی ہے
ریموٹ کس کے پاس ہوتا ہے؟ کنٹرول اسی کا ہو گاخود ہمیں تو اب کوئی مووی بھی کسی قسط وار ڈرامے کی طرح دیکھنی پڑتی ہے
ہمیں اندازہ ہے کہ آپ واقعی بہت مصروف رہی اس سال!میں تو کتنے عرصے سے کتاب کو اس طرح نہیں پڑھ سکی جیسے کبھی پڑھا کرتی تھی یعنی فرصت سے اور بغیر زیادہ وقفہ دیے۔ لیکن ابھی کچھ مشکل ہوتا جاتا ہے۔ کنڈل میں اکثر کتابیں جو مستعار لی ہوتی ہیں ایمزون سے وہ ویسے ہی واپس کرنی پڑتی ہیں بعض اوقات ۔ جو خریدی ہیں ان کو بھی بعض اوقات طویل وقفے دے کر پڑھ سکتی ہوں۔ سب سے زیادہ مزہ ہاتھ میں کتاب لے کر پڑھنا ہے۔ کوشش رہتی ہے کہ ایسا کیا جائے۔
اگلی پوسٹ میں بہترین کتاب کے بارے میں لکھوں گی ان شاءاللہ۔
یہ بات واقعی ہضم ہونے والی ہے۔شادی کا اس سے کیا تعلق؟ ہاں چھوٹے بچوں کے ہوتے ہوئے مشکل ہوتی ہے۔ جب بچے اتنے بڑے ہو جائیں کہ پڑھنے لگیں تو مل کر پڑھ سکتے ہیں
یہ تو ہر شادی شدہ شخص کی داستان ہےزیک، فہیم بھی بیچارہ کیا کرے، صبح سے شام تک دفتر کی نوکری، شام سے صبح تک گھر کی نوکری۔
لیکن ان کے بچے تو ماشاء اللہ خاصے بڑے ہیں، پھر مصروفیت چہ معنی دارد؟میں خود بھی وارث بھائی کا منتظر ہوں اس دھاگے میں۔
اُن کی مصروفیت کے خیال سے میں اُنہیں ٹیگ نہیں کیا۔
جن کی شادی پرانی ہو جائے وہ مستثنیٰ ہیں۔یہ تو ہر شادی شدہ شخص کی داستان ہے
لیکن ان کے بچے تو ماشاء اللہ خاصے بڑے ہیں، پھر مصروفیت چہ معنی دارد؟
وہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ وارث بھائی بہت کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کے پاس اپنی لائبریری ہے۔وارث بھائی تو ماشاء اللہ بہت کتابیں پڑھتے ہیں۔
وہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ وارث بھائی بہت کتابیں پڑھتے ہیں اور ان کے پاس اپنی لائبریری ہے۔
اگر کتابوں کا نام پڑھنا، فہرست پر ایک نظر ڈالنا اور جہاں تہاں سے ایک دو سطریں پڑھ لینا مطالعہ کتب کے زمرے میں آتا ہے تو میں نے اس سال اردو،ہندی،عربی اور فارسی کی کثیر کتابیں پڑھی ہیں
اس فہرست میں وہ لوگ بھی شامل کیے جائیں جو مکئی کی ریڑھی سے دانے خریدتے وقت اخباری کی بنی تھیلیاں بھی پڑھتے ہیں۔اگر کتابوں کے نام پڑھنا، فہرست پر ایک نظر ڈالنا اور جہاں تہاں سے ایک دو سطریں پڑھ لینا مطالعہ کتب کے زمرے میں آتا ہے تو میں نے اس سال اردو،ہندی،عربی اور فارسی کی کثیر کتابیں پڑھی ہیں
اس فہرست میں وہ لوگ بھی شامل کیے جائیں جو مکئی کی ریڑھی سے دانے خریدتے وقت اخباری کی بنی تھیلیاں بھی پڑھتے ہیں۔
اور پھر ان پر تبصرہ بھی فرماتے ہیں؟اور ہم جو آتے جاتے بسوں اور رکشوں کے پیچھے کُندہ ادبِ "عالیہ" کے اقتباسات کا عمیق و دقیق مطالعہ کرتے ہیں؟ اُس کی بابت کیا رائے ہے پنچوں کی؟
ویسے آپ کے اس ادب "عالیہ" سے یاد آیا کہ کل میں صادق آباد سے لاہور آرہا تھا تو ایک بولان ڈبے کے پیچھے لکھا ہوا تھا۔ "آ تیرے جن کڈاں"۔اور ہم جو آتے جاتے بسوں اور رکشوں کے پیچھے کُندہ ادبِ "عالیہ" کے اقتباسات کا عمیق و دقیق مطالعہ کرتے ہیں؟ اُس کی بابت کیا رائے ہے پنچوں کی؟
جب بھی یہ سب بہت پڑھنے لکھنے کی باتیں ہو رہی ہوتیں تو عمار میاں ہمیں جنابِ پطرس بخاری صاحب کا میبل اور میں یا د آ جاتا ہے اگر کتابوں کے نام پڑھنا، فہرست پر ایک نظر ڈالنا اور جہاں تہاں سے ایک دو سطریں پڑھ لینا مطالعہ کتب کے زمرے میں آتا ہے تو میں نے اس سال اردو،ہندی،عربی اور فارسی کی کثیر کتابیں پڑھی ہیں
وائے حسرتا کہ ابھی چند منٹ پہلے میں پطرس ہی کا مضموں سینما سے عشق یاد کر رہا تھا۔۔۔ شان نزول اس کی یہ تھی کہ میرے گھر کے باہر ایک ہمسایہ اور اس کی بیگم گاڑی پارک کرتے ہیں۔ کچھ اس انداز سے کہ نہ تو گلی میں سے گزرنے کی راہ بچتی ہے۔ اور نہ ہی کسی اور گاڑی کے پارک ہونے کی جگہ بچتی ہے۔ جبکہ اس جگہ پر آرام سے دو سے تین گاڑیاں پارک ہو سکتی ہیں۔ کئی ایک بار میرا دل کرتا ہےکہ میں بھی آج اسی انداز میں گاڑی لگاؤں گا۔ سائیکل کی جگہ بھی نہ چھوڑوں گا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اسی پر ذیلی حصہ منطبق کر کے دیکھیے۔۔۔جب بھی یہ سب بہت پڑھنے لکھنے کی باتیں ہو رہی ہوتیں تو عمار میاں ہمیں جنابِ پطرس بخاری صاحب کا میبل اور میں یا د آ جاتا ہے
کہنے لگی۔ "نہیں تو"۔
میں نے کہا۔ "مثلاً ناول تو میں نے پڑھا ہی نہ تھا، کریکٹروں کے متعلق جو کچھ بک رہا تھا وہ سب من گھڑت تھا۔"
کہنے لگی۔ "کچھ ایسا غلط بھی نہ تھا۔"
میں نے کہا۔ "پلاٹ کے متعلق میں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ذرا ڈھیلا ہے۔ یہ بھی ٹھیک تھا؟"
کہنے لگی۔ "ہاں، پلاٹ کہیں کہیں ڈھیلا ضرور ہے۔"
اس کے بعد میری گزشتہ فریب کاری پر وہ اور میں دونوں ہنستے رہے۔ میبل رخصت ہونے لگی تو بولی۔ "تو وہ کتابیں میں لیتی جاؤں؟"
میں نے کہا۔ "ایک تائب انسان کو اپنی اصلاح کا موقع تو دو، میں نے ان کتابوں کو اب تک نہیں پڑھا لیکن اب انہیں پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ انہیں یہیں رہنے دو۔ تم تو انہیں پڑھ چکی ہو۔"
کہنے لگی۔ "ہاں میں تو پڑھ چکی ہوں۔ اچھا میں یہیں چھوڑ جاتی ہوں۔"
اس کے چلے جانے کے بعد میں نے ان کتابوں کو پہلی دفعہ کھولا، تینوں میں سے کسی کے ورق تک نہ کٹے تھے۔ میبل نے بھی انہیں ابھی تک نہ پڑھا تھا!
مجھے مرد اور عورت دونوں کی برابری میں کوئی شک باقی نہ رہا۔
اس کے بعد غصے میں آ کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قتل عمد، خودکشی، زہر خورانی وغیرہ معاملات پر غور کرنے لگتا ہے۔ دل میں، میں کہتا ہوں کہ ایسی کی تیسی اس فلم کی۔ سو سو قسمیں کھاتا ہوں کہ پھر کبھی نہ آؤں گا۔ اور اگر آیا بھی تو اس کم بخت مرزا سے ذکر تک نہ کروں گا۔ پانچ چھ گھنٹے پہلے سے آ جاؤں گا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اچھلتا رہوں گا! بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آؤں گا اور اپنے اوور کوٹ کو دو چھڑیوں پر پھیلا کر لٹکا دوں گا! بہرحال مرزا کے پاس تک نہیں پھٹکوں گا!
لیکن اس کم بخت دل کو کیا کروں۔ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ کر پاتا ہوں تو سب سے پہلے مرزا کے ہاں جاتا ہوں اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ کیوں بھئی اگلی جمعرات سے سینما چلو گے نا؟