میں ہر ایک کی عزت اور غیرت کو بحال کروانا چاہتا ہوں، ہر غریب کے چہرے پر مسرت کا چراغ جلتا دیکھنا چاہتا ہوں، ہر غریب کے منہ میں لقمہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہیں چاہتا کہ کوئی ماں اپنے بچے کی میت لے کے آئے کہ اسے علاج کے لیے پیسے میسر نہ تھے۔۔۔یہ پاکستان چند ہزار یا چند سو وڈیروں اور لٹیروں کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے نہیں بنایا تھا۔ یہ اٹھارہ کروڑ غریبوں کے لیے بنا تھا۔ ہم ان سے چھین کر پاکستان غریبوں کو دیں گے۔ اس لیے ۔ ۔۔۔۔یہ ایجنڈا اس لیے دے رہا ہوں کہ کسی نے کیا کہا تھا۔
حاکم شہر کی اس بند گلی کےپیچھے
آج ایک شخص کو خون اگلتے دیکھا
تم تو کہتے تھے کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
میں نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا
ہم اس معاشرے میں زندہ رہ رہے ہیں اب اس معاشرے کو بدلنا ہوگا۔
حاضرین محترم !ہم اس ملک میں (اب میرا Narrative سٹیٹمنٹ شروع ہو گیا ہے۔۔۔۔ اب Decision کا انتظار کریں اور گفتگو سنیں)ہم اس ملک میں آئینیت کی اور سیاسی (ستھرے سیاسی عمل) کی اورحقیقی جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس ملک میں عدلیہ کی آزادی اس کی خود مختاری اور عدالتی انصاف کی قوت اور اس کے آئینی کردار کی حمایت کرتے ہیں۔ اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ عدل و انصاف کے مضبوط اور اعلی اور وسیع نظام کے بغیر ریاست پرامن طریقے سے نہیں چل سکتی اور عوام کو ترقی بھی نہیں مل سکتی۔ جدید جمہوری دور میں عدلیہ کا نہایت اعلی ، مضبوط مستحکم اور آزاد ہونا ریاست کے بچاؤ کے لیے اشد ضروری ہے۔ اٹھارہ کروڑ عوام پاکستان کی عدلیہ کے ساتھ قانون کی حکمرانی اور عدل کی بالادستی کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان کی سلامتی کے لیے ، پاکستان کی بقا کے لیے ، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے، اس کی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کے لیے ، کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔پاکستان سے بڑی اس ملک میں کوئی اور شے نہیں ہے۔ اس ملک کی خاطر اس دھرتی کا بچہ بچہ اپنے خون کا آخری قطرہ بھی بہانے کے لیے تیار ہے۔ ہم پاکستان کو اس خطے کا اہم ترین ملک سمجھتے ہیں۔
ہمیں اپنے نظام کو درست کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے قومی کردار کو مثبت بنا کر مستقبل کی قومی ، علاقائی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بدا منی ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے پاک کرنا ہوگا اور جو لوگ انتہاء پسندی کی راہ پہ غلط فہمی کی وجہ سے چل نکلے ہیں (میں انہیں ایڈریس کر رہا ہوں) جو انتہاء پسندی کی راہ پر چل پڑے اور جنہوں نے گولہ بارود اٹھا لیا۔وہ میری اسی دھرتی کے بیٹے ہیں، ہمارے بھائی ہیں، میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں، کہ اگر اس ملک میں عدل اور انصاف کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں گا، اگر اس ملک میں ناانصافی کے خاتمے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر ا س ملک میں معاشرتی ، قومی، آئینی آزادیوں کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر اس ملک میں حقیقی اسلامی اقدار کی بحالی کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر اس ملک سے ڈرون حملوں کے خاتموں کی بات ہو گی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر غیر ملکی آقاؤں کی غلامی سے نجات پانے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔
مگر! ۔۔۔ نہتے ، معصوم ، بے گناہ انسانوں کی جان بچانے کی بات ہوگی تو تم میرے ساتھ ہوگے، مسجد وں، امام بارگاہوں کی حفاظت کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کو پر امن معاشرہ بنانے کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دوگے، اس ملک میں خیر ترقی و خوشحالی لانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کے غریبوں کے حقوق دلانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے، اس ملک کو غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے اور ان کے زنجیر سے آزادی دلانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو میں تمہارا ساتھ دوں گا۔
آؤ! ہم مل کر اس دھرتی کو دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے پاک کر دیں اور اس دھرتی کو ڈرون حملوں سے پاک کردیں۔ کہ کوئی طاقت ہمارے ملک کی سرحدوں میں داخلے کی جرأت نہ کر سکے، دنیا کی کوئی طاقت ہماری سرزمین میں مداخلت کا تصور نہ کرے،
یہ ملک بے حساب قدرتی اور افرادی وسائل سے مالا مال ہے۔ مگر اس کی معاشی بربادی کا سبب کرپشن ہے، نااہل لیڈر شپ ہے اور استحصالی کرپٹ الیکٹورل سسٹم ہے، کرپٹ انتخابی اور سیاسی نظام ہے ۔ ۔جسے ہم نے بدلنا ہے۔ اور بدل کر ان شاء اللہ ہم اس ملک کی اکانومی کو معیشت کو Claps (کولیپس) نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک کی Ability (ایبلٹی) اور صلاحیت کو ختم نہیں ہونے دیں گے اور ہم اس ملک کی آزادی کو اپنی ذاتی آزادی سمجھیں گے۔
یہ بھی واضح کردوں بعض لوگوں کو سیاست نہیں ریاست بچاؤ کے نعرے سے یہ بھی غلط فہمی ہوئی کہ شاید میری جدوجہد سیاست کے خاتمے کے لیے ہے ۔
نہیں ۔ میں سیاست پرBelieve کرتا ہوں۔ ریاست مدینہ کا قیام سیاست محمدی تھی۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ یہود اور مسلمانوں کو ملا کر مدینہ کا Constitution (کانسٹی ٹیوشن) تیار کرنا سیاست محمدی تھی۔ ۔خلافت راشدہ تاریخ اسلام کا سب سے عظیم سیاست کا دور تھا۔
میں ہر قسم کی آمریت کے خلاف ہوں، ہر قسم کی بادشاہت کے خلاف ہوں، فوجی ہو یا سیاسی، خاندانی ہو یا انتخابی، ہر غیر جمہوری آمرانہ طرز حکومت کو اسلام کے خلاف سمجھتا ہوں، ہر قسم کی ڈکٹیٹر شپ کو اور اتھاریٹیرینزم کو میں عقیدے کی بنیاد پر مسترد کرتا ہوں۔ میں اول تا آخر صاف ستھرے سیاسی عمل اور حقیقی جمہوریت اور جمہوری نظام کا قائل ہوں اسی کی بحالی کی جنگ لڑ رہا ہوں ۔
مگر جس سیاست کا میں قائل ہوں یہ وہ سیاست ہے کہ جو ان اصولوں پر قائم ہے۔ہم جس سیاست کو اس مقدس سرزمین پاکستان میں رواج دینا چاہتے ہیں وہ سیاست ان اصولوں پر قائم ہے کہ سیدنا صدیق اکبر کا دور خلافت تھا اور سیدنا فاروق اعظم اس دور کے چیف جسٹس تھے۔ ایک صحابی کو ایک غیر آباد زمین کا قطعہ الاٹ کیا گیا اور آقا علیہ السلام کا فرمان تھا۔ وہ مقررہ وقت میں زمین کو آباد نہ کر سکے۔ درخواست دائر کی گئی۔سیدنا فاروق اعظم چیف جسٹس کے کورٹ میں۔ تو سیدنا فاروق اعظم جو چیف جسٹس آف دی سٹیٹ تھے انہوں نے اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا۔ کہ مقررہ ٹائم فریم میں آبادی نہیں ہو سکی۔ (منسوخ کر دیا) وہ صحابی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خلیفہ وقت تھے، خلیفۃ الرسول ، ان کے پاس اپیل لے کر گئے۔ چیف جسٹس کے خلاف ۔خلیفۃ الرسول کے پاس اپیل لے کر گئے۔آپ نے فرمایا:لا اجدد شیئا ردہ عمرجس کیس کو چیف جسٹس نے رد کر دیا ہے خلیفہءِ وقت اس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں اس سیاست کا نظام ملک میں لانا چاہتا ہوں،
یہ سیاست چاہتا ہوں۔عہد فاروقی ہے۔ ایک جنگ کے نتیجے میں مال غنیمت میں چادریں آئیں۔ ہر ایک کو ایک چادر ملی۔ اس سے بڑا جبہ اور قمیص نہیں بن سکتا تھا۔ سیدنا فاروق اعظم نے مال غنیمت کی دو چادروں سے جبہ سلوایا۔ اجتماع میں آئے جیسے پارلیمنٹ کا اجتماع ، صحابہ کا اجتماع، عام صحابی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہیڈ آف دی سٹیٹ کا مواخذہ کیا، محاسبہ کیا، اور کہا کہ ہماری ایک چادر سے لمبا قمیص نہیں سلا آپ کا کس طرح سل گیا؟ سیدنا فاروق اعظم کے دفاع میں ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی چادر بھی اپنے بابا کو دے دی تھی۔۔۔میں اس سیاست پر مبنی۔۔۔ ان سیاسی اصولوں پر ہم پاکستان کے معاشرے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
سیدنا علی المرتضی امیرالمومنین ہیں۔ ان کی زرہ ایک یہودی نے چوری کر لی۔ بحیثیت ہیڈ آف دی سٹیٹ اس کو گرفتار کر کے اپنی زرہ اپنی آرمر واپس نہیں لی۔ عدالت میں گئے۔ قاضی شریح جج تھے۔ انہوں نے ایویڈنس مانگی ۔ ان کے پاس گواہی نہیں تھی۔ یا ایک روایت کے مطابق سیدنا حسن کی گواہی تھی۔ جج نے کہا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں۔ مولا علی شیر خدا کا کیس ریجیکٹ ہوگیا۔ یہودی کے حق میں عدالت نے فیصلہ دے دیا۔ جب یہودی باہر نکلا۔ اس نے کلمہ پڑھ کے اسلام قبول کیا اور کہا کہ میں اسلام کا نظام عدل دیکھنا چاہتا تھا۔ زرہ مولا علی آپ ہی کی ہے۔ لے لیں۔ فرمایا: نہیں۔ جو عدالت نے فیصلہ کر دیا۔ پلٹ کے واپس نہیں لوں گا۔ ۔۔۔میں اس ملک میں ان اصولوں پر مبنی نظام سیاست و حکومت دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ یہ فرق ہے ۔ فقط اتنا فرق ہے۔ اگر ہمارا نظام سیاست اور نظام انتخابات ان اصولوں پر قائم ہو جائے تو یہ سیاست ریاست کو بچا سکتی ہے ۔ ۔۔۔مگر جس لوٹ مار، کرپشن، اجارہ داری ، دھن دھونس اور دھاندلی کا نام ہم نے سیاست رکھ رکھا ہے۔ اس سیاست سے ریاست کو نہیں بچایا جا سکتا۔ ریاست کمزوری کے آخری مقام تک جا پہنچی ہے۔
اور میں یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں۔۔۔اور پوچھتا ہوں کہ :
کیا سیاست اس عمل کا نام ہے؟کہ اس ملک کے کروڑوں غریب بھوک، غربت اور افلاس کی آگ میں جلیں ۔ اور ان کے خاتمے کا کوئی ایجنڈا پانچ پانچ سال تک سیاسی حکومتیں پارلیمنٹ میں بیٹھیں مگر ان کی غربت اور افلاس کے خاتمے کا ایجنڈا تیار نہ کرسکیں۔کیا یہ سیاست ہے ؟
کیا یہ سیاست ہے کہ خود تو سیاسی لیڈر سینکڑوں کنال پر مشتمل گھروں اور محلات میں رہیں اور اربوں کھربوں روپے ان کے ڈیلی محلات کے خرچےہوں اور کروڑوں غریبوں کو اس ملک میں کھانے کے لیے لقمہ نہ ملے۔، تن ڈھانپنے کے لیے لباس نہ ملے، اور سر چھپانے کے لیے گھر نہ ملے۔ کیا اس کا نام سیاست ہے؟ میں اس کو مسترد کرتا ہوں۔ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں کہ جس میں ملک پاکستان کی ترقی و استحکام کا کوئی منصوبہ ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جس میں ملک کی سالمیت آزادی اور خود مختاری کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ۵ سال تک پارلیمنٹ میں کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں ۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جو پاکستان کا حق ، شاہ رگ کراچی جو امن کا گہوارہ تھا ۔ جہاں ہر روز لاشیں گر رہی ہیں۔ مگر اس شہر کو امن کوئی نہ دے سکے۔ ہم اس سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم ا س سیاست کو نہیں مانتے جس میں قتل و غارت گری ہو، جس میں اغوا ہو ڈکیتی ہو دہشت گردی ہو اورلوگ خود تاوان دے کر اغوا کاروں سے چھوٹ کر آئیں۔ اور انہیں ملک میں کوئی تحفظ دینے والا نہ ہو۔ ہم اس سیاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جس میں کروڑوں لوگوں کو پانی ، بجلی، اور سوئی گیس کی فراہمی کا بندوبست نہ کیا جا سکے۔ ہم ا س سیاست کو نہیں مانتے۔۔۔ جس میں بھوک کے مارے ہوئے لوگوں کو خود کشیوں اور تن سوزیوں سے روکنے کی گنجاءش نہ ہو۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جس میں لوگ اپنی بیٹیوں کی عزت بیچ کر کھانا حرام کا کھا رہے ہوں۔ یہ سیاست وہ کھیل ہے جو اٹھارہ کروڑ عوام کی غربت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
اور میں بھی ایک سیاست کو بچانا چاہتا ہوں اس سیاست کو جو ریاست کو بچاتی ہے۔ اور وہ سیاست قائد اعظم کی سیاست ہے۔جو اتحاد کی سیاست ہے ، جو یقین کی سیاست ہے ، جو تنظیم کی سیاست ہے، جو محبت کی سیاست ہے، جو اخوت کی سیاست ہے، جو وحدت کی سیاست ہے
میں اس سیاست کو بچانا چاہتا ہوں۔ جو ملک سے نفرتوں کو ختم کر دے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بجائے ملک کو ایک اکائی بنا کر رکھ دے۔ ہمیں ضرورت ہے اس وقت کہ ہم اصل مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
میرا ایجنڈا پاکستان سے انتخابات کو ختم کروانا نہیں ۔ کسی کو یہ مغالطہ ہے تو وہ خدا کے لیے نکال دے ۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔۔۔۔میرا ایجنڈا انتخابات ختم کروانا نہیں انتخابات کو درست کروانا ہے۔ نظام انتخاب میں اصلاح کروانا ہے۔ تاکہ وہ انتخابات اس ملک کو صحیح قیادت دے سکیں۔ وہ انتخابات لانا ہے جس میں پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ پارٹیاں ٹکٹ نہ بیچ سکیں میں ان پارٹیوں کے ہاتھ کاٹنا چاہتا ہوں جو پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ ٹکٹ دیں ۔
میں دیکھوں گا! جب عوام کھڑے ہوں گے۔ تو کون سی پارٹی پانچ دس کروڑ کے ساتھ نمائندوں کو ٹکٹ بیچ کر دیتی ہے؟ یہ قوم ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالے گی۔
اس نظام سیاست میں اور نظام انتخاب میں آئینیت اور دستوریت کا فقدان ہو چکا ہے۔ اس کو بحال کرانا چاہتا ہوں۔ کانسٹی ٹیوشنیلٹی نہیں رہی۔ لاء کی انفورسمنٹ نہیں رہی۔ ہم اس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ اس ملک سے رول آف لاء ختم ہو گیا ہے ہم اس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں کا نفاذ ختم ہو گیا ہے ہم اس کی بحالی آئین کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔ اس ملک کا طرز حکمرانی کرپشن پر مبنی ہو گیا ہے گورنمنٹ مایوس کن حد تک معطل ہے۔ ہم اسے گڈ گورنمنٹس میں بدلنا چاہتے ہیں۔ ہماری معیشت پگھل رہی ہے۔ سٹیٹ آف اکنامک میلٹ ڈاون تک چلی گئی ہے۔ ہم معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہیں ہر سطح سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا اس ملک میں کوئی تھانیدار اور کانسٹیبل اس ملک کے غریب سے پیسے مانگے۔ میں پولیس کی تنخواہوں کو دو گنا اور چار گنا بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہتا ہوں کہ غریب کا کام رشوت کے بغیر ہوا کرے۔ میں اس ملک کے لاء اینڈ آرڈر کو بحال دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہم نہ صرف خود غیرمحفوظ ہو گئے بلکہ ہم دہشت گردی کے ایکسپوٹر بن گئے۔ دنیا کو ہم سے تھریٹ ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ انڈونیشیا کے پالی بمبر ، پالی بمبر وہ بھی پاکستان سے پکڑا جاتا ہے ۔ انتہاء ہے۔ چار دن پہلے پشاور ایئر بیس پر حملہ کرنے والے غیر ملکی نظر آتے ہیں ٹیٹوز بنے ہوئے ہیں۔ اور آپ کیا سمجھتے ہیں جو کھیل کراچی میں کھیلا جا رہا ہے اس میں غیر ملکی ہاتھ نہیں ہیں؟ جو اس ملک کو توڑنا چاہتے ہیں
میرا سوال ہے اس ملک کی سیاسی جماعتوں اور عدالتوں سے اور افواج پاکستان سے اورپارلیمنٹ سے اور میڈیا سے اور اٹھارہ کروڑ عوام سے ۔
اگر حکومتیں منتخب ہو کراپنے ملک کی عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ نہیں دے سکتیں، اگر اپنے ملک کے شہروں کاامن بحال نہیں کر سکتیں، لوگوں کو اغوا ہونے سے نہیں بچا سکتیں۔ انہیں روٹی ، کپڑا ، مکان، علاج، صحت ، تعلیم، روزگار ، مہیا نہیں۔ لاء اینڈ آرڈر مینٹین نہیں کر سکتیں۔ تو یہ حکومتیں اور یہ نظام غیر آئینی بھی ہے، غیر قانونی بھی ہے، غیر اخلاقی بھی ہے۔ ہم ایسے نظام کو ہرگز قبول کرنے کو تیا رنہیں۔
خیبر پختون خواہ وہ خطہ جس کا امن دنیا میں مثالی امن تھا اس کے بالائی سرحدی علاقوں پر حکومت پاکستان کی رٹ ختم ہو چکی ہے۔ کیا جواز ہے آپ کا ، کونسٹی ٹیوشنل اتھارٹی ہے کہ کہو کہ ہماری حکومت آئینی حکومت ہے ۔ بلوچستان کے حالات کو سنبھالنے اور سنوارنے میں حکومت ناکام ہو چکی ہے۔
بیرونی عناصر ۔۔۔۔خود کہہ رہے ہیں ۔ ۔۔ خود کہہ رہے ہیں کہ
بیرونی عناصر خون کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آپ کے اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
اور ایسا بیرونی عناصر کیوں نہیں آئیں گے۔ جب ریاست اندر سے کمزور ہو جائے تو باہر سے دشمن تو مداخلت کرے گا ہی نا۔ دشمن ہماری حفاظت تونہیں کرے گا۔
ہمیں فارن انٹر فیئرنس کا شکوہ کیا ہے؟ ہم کمزور ہیں تو دشمن آئے گا اگر ہم اندر سے طاقت ور ہیں تو کسی کو مداخلت کی جرأت نہیں۔ ایک وقت تھا پوری امت مسلمہ کی واحد نیوکلیر پاور ہم ہیں۔ اس ناتے ہم دنیائے اسلام کا فخر تھے۔پرائڈ آف دا مسلم ورڈ تھے۔ مگر اب اپنوں پرایوں سب کے ہاں ہم Laughing Stock بن گئے ہیں، ہر جگہ ہم اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں۔ دنیا ہمیں کرپٹ اور فیلنگ سٹیٹ کے طور پر دیکھتی ہے۔ ہماری طرز حکمرانی ناکام ہے ، ہماری سیاست ناکام، معیشت ناکام، ملکی استحکام کمزور، تعلیم پسماندہ ، صحت ناکام، سالمیت خطرے میں ، آزادی خطرے میں ، خود مختاری خطرے میں ، عوام کی اخلاقی سماجی حالت تباہ کن ، نظام کے اندر شفافیت، ٹرانسپیرنسی ختم، میرٹ کا نظام ختم ، کسی غریب کے بچے کو ایم بی اے کر لے یا انجینئرنگ اسے رشوت کے بغیر جاب نہیں ملتا۔ انسانی حقوق ختم، امن و سلامتی ختم، لوگوں کی بنیادی ضروریات ختم، جان مال کی حفاظت ختم، مستقبل ہمارا ختم، علم و ہنر مندی کا مستقبل ختم۔۔۔۔۔مجھے بتائیے ایک شعبہ گن کر جس کا پہلو، قابل تعریف ہو حوصلہ افزا ہو ، روبہ ترقی ہو جس میں روشنی کی کرن نظر آئے، عوام مطمئن ہو ہمارا اپنا ضمیر مطمئن ہو۔ ہم ٹوٹلی ، Collapse ہو رہے ہیں۔ سسٹمCollapse ہو چکا ہے۔