23 دسمبر، مینار پاکستان ،سیاست نہیں ریاست بچاؤ اور علامہ طاہرالقادری

یعنی الطاف ، ڈاکٹر عبدلقدیر خان، اور حسن نثار نے قادری کی حمایت کی ہے
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہ حسن نثار تو ایک صحافی ہے اور عبدلقدیر خان ایک سائنس دان۔ ان دونوں کی سیاسی حمایت فی الحال میٹریلائزڈ نہیں ہے۔
الطاف کی حمایت کچھ قابل غور ہے۔ الطاف میرے نزدیک پاکستانی فوج کے اشارے پر چلتا ہے۔

مہربانی ہوگی ۔ مجھے ایک سوال کا جوب مل جائے تو
یہ ریاست بچائے گا کیسے؟ بغیر سیاست کے؟
قادری کا یہاں انا اور جلسہ کرنا کیا سیاست سے پرے کوئی چیزہے؟
 

حسن نظامی

لائبریرین
12-19-2012_130360_1.gif


راجہ گھوش اور گنگو تیلی کیا ایک ہیں؟
حسن نظامی
بے چارے گنگو تیلی ! راجوں کے خاندان میں دخل بے جا کی کوشش کر رہے ہیں۔ آخر کو انہوں نے اپنی ساکھ بھی تو بنانی ہے۔
 
ایک بات پڑھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی کہ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ”پاکستان کو بچانےاور ملک سے فرسودہ جاگیردارانہ نظا م کے خاتمے کے لیے ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں“
اگر ان کے اور ایم کیو ایم کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں تو پھر تو مقصد بھی ایک ہی ہوا ناعوام کو بےوقوف بنانا۔ ایم کیو ایم جاگیردوروں کے پہلو بہ پہلو اقتدار میں ہمیشہ شریک رہی اور زبان پر فیض و جالب کی غزلیں رہیں کچھ یہی حال علامہ و ڈاکٹر کا بھی لگتا ہے۔ عرصہ دارز سے کینڈا میں مقیم ایک عابد زاہد پارسا کو اسی وقت پاکستان کا کیوں خیال آیا جبکہ الیکشن سر پر ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کو عوام میں بھر پور پذیرائی مل چکی ہے اور اس تحریک کی صورت میں لوگوں کے پاس ایک بہتر متبادل کے طور پر موجود ہے؟

اور ہاں ایک بات اور ڈاکٹر صاحب موجودہ نظام کی بے تحاشہ خرابیاں گنواتے ہیں اور بجا گنواتے ہیں کہ یہ نظام پراز خرابی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب یہاں آ کر یہ نظام بدلیں گے کیسے ،ان کا پروگرام کیا ہے۔ جن اصلاحات کی وہ بات کرتے ہیں اس پر عمل درامد کا روڈ میپ کیا ہے؟ یقین جانیئے ان کی متعدد ویڈیوز اور انٹرویوز دیکھ کر اور کتابیں پڑھ بھی اس بات کا کوئی شافی جواب نہیں ملا۔ منہاج کے کچھ ممبران میرے واقف کار ہیں وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی طرح اس نظام کی خرابیاں بہت بتاتے ہیں لیکن عملی روڈ میپ کی ان کو ہوا بھی نہیں نہ ہی اتنا ہی پتہ ہے کہ ۲۳ کے جلسہ عام کے بعد ہونے کیا جارہا ہے؟ لگتا ایسا ہے ڈاکٹر صاحب بھی یہاں کی اپنی پزیرائی دیکھ کر ہی کوئی مستقبل کا فیصلہ کریں گے لیکن جس طرح بے تحاشہ اس مہم پر پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اشتہارات پر اشتہارات ٹی وی پر چل رہے ہیں اور اب ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کے ساتھ دست تعاون دراز کیا جارہا ہے، اس سے کوئی زیادہ خیر کی امید نہیں۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
ایک بات پڑھ کر بے ساختہ ہنسی آگئی کہ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ”پاکستان کو بچانےاور ملک سے فرسودہ جاگیردارانہ نظا م کے خاتمے کے لیے ایم کیو ایم اور پاکستان عوامی تحریک کے پروگرام میں کوئی فرق نہیں“
یہ خبر ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر تو موجود ہے مگر ابھی تک منہاج القرآن کی آفیشل ویب پر ایسی کوئی اطلاع دیکھنے میں نہیں آرہی۔
ڈاکٹر صاحب نے ایسا کہا ہے یا نہیں ؟
 
یہ خبر ایم کیو ایم کی ویب سائٹ پر تو موجود ہے مگر ابھی تک منہاج القرآن کی آفیشل ویب پر ایسی کوئی اطلاع دیکھنے میں نہیں آرہی۔
ڈاکٹر صاحب نے ایسا کہا ہے یا نہیں ؟
اللہ کرے کہ ایسا نہ کہا ہو لیکن اگر نہیں کہا تو میڈیا میں شائع شدہ اس خبر کی تردید میں دیر بھی نہیں ہونا چاہیے۔
 
فی الحال یہ مطالعہ کیجیے اور پھر 23 دسمبر کو ان کی تقریر سنیے ، امید ہے کہ جواب مل جائے گا۔

"اس کتاب میں تو کچھ واضح نہیں ہے۔ د۔ قادری فرماتے ہیں نہ وہ فوج کی حمایت کرتے ہیں نہ تشدد پسند انقلاب کی۔ وہ انتخابات کے بھی مخالف ہیں اور جہموریت کے بھی
وہ فرماتے ہیں " حالانکہ الیکشن کیا ہے؟دراصل یہ پانچ سال کے بعد پھر سے اس قوم کو بے وقوف بنانے کا عمل ہے۔ انہیں اس بات کا علم ہے کہ مروجہ باطل سیاسی نظام انتخاب کے ہوتے ہوئے کسی میں ان کو مسترد کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ تبھی تو دس دس مرتبہ منتخب ہوکر تیس تیس سال سے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں"

اس کے بعد وہ فرماتے ہیں "اے اہلیان پاکستان!جب تک یہ شعور بیدار نہیں ہوگا، ہمیں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوگی، یہ سب کچھ لاحاصل ہے"
پھر وہ ایک باب لکھتے ہیں کہ لوگ برائی پر مائل ہیں یا یہ کہ برا وقت امت پر ائے گا اس سے پہلے ہی کچھ کر لیں-
پھر وہ اصلاح کا ایک طریقہ بتاتے ہیں کہ پوری قو م انتخاب کے خلاف سڑکوں پر اجائے جیسے بہار عرب میں مصر، تیونس میں ائے۔ سپریم کورٹ ایک حکم جاری کرے گی اور قوی اتفاق رائے سے ایک غیر سیاسی غیر فوجی حکومت تشکیل دی جائے گی۔ جس میں اعلیٰ کردار کی بے داغ سیاسی شخصیات یا عدلیہ کے ایماندار ریٹائرڈ جج، فوجی، سماجی حلقوں کے صالح، اور اعلیٰ صلاحیتوں کےحامل اشخاص اور مذہبی حلقوں سے خوف خدا رکھنے والے مصلحین شامل ہوں جو مل بیٹھ کر ائین کے تابع ایک نیا سوشل کونٹریکٹ وضع کریں۔۔"

یہ طریقہ بتایا ہے د۔قادری نے۔

میرا اپنے خیال میں اس ائیڈیا میں بہت خامی ہیں اور بہت خوش فہمیاں ہے اور تمام تر ذمہ داری سپریم کورٹ پر ہے۔ اسپر میں مزید تنقید کروں گا اپنی اگلی پوسٹ میں۔ دوسرون کو بھی دعوت تنقید ہے
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
ایم کیو ایم کی حمایت سے ڈاکٹر صاحب کو فائدہ کم ہو گا اور نقصان بہت زیادہ ۔۔۔ !!!
 

قیصرانی

لائبریرین
عطاء الحق قاسمی نے مزے کا کالم لکھا ہے اور ڈھکے چھپے الفاظ میں گہری چوٹیں کی ہیں۔ میں اس سے نہ تو پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور نہ ہی پوری طرح انکار۔ تاہم یہ مزاح نگاری اور طنز کی یہ ایک عمدہ مثال ہے


 
ش

شہزاد احمد

مہمان
کامیاب وہی ہو گا پاکستان میں ۔۔۔ جس کی فریکونسی پاکستانی عوام کی فریکونسی سے "میچ" کرتی ہو گی ۔۔۔ چونکہ عمران خان صاحب اور طاہرالقادری صاحب کی باتیں عوام الناس کی "سمجھ" میں آنا مشکل ہیں اس لیے ہمارے خیال میں عملی میدان میں ان دونوں کا کامیاب ہو جانا ایک معجزے سے کم نہ ہو گا ۔۔۔ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور علامہ صاحب تو دینی علوم سے بھی آشنا ہیں لیکن ہمارے عوام کا مزاج ایسا ہے کہ یہ دونوں "مِس فٹ" کی کیٹیگری میں آتے ہیں ۔۔۔ عمران خان صاحب اگر اصولوں پر سمجھوتہ کر کے بھی کامیاب نہیں ہو سکے تو آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ طاہر القادری صاحب کیسے بہت بڑی تبدیلی لائیں گے ۔۔۔ وہ درست سمت کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور ان کی صلاحیتوں سے بھی انکار ممکن نہیں ۔۔۔ اُ ن کی علمی قابلیت کے بھی ہم معترف ہیں لیکن سیاسی حرکیات اور زمینی حقائق کا ادراک رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بہت بڑی تبدیلی کے امکانات فی الحال موجود نہیں ہیں ۔۔۔ عام انتخابات ہی وہ واحد رستہ ہے جس کے ذریعے ہم کسی حد تک ایک متوازن قیادت کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔۔۔ اور یہی ہمارے بس میں ہے ۔۔۔ وگرنہ اب "عزیز ہم وطنو" کا بھی وقت گزر چکا ہے ۔۔۔ اور پھر ہمارے عوام کا مجموعی مزاج بھی ایسا ہے کہ مذہبی اجتماعات میں تو چلے جاتے ہیں لیکن سیاسی میدان میں مذہبی شخصیات کو زیادہ تر سپورٹ نہیں کرتے ۔۔۔ ہمارے خیال میں قادری صاحب کا جلسہ تو کامیاب ہو جائے گا لیکن جیسے ہی اگلے برس کا سورج طلوع ہو گا ۔۔۔ سیاسی جماعتیں "متحرک" ہو جائیں گی اور "ریاست بچاؤ" کا نعرہ سیاسی گرد کی لپیٹ میں آ جائے گا ۔۔۔ ہمارے دل میں جو تھا، کہہ دیا ۔۔۔ کسی کو برا لگے تو بہت معذرت ۔۔۔
 

باباجی

محفلین
میں اس پورے دھاگے میں یہی دیکھ رہا تھا کہ ہم میں کسی بات کتنا اتفاق رائے ہے
اور مجھے یہ دھاگہ پڑھ کر سمجھ آگیا کہ اس قوم پر یہ زوال کیوں ہے
ہر کسی نے اپنے اپنے بُت کی حمایت کرنی ہے
اور تمام بُتاَنِ سیاست اپنے اپنے پوجنے والوں سے کھیل رہے ہیں :ROFLMAO:
یہ نا اتفاقی ہے ہی سیاست کی پیداوار
اتفاق صرف ایک بات پر ہوا تھا "پاکستان" کی حمایت میں
اس کے بعد سے آج تک 65 سال گزرگئے نا اتفاقی نہیں گئی
 

قیصرانی

لائبریرین
میں اس پورے دھاگے میں یہی دیکھ رہا تھا کہ ہم میں کسی بات کتنا اتفاق رائے ہے
اور مجھے یہ دھاگہ پڑھ کر سمجھ آگیا کہ اس قوم پر یہ زوال کیوں ہے
ہر کسی نے اپنے اپنے بُت کی حمایت کرنی ہے
اور تمام بُتاَنِ سیاست اپنے اپنے پوجنے والوں سے کھیل رہے ہیں :ROFLMAO:
یہ نا اتفاقی ہے ہی سیاست کی پیداوار
اتفاق صرف ایک بات پر ہوا تھا "پاکستان" کی حمایت میں
اس کے بعد سے آج تک 65 سال گزرگئے نا اتفاقی نہیں گئی
بالالفاظ دیگر، اتفاق اسی بات پر ہوا ہے کہ کسی بات پر اتفاق سے بھی اتفاق نہیں کرنا :(
 
عطاء الحق قاسمی نے مزے کا کالم لکھا ہے اور ڈھکے چھپے الفاظ میں گہری چوٹیں کی ہیں۔ میں اس سے نہ تو پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور نہ ہی پوری طرح انکار۔ تاہم یہ مزاح نگاری اور طنز کی یہ ایک عمدہ مثال ہے
قیصرانی بھیا بھی اپنا دامن بچاتے بڑے ماہرانہ انداز میں نکل گئے۔(y)۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھیا بھی اپنا دامن بچاتے بڑے ماہرانہ انداز میں نکل گئے۔(y)۔​
میرا مقصود صرف اتنا ہے کہ پاکستان کو بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ چاہے اسے بچانے کے لئے سب سے پہلے مجھ پر یا میرے گھر والوں پر ہی نشتر کیوں نہ چلے۔ ہم میں سے وہ لوگ جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں، ہم پھر بھی دل سے پاکستانی ہی ہیں اور ہماری بنیادی شناخت بھی یہی ہمارا وطن پاکستان ہی ہے
 
باباجی ڈاکٹر صاحب نے ایک آواز اٹھائی ہے۔ جس میں ملک کے انتخابی نظام پر بالخصوص تنقید کی ہے۔یہ تنقید بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ یہاں پیسے اور غنڈہ گردی کے بغیر الیکشن جیتنا ممکن نہیں۔
اب اس نظام کو کیسے تبدیل کیا جائے اور اس کی تبدیلی کی عملی صورت کیا ہو گی اس بارے تو 23 دسمبر کو ہی مکمل لائحہ عمل واضح ہو گا۔
اگر ان کی باتیں قابل عمل نہ ہوئیں تو بالکل بھی ان پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس بات کے تو کہنے کی بھی نوبت نہیں آئے گی۔
 

باباجی

محفلین
باباجی ڈاکٹر صاحب نے ایک آواز اٹھائی ہے۔ جس میں ملک کے انتخابی نظام پر بالخصوص تنقید کی ہے۔یہ تنقید بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ یہاں پیسے اور غنڈہ گردی کے بغیر الیکشن جیتنا ممکن نہیں۔
اب اس نظام کو کیسے تبدیل کیا جائے اور اس کی تبدیلی کی عملی صورت کیا ہو گی اس بارے تو 23 دسمبر کو ہی مکمل لائحہ عمل واضح ہو گا۔
اگر ان کی باتیں قابل عمل نہ ہوئیں تو بالکل بھی ان پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس بات کے تو کہنے کی بھی نوبت نہیں آئے گی۔
میں آپ کی بات سے بالکل متفق ہوں بھائی
پہلے سننا چاہیئے کہ ڈاکٹر صاحب کیا کہتے ہیں
اور عمل کرنا یا نا کرنا ہماری اپنی مرضی ہے
 

حسان خان

لائبریرین
میرا مقصود صرف اتنا ہے کہ پاکستان کو بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ چاہے اسے بچانے کے لئے سب سے پہلے مجھ پر یا میرے گھر والوں پر ہی نشتر کیوں نہ چلے۔ ہم میں سے وہ لوگ جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں، ہم پھر بھی دل سے پاکستانی ہی ہیں اور ہماری بنیادی شناخت بھی یہی ہمارا وطن پاکستان ہی ہے

ہمیشہ سلامت رہیے بھائی جان۔ :notworthy::notworthy: :notworthy:
 

سویدا

محفلین
عطاء الحق قاسمی نے مزے کا کالم لکھا ہے اور ڈھکے چھپے الفاظ میں گہری چوٹیں کی ہیں۔ میں اس سے نہ تو پوری طرح اتفاق کرتا ہوں اور نہ ہی پوری طرح انکار۔ تاہم یہ مزاح نگاری اور طنز کی یہ ایک عمدہ مثال ہے


آج صبح سویرے یہ کالم پڑھا ناشتے اور چائے کا لطف دوبالا ہوگیا
مدح مشابہ بالذم کی عمدہ ترین مثال
ایک ایک لفظ اور مکمل تعبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موجودہ کالم نگاروں میں اس اسلوب میں عطاء الحق کا کوئی ثانی نہیں
 
Top