40 چہل احدیث

باذوق

محفلین
باذوق صاحب ، آپ سے میں‌نے کبھی سوال نہیں‌کیا، آپ صرف ان آیات پر ناراض ہوتے رہتے ہیں جو یہاں‌ پیش کی جاتی ہیں۔
آپ سے ادباً عرض ہے کہ آپ کی طرح میں بھی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوں۔ لہذا مناسب ہے کہ آپ ذرا الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا کریں۔
کوئی بھی مسلمان آیاتِ ربانی پر "ناراض" نہیں ہوتا !!
آپ کے بن باز کے خط پر اعتراض‌ کا جواب آپ کو جلد مل جائے گا۔
یہ ضرور یاد رکھئے کہ ، وہ اعتراض ذاتی طور پر میں نے نہیں کیا ہے۔ 2 معروف علماء کی حال میں منظر عام پر آئیں کتب سے اقتباس لیا ہے۔ اور تمام حوالہ جات بذات خود چیک کیے اور درست پائے ہیں۔
اب آپ کا جو جواب ملے گا (بشرطیکہ علمی ہو) ان شاءاللہ وہ مذکورہ علماء تک بھی ضرور پہنچایا جائے گا۔
1۔ بقول آپ کے قرآن روایات کی کسوٹی نہیں ہے اور روایات کو قرآن سے پرکھنا ضروری نہیں‌اور یہ کہ روایات قرآن کے مخالف بھی ہوسکتی ہیں؟
آپ ایسا کیوں‌ سمجھتے ہیں ؟ وضاحت فرمائیے۔
میں کئی بار دہرا چکا ہوں کہ : یہ نہ میرا ذاتی خیال ہے اور نہ ہی میری اپنی تحقیق ہے۔
میں نے چار مختلف مکاتبِ فکر کی مشہور دینی و علمی شخصیات کی کتب کے آن لائن ربط یہاں دے رکھے ہیں جن میں آپ کے ان سارے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔
2۔ نماز پڑھنے کے طریقہ کی حدیث کا ریفرنس فراہم کردیجئے۔
اس کا جواب میں یہاں دے چکا ہوں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ صرف ایک حدیث پیش کروں جس میں نماز کا مکمل طریقہ اول تا آخر درج ہو ۔۔۔ تو ادب کے ساتھ عرض ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نہ تو دو جمع دو چار کا کھیل ہے اور نہ ہی کسی ایف۔بی۔آئی کا ڈاٹا بیس ہے کہ بس ایک کلک پر آپ کو اول تا آخر درکار مواد حاصل ہو جائے !
3- قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی تعریف اللہ تعالی نے یہ فرمائی ہے
[ayah]2:2[/ayah] [arabic]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ [/arabic]
(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے
اس کا جواب بھی کئی بار دیا جا چکا ہے۔ آپ براہ مہربانی کچھ وقت نکال کر پہلے وہ چاروں کتب بلا کسی ذہنی تحفظ کے ، مطالعہ فرمائیں۔
آپ ان تمام کتب کا نام بتا دیجئے جو آج کی تاریخ‌ سے پہلے چھپی ہوں اور جن میں‌یہ دعوی شامل ہو اور قرآن ان کتب کو ماننے کے لئے کہتا بھی ہو۔ جب آپ کے پاس ایسی کسی کتاب کا نام ہو تو پھر ہم اس کتاب کے بارے میں‌ مزید بات کریں گے۔
میں اوپر لنک دے چکا ہوں چار کتابوں کا۔
۔۔۔۔۔۔ آپ سے استتدعا ہے کہ قرآن کی آیات پر اس وقت تک کسی بے معنی اعتراض‌ سے گریز فرمائیے کہ آپ توہین قرآن کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
ایک بار پھر یاد دلاؤں گا کہ ۔۔۔۔
آپ کی طرح میں بھی ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہوں۔ لہذا مناسب ہے کہ آپ ذرا الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا کریں۔
کوئی بھی مسلمان آیاتِ ربانی پر "معترض" نہیں ہوتا !!
اعتراض تو آیت کی خودساختہ تاویل / تشریح / تفسیر پر کیا جاتا ہے !
 

شمشاد

لائبریرین
فاروق صاحب ! یقین جانیئے ایک آپ اور ایک وہ دونوں سردرد بنے ہوئے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔

محترم آپ سے درخواست ہی کر سکتا ہوں کہ اگر آپ بھی اس بحث میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو مناسب الفاظ استعمال کریں۔ اور اگر یہ آپ کو درد سر لگتا ہے تو کس نے کہا ہے کہ آپ اس معاملے میں ٹانگ اڑائیں؟
 

قسیم حیدر

محفلین
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حدیث بیان کرتے وقت اس کا حوالہ دینا چاہیے۔ کسی حدیث کا محض مشہور ہونا اس کی صح۔ت کی دلیل نہیں ہوا کرتا۔ بہت سی ایسی باتیں رسول اللہ‌ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہیں جن کا کوئی ثبوت کتب احادیث میں نہیں ملتا۔
فارسی کا مشہور مقولہ ہے کہ بنیاد ٹیڑھی ہو تو ثریا تک تعمیر کی جانے والی دیوار بھی درست نہیں رہ سکتی۔ فاروق صاحب کی ساری غلط فہمیوں کا سبب یہ ہے کہ وہ محدثین کی ان تمام مساعی کو شک کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں جو انہوں نے احادیث رسول اکٹھا کرنے اور ان کی حفاظت کے لیے سرانجام دیں۔ اس موضوع پر میری ان سے بڑی طویل گفتگو ہوئی تھی جو یہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہاں بحث برائے بحث اور میں نہ مانوں کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں ارادتا فضول بحثوں سے دور ہی رہا ہوں جن کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ لیکن آج رہا نہیں گیا۔ مسلمانوں کے اسلام کی آخری علامت شاید یہ ختنہ ہی باقی ہے دوسری چیزوں کو تو وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر پہلے ہی خیر آباد کہہ چکے ہیں۔ مغرب کے زیر سایہ پرورش پانے والے جدید مفکرین و متجددین کو یہ بھی گوارا نہیں ہے۔
جب تک حدیث کے بارے میں شکوک دور نہ ہوں باقی باتیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں۔ سابقہ مراسلات کا انتخاب پیش خدمت ہے۔ میرا مقصد دوبارہ اس بحث کو چھیڑنا نہیں ہے۔ بس قارئین کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
حجیت حدیث پر سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کے مضمون سے اقتباسات
جن اصولِ ثلاثہ پر تمام امت کا اجماع ہے، ان میں سے دوسرا اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔ چنانچہ حضرات صحابہ اور ان کے بعد کے تمام اہل علم و ایمان اس اصل پر ایمان رکھتے ہیں، اسے دین میں حجت گردانتے ہیں، امت کو اس کی تعلیم دیتے ہیں، اس موضوع پر انہوں نے بہت سے کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، کتب اصول فقہ و اصول حدیث میں بھی اسے واضح فرمایا گیا ہے اور اس سلسلہ کے دلائل بہت ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ خود کتاب اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم جیسا ان کے ہم عصر لوگوں کے لیے تھا، اسی طرح بعد میں آنے والے لوگوں کےلیے بھی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں۔ ان کی بعثت سے لے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ ان کی اتباع و اطاعت بجا لائیں اور پھر یہ اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کتاب اللہ کے مفسر ہیں۔ کتاب اللہ میں جو باتیں اجمال کے ساتھ بیان کی گئی تھیں، انہوں نے اپنے اقوال، افعال اور تقریرات کے ذریعے ان کی تفصیل بیان فرما دی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت نہ ہوتی تو مسلمانوں کو ہرگز معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ نمازوں کی تعداد کیا ہے؟ نمازوں کو کس طرح ادا کرنا ہے، نماز کے فرائض و واجبات کیا ہیں؟ اسی طرح انہیں روزہ، زکٰوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، معاملات، محرمات اور حدود و تعزیرات کے احکام کی تفصیل بھی معلوم نہیں ہو سکتی تھی۔ اتباع و اطاعت رسول کے متعلق جو آیاتِ کریمہ ہیں ان میں سے چند ایک حسبِ ذیل ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً (النساء۔59)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہیں، اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو جائے تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔"
مزید فرمایا:
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (النساء۔84)
"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو نافرمانی کرے گا تو (اے نبی ) ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔"
اگر سنت حجت نہیں یا تمام سنت محفوظ نہیں تو پھر اطاعت کیسے ممکن ہے؟ اور تنازعات کے تصفیہ کے لیے کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف رجوع کرنا کیسے ممکن ہے؟ سنت یا حدیث کو حجت تسلیم نہ کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے حالانکہ ایسا خیال کرنا بے حد باطل اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت بڑا کفر اور بدگمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں فرمایا ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُون (النحل۔44)
"اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب نازل کی ہے تا کہ جو (ارشادات) لوگوں کی طرف نازل کیے گئے ہیں آپ انہیں کھول کھول کر بیان کر دیں تا کہ وہ غور کریں"
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے (سنت یا حدیث) کا وجود ہی نہیں رہا یا وہ حجت نہیں ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی تشریح اور تبیین کا کام ان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپرد فرمائیں۔
اسی طرح سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (النور۔ 54)
"کہہ دیجیے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کے حکم پر چلو، اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو تمہارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پا لو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (اللہ کے احکام ) پہنچا دینا ہے۔"
یہ آیات واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ ہدایت اور رحمت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع میں مضمر ہے، اور سنت پر عمل کے بغیر آپ کی اتباع و اطاعت کیسے ممکن ہے؟ یا اگر یہ کہا جائے کہ سنت یا حدیث قابل اعتبار نہیں تو اس صورت میں بھی سنت کی اتباع کیسے ممکن ہو گی؟ اللہ عز و جل نے سورۃ النور میں فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور۔63)
"جو لوگ ان (یعنی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو ڈرنا چاہییے کہ ان پر کوئی آفت نہ آ جائے یا عذابِ الیم انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے۔"
سورۃ الحشر میں فرمایا:؂
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا (الحشر۔7)
"جو (چیز یا حکم) تمہیں رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) دیں اسے لے لو (مضبوطی سے پکڑ لو) اور جس سے وہ منع کر دیں (اس سے) رک جاؤ)۔"
اس مضمون کی اور بھی آیاتِ کریمہ ہیں جو سب کی سب اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع فرض ہے۔
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےخیبر کے دن کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا اور پھر فرمایا، "قریب ہے کہ تم میں سے کوئی (شخص ) میری تکذیب کرے، وہ تکیہ لگائے ہوئے ہو، میری حدیث (اس کے سامنے) بیان کی جائے تو وہ کہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ موجود ہے، ہم اس میں جس چیز کو حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جس کو حرام پائیں گے اس کو حرام گردانیں گے لیکن یاد رکھو جن چیزوں کو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ بھی اسی کے مثل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔" (اس حدیث کو امام حاکم، ترمذی اور ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیثیں تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں جن میں یہ ہے کہ آپ اپنے خطبہ میں صحابہ کرام کو فرماتے تھے کہ "جو لوگ یہاں حاضر ہیں، وہ ان تک پہنچا دیں تو غائب ہیں۔" صحیحین یعنی بخاری اور مسلم میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ میں قربانی کے بعد خطبہ دیا تو اس میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ "جو حاضر ہیں، وہ ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگ جن تک بات کو پہنچایا گیا ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ سننے والے سے بھی زیادہ یاد رکھنے والے ہوں۔"
صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قولی اور فعلی احادیث کو یاد کیا اور پھر انہیں تابعین تک پہنچا دیا۔ تابعین نے انہیں بعد میں آنے والوں تک پہنچا دیا اور پھر اس کے بعد نسل در نسل اور قرن در قرن ثقہ علماء نے احادیث مبارکہ کو منتقل کیا، انہیں مستقل کتابوں میں جمع کیا اور صحیح و ضعیف کو بھی واضح کر دیا اور اس سلسلہ میں مشہور و معروف قوانین اور ضوابط بھی مقرر کیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سند صحیح ہے یا ضعیف، اہل علم نے کتبِ احادیث مثلًا صحیحین و غیرھما کو قبول کیا اور ان کی مکمل طور پر حفاظت کی۔ اللہ تعالیٰ نے نقاد علماء کو توفیق بخشی جنہوں نے باطل پرستوں کی تحریف اور جاہلوں کی تاویل کی نفی کر دی اور سنت کے زیبا سے ہر اس آلائش کو دور کر دیا جسے کذاب اور ملحد لوگوں نے چپکانے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام اس لیے فرمایا ہے کہ سنت رسول اللہ، کتاب اللہ کی تفسیر ہے، مجمل احکام کی تفصیل ہے اور پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کئی مستقل احکام ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے مثلًا احکام رضاعت کی تفصیل، میراث کے بعض احکام وغیرہ۔
امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ "ہم میں سے ہر ایک کی بات رد کی جا سکتی ہے اور قبول بھی کی جا سکتی ہے مگر اُس ذاتِ گرامی کی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا جو اِس قبر میں محوِ استراحت ہیں۔" یہ کہتے ہوئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کرتے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث تو سر آنکھوں پر ہے۔" امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ "اگر کوئی بات کہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث اس کے خلاف ہو تو میری بات کو دیوار سے دے مارو۔" امام احمد بن حنبل کہتے تھے "میرے پیچھے نہ چلو، مالک اور شافعی کی بھی تقلید نہ کرو بلکہ دین کو وہاں سے لو جہاں سے ہم نے لیا ہے (یعنی کتاب و سنت)۔ (الشیخ ابن باز نے یہ قول یہاں اس لیے دیے ہیں تا کہ معلوم ہو جائے کہ حجیت حدیث تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔)
 

قسیم حیدر

محفلین
حدیث بمقابلہ تاریخ
حدیث میں تو ہمارے زمانے سے لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا صحابہ کرام یا ائمہ حدیث تک اسناد کا پورا سلسلہ موجود ہے خواہ آپ کے نزدیک مشکوک ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اسی اصول کو دوسری کتابوں پر بھی لاگو کر کے دیکھیے۔ جن قدیم کتابوں کو آپ تاریخ کا سب سے معتبر ذخیرہ سمجھتے ہیں ان کے متعلق آپ کے پاس اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جن مصنفین کی طرف وہ منسوب کی گئی ہیں انہی کی لکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جو حالات ان کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان کے لیے بھی آپ کوئی ایسی سند نہیں رکھتے جن کی بنا پر ان کی صحت کا تعین کیا جا سکے۔ پس اگر حدیث کی کتابوں کی مسلسل اور مستند روایات کو اس آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے تو تاریخ کےپورے ذخیرے کو اس سے بھی زیادہ آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص بلاتکلف کہہ سکتا ہے کہ عباسیوں کا وجود دنیا میں کہیں نہ تھا۔ اموی سلطنت کبھی قائم نہ ہوئی تھی۔ سکندر کا وجود محض ایک افسانہ ہے۔ دنیا میں نپولین اور ہٹلر کبھی ہو کر نہیں گزرے۔غرض تاریخ کے ہر واقعہ کو اس دلیل سے بدرجہا زیادہ قوی دلیل کی بنا پر جھٹلایا جا سکتا ہے جس کی بنا پر آپ کتب احادیث کی صحت کو جھٹلاتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں زمانہ گزشتہ کے حالات کا کوئی ذخیرہ اتنا مستند نہیں ہے جتنا حدیث کا ذخیرہ ہے، اور جب وہ بھی ناقابل اعتبار ہے تو قدیم زمانہ کے متعلق جتنی روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ سب دریابرد کر دینے کے قابل ہیں۔ (سنت کی آئینی حیثیت از سید مودودی رحمہ اللہ)
چند سوالات
اگر یہ سچ ہے کہ کتب احادیث میں تبدیلی کی گئی یا ان میں اہانتِ رسول پر مشتمل مواد شامل کیا گیا تو چند بنیادی سوالات کے جواب عنایت فرما دیں:
1۔ کس کتاب میں کس کس شخص نے کیا کیا تبدیلی کی؟ پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلے ہوئے نسخوں کو بدل ڈالنے کے لیے کمال درجے کی مہارت اور بے انتہا وسائل درکار تھے۔ یہ تمام خوبیاں کس شخص میں پیدا ہو گئی تھیں؟ حیرت کی بات ہے کہ ایسے باکمال آدمی کو کوئی جانتا بھی نہ تھا یہاں تک کہ پندرھویں صدی ہجری میں ایک صاحب پر نے امت کو اس کارنامے پر مطلع کیا؟
2۔ یہ تبدیلیاں کس دور میں کی گئیں؟ چین سے عرب تک پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے اس ظلم کی نشاندہی کی ہو یا اس پر صدائے احتجاج بلند کی ہو؟

3۔ تبدیلیاں ایک نسخے میں کی گئیں یا ان تحریری نسخوں کو بھی بدل دیا گیا جو امام بخاری کے شاگردوں نے ان سے براہِ راست نقل کیے تھے اور جو ان کی ذاتی حفاظت میں ہوتے تھے۔
4۔ جن احادیث پر "اسلام کے مجرم" میں اعتراض کیا گیا ہے ان میں کون کون سے حدیثیں ایسی ہیں جن کے بارے میں صحیح البخاری کے نسخوں میں (بقول آپ کے) اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اختلاف تو کسی دوسری روایت کے بارے میں ہو اور اسے متفق علیہ احادیث پر چسپاں کیا جا رہا ہو۔
5۔ یہ کیا بات ہے کہ صحیح البخاری کی جن حدیثوں پر اعتراض ہے وہی حدیثیں دوسرے ائمہ کی کتابوں میں بھی مل جاتی ہے۔ جو مضمون بخارا کے رہنے والے محمد بن اسماعیل بخاری کی کتاب میں ہے وہی بلخ کے امام ترمذی، خراسان کے امام نسائی، سجستان کے ابوداؤد اور نیشاپور کے امام مسلم بن حجاج کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مختلف ملکوں میں جا کر ایک ہی مضمون ان ساری کتابوں میں داخل کر دیا اور تاریخ میں ان کا ذکر تک موجود نہیں ہے؟
8۔ آخری اور اہم سوال، ان ساری معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ جن لوگوں نے ہزاروں محدثین اور لاکھوں علماء کے کام کو بیک جنبشِ قلم منسوخ قرار دے دیا ان کا علمی مرتبہ کیا ہے؟ سند کو "فرسودہ نظام" کہنے والے اپنی سچائی کے ثبوت میں کون سے تاریخی حوالے اپنے پاس رکھتے ہیں جو اس سے مضبوط تر ہوں؟ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اگر سند کی بات رد کی جا سکتی ہے تو تاریخ کا حوالہ اس سے زیادہ آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ امت کا سارا دین ملیامیٹ کر دیا گیا ہو۔ ختم المرسلین کے فرمودات بدل دیے گئے ہوں۔ لیکن عرب سے لے کر چین تک کہیں بے چینی کی لہر نہ اٹھی ہو۔ اس کے پیچھے جو ذہن کام کر رہا تھا اس کا نام کسی کو معلوم نہ ہو سکے، نہ تاریخ کے صفحات میں اس انقلابِ عظیم کا ذکر آ سکے کہ ایک بوند بھی خون کی نہ گری اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے عقیدے بدل گئے، ان کی وہ کتابیں بدل گئیں جن میں ان کے نبی کی سیرت محفوظ تھی۔یا للعجب
 

قسیم حیدر

محفلین
حدیث بمقابلہ تاریخ

حدیث میں تو ہمارے زمانے سے لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا صحابہ کرام یا ائمہ حدیث تک اسناد کا پورا سلسلہ موجود ہے خواہ آپ کے نزدیک مشکوک ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اسی اصول کو دوسری کتابوں پر بھی لاگو کر کے دیکھیے۔ جن قدیم کتابوں کو آپ تاریخ کا سب سے معتبر ذخیرہ سمجھتے ہیں ان کے متعلق آپ کے پاس اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جن مصنفین کی طرف وہ منسوب کی گئی ہیں انہی کی لکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جو حالات ان کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں ان کے لیے بھی آپ کوئی ایسی سند نہیں رکھتے جن کی بنا پر ان کی صحت کا تعین کیا جا سکے۔ پس اگر حدیث کی کتابوں کی مسلسل اور مستند روایات کو اس آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے تو تاریخ کےپورے ذخیرے کو اس سے بھی زیادہ آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔ ایک شخص بلاتکلف کہہ سکتا ہے کہ عباسیوں کا وجود دنیا میں کہیں نہ تھا۔ اموی سلطنت کبھی قائم نہ ہوئی تھی۔ سکندر کا وجود محض ایک افسانہ ہے۔ دنیا میں نپولین اور ہٹلر کبھی ہو کر نہیں گزرے۔غرض تاریخ کے ہر واقعہ کو اس دلیل سے بدرجہا زیادہ قوی دلیل کی بنا پر جھٹلایا جا سکتا ہے جس کی بنا پر آپ کتب احادیث کی صحت کو جھٹلاتے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں زمانہ گزشتہ کے حالات کا کوئی ذخیرہ اتنا مستند نہیں ہے جتنا حدیث کا ذخیرہ ہے، اور جب وہ بھی ناقابل اعتبار ہے تو قدیم زمانہ کے متعلق جتنی روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ سب دریابرد کر دینے کے قابل ہیں۔ (سنت کی آئینی حیثیت از سید مودودی رحمہ اللہ)
چند سوالات
اگر یہ سچ ہے کہ کتب احادیث میں تبدیلی کی گئی یا ان میں اہانتِ رسول پر مشتمل مواد شامل کیا گیا تو چند بنیادی سوالات کے جواب عنایت فرما دیں:
1۔ کس کتاب میں کس کس شخص نے کیا کیا تبدیلی کی؟ پوری مملکت اسلامیہ میں پھیلے ہوئے نسخوں کو بدل ڈالنے کے لیے کمال درجے کی مہارت اور بے انتہا وسائل درکار تھے۔ یہ تمام خوبیاں کس شخص میں پیدا ہو گئی تھیں؟ حیرت کی بات ہے کہ ایسے باکمال آدمی کو کوئی جانتا بھی نہ تھا یہاں تک کہ پندرھویں صدی ہجری میں ایک صاحب پر نے امت کو اس کارنامے پر مطلع کیا؟
2۔ یہ تبدیلیاں کس دور میں کی گئیں؟ چین سے عرب تک پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جس نے اس ظلم کی نشاندہی کی ہو یا اس پر صدائے احتجاج بلند کی ہو؟

3۔ تبدیلیاں ایک نسخے میں کی گئیں یا ان تحریری نسخوں کو بھی بدل دیا گیا جو امام بخاری کے شاگردوں نے ان سے براہِ راست نقل کیے تھے اور جو ان کی ذاتی حفاظت میں ہوتے تھے۔
4۔ جن احادیث پر "اسلام کے مجرم" میں اعتراض کیا گیا ہے ان میں کون کون سے حدیثیں ایسی ہیں جن کے بارے میں صحیح البخاری کے نسخوں میں (بقول آپ کے) اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اختلاف تو کسی دوسری روایت کے بارے میں ہو اور اسے متفق علیہ احادیث پر چسپاں کیا جا رہا ہو۔
5۔ یہ کیا بات ہے کہ صحیح البخاری کی جن حدیثوں پر اعتراض ہے وہی حدیثیں دوسرے ائمہ کی کتابوں میں بھی مل جاتی ہے۔ جو مضمون بخارا کے رہنے والے محمد بن اسماعیل بخاری کی کتاب میں ہے وہی بلخ کے امام ترمذی، خراسان کے امام نسائی، سجستان کے ابوداؤد اور نیشاپور کے امام مسلم بن حجاج کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مختلف ملکوں میں جا کر ایک ہی مضمون ان ساری کتابوں میں داخل کر دیا اور تاریخ میں ان کا ذکر تک موجود نہیں ہے؟
8۔ آخری اور اہم سوال، ان ساری معلومات کا ماخذ کیا ہے۔ جن لوگوں نے ہزاروں محدثین اور لاکھوں علماء کے کام کو بیک جنبشِ قلم منسوخ قرار دے دیا ان کا علمی مرتبہ کیا ہے؟ سند کو "فرسودہ نظام" کہنے والے اپنی سچائی کے ثبوت میں کون سے تاریخی حوالے اپنے پاس رکھتے ہیں جو اس سے مضبوط تر ہوں؟ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اگر سند کی بات رد کی جا سکتی ہے تو تاریخ کا حوالہ اس سے زیادہ آسانی کے ساتھ رد کیا جا سکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ امت کا سارا دین ملیامیٹ کر دیا گیا ہو۔ ختم المرسلین کے فرمودات بدل دیے گئے ہوں۔ لیکن عرب سے لے کر چین تک کہیں بے چینی کی لہر نہ اٹھی ہو۔ اس کے پیچھے جو ذہن کام کر رہا تھا اس کا نام کسی کو معلوم نہ ہو سکے، نہ تاریخ کے صفحات میں اس انقلابِ عظیم کا ذکر آ سکے کہ ایک بوند بھی خون کی نہ گری اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے عقیدے بدل گئے، ان کی وہ کتابیں بدل گئیں جن میں ان کے نبی کی سیرت محفوظ تھی۔یا للعجب
 

باذوق

محفلین
معذرت چاہتا ہوں کہ میں یہاں اس پوسٹ کا جواب دینے حاضر ہوا تھا :
مشکوٰۃ المصابیع، کتاب االعلم، الفصل الثالث، الحدیث 208، ج2، ص 68
آپ کی خیال تھا کہ اتنی مشہور و معروف حدیث بغیر ریفرنس کے ہے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کو پہلے جواب دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

برادرم محمد عویدص ، شائد آپ کو بھی علم ہوگا کہ "مشکوٰۃ المصابیح" حدیث کی کوئی اصل کتاب نہیں ہے بلکہ مختلف کتبِ احادیث سے لی گئیں احادیث کا ایک منفرد انتخاب ہے۔
جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے ، وہ بیھقی کی "شعب الایمان" سے نقل کی گئی ہے اور اس کا عربی متن یہ ہے (آن لائن ربط)
[ARABIC]أخبرنا أبو الحسين محمد بن يعقوب الفقيه قال : حدثني أبو الحسن محمد بن علي بن حبيش حدثني عمي أحمد بن حبيش حدثني عبد الله بن النعمان البصري ثنا عمرو بن الحارث ثنا عبد الملك بن هارون بن عمرة ح
و أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي أنا أبو عبد الله محمد بن عبد الصفار ثنا إبراهيم بن إسماعيل السيوطي ثنا عمرو بن محمد صاحب يعلى بن الأشدق ثنا عبد الملك بن هارون بن عنترة عن أبيه عن جده عن أبي الدرداء قال : سئل رسول الله صلى الله عليه و سلم : ما حد العلم إذا حفظه الرجل كان فقيها فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم :
من حفظ على أمتي أربعين حديثا من أمر دينها بعث الله فقيها و كنت له يوم القيامة شافعا وشهيدا[/ARABIC]
اردو ترجمہ : مولانا صادق خلیل
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا ، علم کی (کتنی) حد ہے؟ جب کوئی شخص وہاں تک رسائی حاصل کر پاتا ہے تو فقیہ (کہلاتا) ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے میری امت تک دینی امور میں چالیس حدیثیں پہنچا دیں تو اللہ تعالیٰ اس کو فقیہ اٹھائے گا اور میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔

تحقیق :
اس حدیث کی سند میں عبد الملك بن هارون بن عمرة ضعیف راوی ہے۔
امام ابن معین (رح) نے اس راوی کو کذاب قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں۔
بحوالہ : (ذیل کی ساری عربی کتب آن لائن دستیاب ہیں)
میزان الاعتدال (ج:2 ، ص:666)
العلل و معرفة الرجال (ج:1 ، ص:384)
المجروحین (ج:2 ، ص:133)
علامہ البانی نے اپنی تخریج شدہ مشکوٰة المصابیح ، ج:1 ، ص:86 پر اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔


۔۔اور شاید آپ نے کبھی اسلامیات کی کتابوں میں نبی ص کے نام کے ساتھ ایسا لکھا ہوا دیکھا نہیں ہے اس لیے ایسا کہہ رہے ہیں میرا مقصد نبی صلہ کا نام کہتے اور لکھتے وقت زبان سے پورا ادا کرنا ہے اب اسے میں پورا یہاں ٹائپ کرتی ہوں یا نہیں اس بارے میں آپ کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے
ممکن ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ ورنہ تو اصول حدیث کی تقریباً ہر اہم کتاب میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام لکھا جائے گا تو پورا درود لکھنا چاہئے صرف "ص" لکھنا جائز نہیں ہے۔ (بحوالہ : مقدمہ ابن الصلاح ، ص:209)
 
باذوق صاحب۔ آپ اب تک میرے سوالات کے جواب دینے سے قاصر ہیں۔ صرف الفاظ کو گھما پھرا کر چھوڑ دیا ہے۔ ان چاروں کتب میں سے کسی میں بھی یہ جملہ نہیں ہے جس میں " یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی ریب نہیں"‌ موجود ہو۔ اور نہ ہی قرآن ان میں سے کسی کتاب کا نام لیتا ہے۔ میرے تینوں سوالات کے واضح‌ جوابات آپ اب تک دینے سے قاصر ہیں۔ آپ نے کم از کم یہ تسلیم کرلیا ہے کہ نماز کا طریقہ کسی ایک حدیث‌میں نہیں ہے۔ شکریہ آپ کو قرآن کس طور نماز تعلیم فرماتا ہے۔ پیش کیا جاچکا ہے جو بہت ہی واضح ہے۔

قسیم حیدر صاحب معذرت چاہتا ہوں لیکن جو بھی آپ نے پیش کیا نہ اس کا تعلق اس موضوع سے ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی بھی میرے سوالات کا جواب ہے۔ درست ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر، یہ ایک لاتعلق کٹ پیسٹ‌اور وقت کا ضیاع ہے۔ آپ سے بحث بند کرنے کے بارے میں آپ کسی خام خیالی میں مبتلا ہین آپ سے پہلے اس لئے بحث‌بند کی تھی کہ آپ کی میں نہ مانوں‌اور آپ کے جوابات سے رسول اکرم اور خانوادہ رسول کی بے شرمی و بے حیائی کی حد تک بے عزتی ہوتی تھی۔ جس کا شریک میں بننے کے لئے تیار نہیں تھا اور نہ ہوں ۔ انتہائی واہیات اور بے حیائی سے بھرپور جوابات کی وجہ سے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ قران پڑھنے، کہ بعد بہتر سوچ کے حامل ہونگے۔ آپ ، نعوذ باللہ ، رسول اکرم اور ازواج مطہرات کو ایک ہی ٹب میں نہلا رہے تھے اور تاویلات سے اصرار کررہے تھے کہ ایسا کرنا درست ہے جبکہ اس کا تعلق نہ تو ایمان سے ہے اور نہ ہی قرآن سے۔ میں کس طور اس بے شرم اور بے حیائی کے کام میں آپ کا شریک بن سکتا ہوں۔ لہذا اس مد میں کوئی بحث کرنا بے کار سمجھا۔

کتب روایات کی مد میں یہ عرض‌ہے کہ اگر آپ اپنی بحث جاری رکھنا چاہتے ہیں تو میں‌نے اوپر جو تین سوالات باذوق سے کئے ہیں وہی آپ سے بھی ہیں ۔ ان کے جوابات مرحمت فرمائیے واضح طور ، ان سوالات کے مخلصانہ جوابات کے بعد ہی قران کی مخالفت حدیث کے ذریعے کے موضوع پر بات ہوسکتی ہے ، قرآن اپنے آپ کو پچھلی کتب کے لئے کسوٹی کہتا ہے۔ لہذا جو حکم قران کے مخالف ہو تو وہ ناقابل قبول ہے۔
 
بقول باذوق:
یہ ضرور یاد رکھئے کہ ، وہ اعتراض ذاتی طور پر میں نے نہیں کیا ہے۔ 2 معروف علماء کی حال میں منظر عام پر آئیں کتب سے اقتباس لیا ہے۔ اور تمام حوالہ جات بذات خود چیک کیے اور درست پائے ہیں۔
اب آپ کا جو جواب ملے گا (بشرطیکہ علمی ہو) ان شاءاللہ وہ مذکورہ علماء تک بھی ضرور پہنچایا جائے گا۔


آپ کا نکتہ نظر یہ ہے کہ
1۔ پیش کردہ خط جعلی ہے اور اس خط کے مندرجات درست نہیں۔
2۔ پیش کردہ روایت کا مفہوم یہ ہے کہ روایات کو قران کی روشنی میں پرکھا جائے۔ باذوق کا اور ان کے علماء‌کا حکم یہ ہے کہ ایک روایت کا کتب روایات میں‌پایا جانا کافی ہے۔ چاہے وہ روایت قرآن کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی قرآن کی تردید کرنے والی روایات بھی "درست"‌ ہیں ۔ نعوذ‌باللہ۔ اس لئے کہ وہ انسانوں‌ کی اسناد سے پیش ہوئی ہیں ۔ یعنی اللہ کی سند ، انسانوں کی سند کے سامنے قابل قبول نہیں۔ شاباش ہو آپ کے علماء‌ کہ کتنی آسانی سے یہ ثابت کردیا کہ یہ خط بھی جعلی ہے اور اس کے مندرجات بھی جعلی ہیں۔ اور قرآن مخالف روایات قابل قبول ہیں۔

آئیے اس تلخ‌ماحول کے باجود، اس پر غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہ روایات جو پچھلی کتب میں پہلے ہی سے مذکور ہیں۔ یا پھر وہ روایات جو قرآن کے خلاف ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ تعالی کیا فرماتے ہیں؟

کیا قرآن ان روایات کی کسوٹی ہے؟ یقیناً-- قرآن ایک مکمل کتاب اور ایک کسوٹی ہے تمام احکامات کے لئے۔
[ayah]5:48[/ayah] پھر نازل کی ہم نے تم پر (اے نبی) یہ کتاب حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو موجود ہے اس سے پہلے الکتاب میں سے اور نگہبان ہے اس کی سو فیصلے کرو تم اُن کے درمیان اس کے مطابق جو نازل کیا اللہ نے اور مت پیروی کرو اُن کی خواہشات کی، (منہ موڑ کر) اس سے جوآگیا ہے تمہارے پاس حق۔ ہر ایک کے لیے تم میں سے مقّرر کی ہے ہم نے شریعت اور راستہ اور اگر چاہتا اللہ تو بنادیتا تم کو ایک ہی اُمّت لیکن (یہ اس لیے کیا) کہ آزمائے تم کو ان احکام کے بارے میں جو اس نے تم کو دیے ہیں سو تم سبقت لے جاؤ نیکیوں میں۔ اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے تم سب کو پھرآگاہ کرے گا وہ تم کو اِن اُمور سے جن میں تم اختلاف کرتے تھے۔

اب آپ لاکھ انجیل مقدس اور توراۃ‌مقدس کے جدید نسخوں‌سے روایات بناتے رہئیے۔ قرآن کا یہ اصول لاگو ہوگا۔ شاید آپ کے علماء کی نظر میں یہ آیت بھی جعلی ہے جو ابھی ابھی پیش کی گئی؟

اس مد میں مزید دیکھئے درج ذیل آیات۔

[ayah]6:114[/ayah] اور [ayah]6:19[/ayah] اور [ayah]7:52[/ayah] اور [ayah]16:89[/ayah] اور [ayah]5:48[/ayah] اور [ayah]4:105[/ayah]

شدید طنز:
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ سب آیات، ایف بی آئی کی ڈیٹا بیس سے نکلی ہوئی لگتی ہیں ۔ جی امریکہ نے ایک بہت بڑی سازش شروع کی ہے کہ اب امریکہ ایف بی آئی کی مدد سے قرآن کی ڈیٹا بیس بنا کر دنیا بھر میں قران کی ‌ترویج کرے گا۔ اس سے بڑا لاف شاید قران کی مخالفت کرنے والوں سے اس سے پہلے نہیں سنا۔ اب تو اس پر ہنسی بھی نہیں آتی۔
 

قسیم حیدر

محفلین
قسیم حیدر صاحب معذرت چاہتا ہوں لیکن جو بھی آپ نے پیش کیا نہ اس کا تعلق اس موضوع سے ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی بھی میرے سوالات کا جواب ہے۔ درست ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر، یہ ایک لاتعلق کٹ پیسٹ‌اور وقت کا ضیاع ہے۔ آپ سے بحث بند کرنے کے بارے میں آپ کسی خام خیالی میں مبتلا ہین آپ سے پہلے اس لئے بحث‌بند کی تھی کہ آپ کی میں نہ مانوں‌اور آپ کے جوابات سے رسول اکرم اور خانوادہ رسول کی بے شرمی و بے حیائی کی حد تک بے عزتی ہوتی تھی۔ جس کا شریک میں بننے کے لئے تیار نہیں تھا اور نہ ہوں ۔ انتہائی واہیات اور بے حیائی سے بھرپور جوابات کی وجہ سے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ قران پڑھنے، کہ بعد بہتر سوچ کے حامل ہونگے۔ آپ ، نعوذ باللہ ، رسول اکرم اور ازواج مطہرات کو ایک ہی ٹب میں نہلا رہے تھے اور تاویلات سے اصرار کررہے تھے کہ ایسا کرنا درست ہے جبکہ اس کا تعلق نہ تو ایمان سے ہے اور نہ ہی قرآن سے۔ میں کس طور اس بے شرم اور بے حیائی کے کام میں آپ کا شریک بن سکتا ہوں۔ لہذا اس مد میں کوئی بحث کرنا بے کار سمجھا۔
۔[/color]
اس کا تعلق اس موضوع سے اس لیے ہے کہ آپ کی یہ نظریہ ہی درست نہیں کہ جو چیز قرآن میں نہ ہو وہ قابل تردید ہے جبکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اس کی تشریح کرنا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کام ہے۔
جو کچھ میں نے لکھا وہ سب کے سامنے ہے اور فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے کہ کس کے جواب واہیات اور قرآنی فکر سے دور تھے۔
قرآن پڑھنے کا مشورہ دینے پر میں آپ کا شکر گزار ہوں لیکن یہ تاثر دینا ٹھیک نہیں کہ جواب دینے والا شخص قرآن سے بالکل ہی بابلد تھا۔ قرآن کریم کے علوم کا مکمل احاطہ کرنے کا دعویٰ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا اور تدبر و تفکر کرنے والے کبھی اس سے سیر نہیں ہوتے لیکن تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے کہ قرآن کریم بچپن ہی سے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ زیر مطالعہ رہا اور اللہ نے اس میں اتنی برکت دی کہ کسی مدرسے یا استاد کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور اللہ نے قرآن حفظ کرا دیا۔ اور ابھی تک قرآن کریم سے تلاوت اور تدبر کا یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ سب محض اللہ کی توفیق سے ہے جس میں کسی کا کوئی کمال نہیں۔ اس دراز نفسی کا مقصد یہ ہے کہ ہم جیسے قرآن کے طالب علموں کو یہ بات معلوم ہے کہ بہت سے احکام ہیں جو قرآن میں نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سنت کے ذریعے انہیں بتایا۔ قرآن میں ہے کہ "جب جمعے کی نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر (یعنی نماز( کے لیے جلدی کرو"۔
قرآن کریم کی کسی آیت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کیسے ہو گی۔ اس کی وضاحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم میں ہے۔ اور جن موضوعات کو بنیاد بنا کر یہاں بحث ہو رہی ہے وہ بھی انہی میں سے ہیں جو قرآن میں بیان نہیں کیے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں جاری کیا یا پہلے سے جاری عمل کو برقرار رکھا۔
 

قسیم حیدر

محفلین
بقول باذوق:
باذوق کا اور ان کے علماء‌کا حکم یہ ہے کہ ایک روایت کا کتب روایات میں‌پایا جانا کافی ہے۔ چاہے وہ روایت قرآن کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی قرآن کی تردید کرنے والی روایات بھی "درست"‌ ہیں ۔ نعوذ‌باللہ۔ اس لئے کہ وہ انسانوں‌ کی اسناد سے پیش ہوئی ہیں ۔ یعنی اللہ کی سند ، انسانوں کی سند کے سامنے قابل قبول نہیں۔

صحیح حدیث کے لیے پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ قرآن اور دوسری احادیث صحیحہ کے مخالف نہ ہو۔ آپ کے اس الزام کا بارہا جواب دیا جا چکا ہے کہ کتب احادیث میں ہر قسم کی حدیثیں ہیں۔ صحیح، ضعیف، موضوع اور محدثین نے بتا دیا ہے کہ کونسی روایت کس درجے کی ہے۔ اس کے باوجود آپ کا اصرار کیے جانا کہ علماء قرآنی آیات کے مخالف احادیث کو کافی سمجھتے ہیں میری سمجھ سے باہر ہے۔ اور شاید ہر وہ شخص اس بے جا اصرار کی وجہ جاننے سے قاصر ہو جو علوم حدیث سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے۔
یہی یہ بات کہ سندیں انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں تو یہ قرآن بھی تو انسانوں کے ذریعے ہی پہچنا ہے یا لکھا ہوا آسمان سے اترا؟۔
 
ہم جیسے قرآن کے طالب علموں کو یہ بات معلوم ہے کہ بہت سے احکام ہیں جو قرآن میں نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سنت کے ذریعے انہیں بتایا۔ ۔
اس نکتہ نظر اور میرے نکتہ نظر میں کیا فرق ہے جناب من؟‌

موضوع یہ نہیں۔ بلکہ یہ ہے کہ جو کچھ قران کی روشنی سے نہ صرف ‌ثابت نہیں بلکہ قرآن کے مخالف ہے وہ کس طور قابل قبول ہے۔ اس کا جواب آپ نے اس سے پیشتر عطا کردیا ہے کہ "اگر حدیث قران کے مخالف ہے تو قابل قبول نہیں"۔

اس کے برعکس باذوق صاحب کا واضح‌نکتہ نظر یہ ہے کہ "جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے، اس کی مزید کوئی چھان پھٹک کی ضرورت نہیں" ۔ لہذا آپ کا رخ‌ باذوق کی طرف ہونا چاہئیے میری طرف نہیں۔

لیکن تحدیث نعمت کے طور پر عرض ہے کہ قرآن کریم بچپن ہی سے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ زیر مطالعہ رہا اور اللہ نے اس میں اتنی برکت دی کہ کسی مدرسے یا استاد کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی اور اللہ نے قرآن حفظ کرا دیا۔ اور ابھی تک قرآن کریم سے تلاوت اور تدبر کا یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ سب محض اللہ کی توفیق سے ہے جس میں کسی کا کوئی کمال نہیں۔
ماشاء اللہ، جزاک اللہ - دعا ہے کہ اللہ تعالی اس میں مزید برکت عطا فرمائیں۔ علم، خاص طور پر قرآن کا علم حاصل کرنے کی کوشش اور کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں بتانا کسی طور دراز نفسی نہیں۔ یہ ایک بابرکت عمل ہے اور عین اللہ تعالی کے حکم کے مطابق ہے۔ اللہ تعالی آپ کو اس علم کے حصول میں مزید برکت عطا فرمائیں۔

اب آتے ہیں ان اعتراضات کی طرف۔ اگر باذوق صاحب کو کوئی آیت کسی موقع یا محل کے مناسب نظر نہیں آتی تو درست آیت یا پھر کسی ایسی روایت کا حوالہ عطا فرمائیں جو قرآن کی روشنی میں درست ہو۔

اس چہل حدیث سے ایک روایت کی مثال دی جو مبہم ہے اور قرآن کے احکامات کے خلاف ہے۔

آدمی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہے
یہ ایک انتہائی مبہم اصول ہے۔ قران کے مخالف ہے اور توراۃ سے نکالا گیا ہے۔ یہ دیکھئے، اموس 6:10 دیکھئے اس صفحہ پر
http://www.biblestudents.com/htdbv5/htdb0030.htm

قرآن نے اس اصول کو جاری نہیں رکھا بلکہ حقیقی باپ اور بیٹے کے رشتے کو کسی مصنوعی رشتے سے نہیں بدلا۔ عزت اپنی جگہ لیکن ماموں ، چچا، پھوپھا، خالو، یا بڑا بھائی کسی طور پر مالی، قانونی ، کاروباری ، جائیدادی یا کسی بھی قسم کے معاملے میں ایک بالغ آدمی پر کوئی حق نہیں رکھتے۔

یہ بڑے مزے کی بات ہے کہ جونہی کسی بھی روایت کی مخالفت کی جائے، فوراً‌ بات عبادات کی طرف اور ان مسلمہ احادیث کی طرف لے آئی جاتی ہے جس کا کوئی تعلق اس روایات سے نہیں۔ نا یہ نماز کے بارے میں ہے نہ یہ زکواۃ‌ کے بارے میں‌ہے۔ نہ اسکا موقع ہے نہ محل اور نہ ہی میں نے ان عباداتی روایات کے بارے میں کوئی بات کی ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے۔

محترم قسیم حیدر صاحب ۔
اگر کسی کا ایمان ہے کہ کتب روایت میں ہر روایت پر قرآن کی طرح ایمان رکھنا ہے تو اس کو کسی بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں - صرف ایسا کہنا ہی کافی ہے کہ یہ، یہ مکمل کتب روایات " ذلك الكتاب لا ريب فيہ ھدي للمتقين"‌ کے زمرہ میں آتی ہیں۔ باقی لوگ خود دیکھ لیں گے کہ ان کتب میں یہ آیت موجود ہے یا نہیں اور آیا کہ قرآن ان کتب کی طرف اشارہ کرتا ہے یا نہیں۔

جب کہ آپ ہر روایت کو قرآن کی روشنی میں پرکھنے کے قائیل ہیں کے قرآن مخالف روایت تو ہو ہی نہیں سکتی تو صاحب استدعا ہے کہ جب بھی میری یا کسی بھی شخص کی پیش کی ہوئی کوئی آیت آپ کو موقع محل کی مناسبت میں نظر نہ آئے اس پر مناسب آیت دیجئے یا مناسب روایت دیجئے جو قرآن کی روشنی میں مستند ہو۔

یہ کہنا کہ چونکہ اس کتاب میں طریقہ نماز موجود ہے لہذا اس کتاب کی ہر بات درست مان لو ایک بے معنی استدلال ہے۔ (‌ یہ بھی ایک سنی سنائی افواہ ہے کہ کتب روایات میں مکمل طریقہ نماز درج ہے، اگر ایسا ہوتا تو آج یہ ہزاروں فرقہ طرح طرح کی نمازیں نہ پڑھ رہے ہوتے۔)

امید ہے آپ اس سے اتفاق کریں گے کتب روایات قران کا نعم البدل نہیں‌ہیں ۔ پھر بھی جو کچھ تشریح ان کتب میں قرآن کی موجود ہے سر آنکھوں پر۔ جن قرانی احکامات کی توثیق یہ کتب کرتی ہیں وہ بھی سر آنکھوں پر۔ وہ احکامات جو قران میں موجود نہیں اور ان کتب میں موجود ہیں ان پر تمام علماء کے تحفظات رہے ہیں، ضعیف روایات کے طور پر۔ یہ بھی سر آنکھوں پر۔ لیکن قرآن مخالف روایات یا وہ روایات جو سابقہ کتب میں موجود ہیں اور قران نے اس کا نعم البدل عطا کردیا یا رد کردیا یا خاموش رہا تو یہ مشیت ایزدی ہے ۔ اس صورت میں، قرآن کا حکم من و عن بنا ترمیم مانتا ہوں۔ آپ کو حق ہے کے جس طور مانئے اس لئے کہ " لا اکراہ فی الدین۔۔۔"

1980 سے لکھ رہا ہوں، قرآن کی آیات کو بطور ریفرنس فراہم کررہا ہوں، صرف فراہم کردہ آیت پر اس موقع کی مناسبت سے غور فرمائیے۔ اگر درست نہیں ہے تو درست یا من پسند آیت عطا فرمائیے یا کوئی قابل قبول روایت جس کو قرآن کی روشنی میں پرکھنے پر کھوٹی نہ نکلے۔ یہی استدعا ہے۔

صاحب قران انسانوں کے ہاتھ کے ذریعے نہیں بلکہ ایک عظیم نبی کی سند سے ہم تک پہنچا ہے۔ جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لیا ہے۔ مختلف المتن و تعداد و اسناد روایات کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ ان کتب روایات کو قرآن کے مساوی رکھنا حد درجہ معصومیت ہے۔
 

باذوق

محفلین
اس کے برعکس باذوق صاحب کا واضح‌نکتہ نظر یہ ہے کہ "جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے، اس کی مزید کوئی چھان پھٹک کی ضرورت نہیں" ۔ لہذا آپ کا رخ‌ باذوق کی طرف ہونا چاہئیے میری طرف نہیں۔
محترمی فاروق صاحب
آپ اس سے قبل بھی مجھ پر کئی الزامات بلا ثبوت دھر چکے ہیں۔ میں ان کا حوالہ نہیں دوں کیونکہ "کسی" سے کئے گئے وعدہ کے مطابق میں یہ موضوع بند کر چکا ہوں۔ ہاں وہ الزامات اب بھی محفل پر موجود ہیں ، سرچ کرلیں۔
یہ ایک پرانا الزام دوبارہ آپ کی طرف سے آیا ہے۔ کیا آپ اس کا ثبوت فراہم کر سکتے ہیں کہ کہاں میں نے ایسا کہا ہے کہ :
جو کچھ ان کتب میں ہے وہ بہر طور بطور ایمان قابل قبول ہے

جب میں اپنے مباحث میں بیشمار جگہوں پر دہرا چکا ہوں کہ کتب احادیث میں صحیح ، حسن ، ضعیف ، موضوع ہر قسم کی حدیث موجود ہے تو کس طرح میں کہہ سکتا ہوں ہر ہر کتابِ حدیث پر ایمان لانا ہوگا؟
بخاری اور مسلم کی تمام احادیث کی صحت پر تمام محدثین کا اجماع ہے ۔۔۔ اس کے باوجود کوئی ایک بھی محدث یا کوئی ایک بھی عالمِ دین ایسا نہیں کہتا کہ دونوں کتب (بخاری / مسلم) پر یا ان دونوں کتب کی تمام احادیث پر بعینہ اسی طرح ایمان لانا ہوگا جس طرح قرآن پر لایا گیا ہے۔ اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ ان دونوں کتب احادیث میں صرف فرامینِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی بیان نہیں ہوئے بلکہ صحابہ کے اپنے ذاتی اقوال ہیں ، جنگوں کا حال ہے ، صحابہ کی سیرت و فضیلت کا بیان ہے ، اُس وقت کے معاشرے کا حال احوال ہے ۔۔۔ ظاہر ہے ان تمام پر ایمان لانے کا مطالبہ کسی نے آج تک نہیں کیا ہے۔
ایمان تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ان فرامین پر لانے کا تقاضا ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہو جائیں۔

یہ باتیں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ، آپ بار بار پرانے ایشو اٹھاتے ہیں اور بار بار مجھے کسی پرائمری اسکول کے استاذ کا فرض نبھانا پڑتا ہے۔ کیا آپ مجھ پر کبھی رحم بھی کریں گے ؟؟
 

باذوق

محفلین
آپ نے کم از کم یہ تسلیم کرلیا ہے کہ نماز کا طریقہ کسی ایک حدیث‌میں نہیں ہے۔ شکریہ
بےشک ! اور یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے آپ سے پوچھا جائے کہ پانچوں وقت کی نماز کی ادائیگی کا ذکر کس سنگل آیت میں ہے تو آپ کا جواب ہوگا کہ
کسی ایک آیت میں نہیں ہے !
آپ کو قرآن کس طور نماز تعلیم فرماتا ہے۔ پیش کیا جاچکا ہے جو بہت ہی واضح ہے۔
آپ اس کا لنک یہاں دوبارہ دے دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔
کیونکہ اب تک اپنے ناقص علم کے تحت میں یہ سمجھتا رہا ہوں کہ نماز کا مکمل طریقہ یعنی تکبیر ، قیام ، رکوع ، قیام ، سجدہ ، جلسہ ، تشہد ، سلام وغیرہ کے متعلق قرآن میں تفصیل موجود نہیں ہے۔
 

صرف علی

محفلین
اگر آپ لوگ چاہیے تو میں علم حدیث کے حوالے سے ایک کتاب یہاں پوسٹ کرسکتا ہوں کے علم حدیث کیا ہے اور کیسے جان سکتے ہیں کہ کس حدیث کو قبول کرنا چاہیے ۔
 

باذوق

محفلین
انتہائی واہیات اور بے حیائی سے بھرپور جوابات کی وجہ سے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ قران پڑھنے، کہ بعد بہتر سوچ کے حامل ہونگے۔ آپ ، نعوذ باللہ ، رسول اکرم اور ازواج مطہرات کو ایک ہی ٹب میں نہلا رہے تھے اور تاویلات سے اصرار کررہے تھے کہ ایسا کرنا درست ہے جبکہ اس کا تعلق نہ تو ایمان سے ہے اور نہ ہی قرآن سے۔
بےشک ! اس حدیث کا تعلق "ایمان" سے نہیں ہے۔
یعنی اگر آپ اس حدیث پر ایمان نہ لائیں (اسے "صحیح" نہ سمجھیں) تو کوئی بھی مسلمان آپ کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار نہیں دے گا۔
"ایک ہی ٹب میں نہلانے" والی بات ذاتی طور پر فاروق صاحب کی طرف سے نہیں ہے۔ انہوں نے تو صرف کاپی پیسٹ کیا ہے لہذا فاروق صاحب معذور ہیں۔

ڈاکٹر شبیر احمد نے اپنی کتاب "اسلام کے مجرم" صفحہ:26 پر لکھا ہے:
عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ٹب میں نہاتے تھے ۔۔۔۔

ہمارا دعویٰ ہے کہ صحیح بخاری میں ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے جس میں یہ آیا ہو کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ٹب میں نہاتے تھے"

جب اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ کے مواد پر اعتراض کرتے ہوئے یوں کہا جا سکتا ہے :
کوئی بھی فارورڈ کی ہوئی ای میل بغیر تحقیق کیئے آگےبڑھا دینا بھی تو اچھی بات نہیں ہے۔

تو اس بات کا مشورہ دینا بھی لازمی امر ہے کہ :
کسی بھی کتاب میں درج قول کی صداقت کو جب تک تحقیق کر کے معلوم نہ کر لیا جائے ، اسے آگے بڑھا دینا اچھی بات نہیں۔

بغیر تحقیق کے ، "ایک ہی ٹب میں نہلانے" والی بات کو آگے بڑھانا اور مسلسل اس کا پروپگنڈہ کرنا ، کیا یہ توہینِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے زمرے میں نہیں آتا؟؟ خصوصاً جب یہ ثابت بھی ہو جائے کہ یہ ایک جھوٹی بات ہے اور صحیح بخاری کے ذمہ زبردستی منڈھ دی گئی ہے !

صحیح بخاری میں متذکرہ حدیث کے جو الفاظ ہیں ، وہ ملاحظہ فرمائیں :
[ARABIC]عن عائشة، قالت كنت اغتسل انا والنبي، صلى الله عليه وسلم من اناء واحد، كلانا جنب‏.[/ARABIC]
میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ جنابت میں ایک برتن سے (پانی لے کر) غسل کرتے تھے
صحیح بخاری ، کتاب الحیض

یہ تو پہلے بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح قرآن کی ایک آیت کی تفسیر کسی دوسری آیت سے ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک حدیث کی تشریح دوسری حدیث سے بھی ہو جاتی ہے۔
مثلاً مسلم کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں
[ARABIC]من إناء - بيني وبينه - واحد[/ARABIC]
میرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے درمیان ایک برتن ہوتا تھا
صحیح مسلم ، کتاب الحیض

اس حدیث سے جس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ :
شوہر اپنی بیوی کے ساتھ غسل کر سکتا ہے۔
اس میں اعتراض کی بھلا کیا بات ہے؟
اگر اعتراض "پردہ پوشی" کا ہو تو اس کی بھی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہو جاتی ہے جس میں لکھا ہے :
[ARABIC]والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح[/ARABIC]
اور ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
موطا مالک ، كتاب صلاة الليل

اندھیری رات میں ، روشنی کے بغیر ، میاں بیوی کا ایک ہی برتن سے پانی لے کر اکٹھے نہانا ، کس قرآنی دلیل کے خلاف ہے؟؟
ہم مسلمانوں کو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ امہات المومنین (رضی اللہ عنہما) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کا طریقہ یاد کر کے امت کے سامنے بیان کر دیا ہے تاکہ دین اسلام ہر طرح سے مکمل رہے ، والحمدللہ۔

اگر اعتراض اس بات پر ہو کہ یہ "فحش الفاظ" حدیثِ رسول کس طرح ہو سکتے ہیں اور اس ہی طرح کی حدیث کو بنیاد بنا کر غیر مسلم اسلام پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں ۔۔۔۔
تو جواباً عرض ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مشرکین شروع دن ہی سے اسلام و مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ایک مثال میں یہ روایت دیکھ لیں :
[ARABIC]عن سلمان، قال قال بعض المشركين وهم يستهزئون به إني لأرى صاحبكم يعلمكم حتى الخراءة قال سلمان أجل أمرنا أن لا نستقبل القبلة ولا نستنجي بأيماننا ولا نكتفي بدون ثلاثة أحجار ليس فيها رجيع ولا عظم‏.[/ARABIC]
سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ بعض مشرکوں نے بطور استہزاء کہا کہ : ہم تمہارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جانتے ہیں کہ وہ تمہیں ہر چیز کی تعلیم دیتے ہیں یہاں تک کہ قضائے حاجت کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔ تو سلمان فارسی نے جواب دیا :
بالکل درست بات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قبلہ کی جانب منہ نہ کریں اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجا کریں اور تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفا نہ کریں ونیز ڈھیلوں میں گوبر اور ہڈی نہ ہو۔
مسند احمد ، حديث سلمان الفارسی رضی الله عنه

ہم نے دیکھ لیا کہ صحابئ رسول نے کس قدر فخر کے ساتھ طہارت پر مبنی مسائل کو بیان فرمایا اور ذرہ برابر بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے۔
دوسری طرف آج کے کوئی ڈاکٹر صاحب اسے اسلام کا جرم ثابت کرتے ہیں۔

ہماری نظر میں تو دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے کہ کسی بھی معاملے میں رہنمائی کے لئے ہمیں کسی غیر کا تکلف اٹھانا نہیں پڑتا !!
اور تو اور ۔۔۔ قرآن خود واشگاف الفاظ میں کہتا ہے
[ARABIC]لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة[/ARABIC]
یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں بہترین نمونہ ہے۔
 
Top