سید عاطف علی

لائبریرین
یہاں دیکھ لیجئے گا کہ نون کا غنہ کرنا جائز ہے یا نہیں۔ میرے پاس کوئی فوری حوالہ نہیں ہے۔

محمد خلیل الرحمٰن ، الف عین ، مزمل شیخ بسمل ، سید عاطف علی
اس نون کی وجہ سے بہت لچکدار لفظ ہے فاعلن اور فعلن دونوں صورتوں میں حسب ضرورت ڈھل سکتا ہے ۔ شکریہ اور بہت آداب ۔رمضان کی برکتوں اور نیک خواہشات کے ساتھ ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
(۴)​
سنو بچو! کہ اگلی چودھویں کی رات جب آئی​
تو ہر سُو چاند کی روپہلی کرنوں کی ضیا ٔ چھائی​
اکیلا نے کہیں جنگل کی اِک اُونچی پہاڑی پر​
صدا جنگل کے سارے بھیڑیوں کو دی کھڑے ہوکر​
سیَونی جھُنڈ کے سب بھیڑئیے آئے صدا سُن کر​
وہ اپنے سارے بچّوں کو بھی لائے آج چُن چُن کر​
اکیلا دیکھ کر چیخا، ’’ اے میرے بھیڑیو ! پیارو!‘‘​
’’ذرا تُم غور سے دیکھو، او میرے ساتھیو ! یارو!‘‘​
بنا کر دائرہ بیٹھے ، درندوں کی وہ مجلس میں​
سبھی تھے خون کے پیاسے، سبھی خونخوار تھے جِس میں​
’’مگر جنگلی درندوں کا بھی اِک قانون ہوتا ہے‘‘
جو اِس قانون کو توڑے ہمیشہ خود ہی روتا ہے​
یہی قانون تھا اُس جھُنڈ کا، بچے وہاں لائیں​
کہ یوں پلّے یہ اُن کے، جھُنڈ میں شامِل کیے جائیں​
جب اُن کے سامنے بچّے یہ کھیلے، خوش ہوئے سب ہی​
مگر انسان کے بچّے کو دیکھا ، چونک اُٹھے سب ہی​
یہ انسانوں کا بچّہ ہے ، یہاں کیا کرنے آیا ہے؟​
یہ انسانوں کا بچّہ ہے اِسے یاں کون لایا ہے؟​
اِسی اثناٗ میں بھُوکے شیر کی آواز یوں آئی​
’’ شکاری ہوں ، نوالہ یہ مِرا ہے، مجھ کو دو بھائی!‘‘​
تمہی جنگل کے ہو آزاد باسی یہ دِکھادو نا!​
تمہیں انسان کے بچے سے کیا مطلب بتادو نا!​
یہ سننا تھاکہ وہ چلّائے ہم آواز ہوکر سب​

’’ہم اِس جنگل کے باسی ہیں ، ہمیں اِس شے سے کیا مطلب؟‘‘​
سنو بچو! پھر اگلی چودھویں کی رات جب آئی
تو ہر سُو چاند کی روپہلی کرنوں کی ضیا ٔ چھائی ۔۔۔ تو شب پچھلے پہر ہی دن کی اک صورت نکل آئی ۔
×× یہاں پہلے مصرع میں کہانی کے تسلسل اور بہاؤ کی مناسبت سے مجھے پھر کا استعمال زیادہ رواں لگا۔
××روپہلی کرنوں ۔۔اور۔ضیاء ۔۔۔ان کا متتابع برتاؤ اور ان کے لیے چھانا تھوڑا غور طلب لگ رہا ہے ۔اس کو کچھ ری ارینج کیا جائے تو بہتر ہو۔۔۔
یا کوئی اور مثلا" ۔۔تو شب پچھلے پہر ہی دن کی اک صورت نکل آئی ۔
یہ انسانوں کا بچّہ ہے اِسے یاں کون لایا ہے؟
××یاں کے بجائے بھی شاید کچھ اور موزوں کر دیا جائے ۔اگرچہ ٹھیک بھی کہا جاسکتا ہے لیکن مسلسل برے گئے لہجے سے موافق نہیں لگ رہا۔
اکیلا نے کہیں جنگل کی اِک اُونچی پہاڑی پر
صدا جنگل کے سارے بھیڑیوں کو دی کھڑے ہوکر
یہ شعر تو مجھے بہت ہی پسند آیا ۔۔۔ اسمیں غضب کی روانی ہے اور نفس مضمون کے تناظر میں انداز بیان کا بہاؤ بے مثال ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
میں بھی جنگلی کو معلنہ نون کے ساتھ ہی پسند کرتا ہوں۔ نور اللغات کیا عروضی طور پر سند کی حیثیت رکھتی ہے؟@مزمل شیخ بسمل
 
میں بھی جنگلی کو معلنہ نون کے ساتھ ہی پسند کرتا ہوں۔ نور اللغات کیا عروضی طور پر سند کی حیثیت رکھتی ہے؟@مزمل شیخ بسمل


جی میری ناچیز رائے میں نور الغات عروضی حوالے سے سند ہے۔ خود نور الغات کا انداز ایسا ہے کہ جس سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ مؤلف عروض کے بھی ماہر تھے۔ انہوں نے تقریباً سبھی اصل الفاظ کے ساتھ سند میں اشعار بھی پیش کئے ہیں اور فروعات میں بھی جہاں ممکن تھا وہاں تلفظ کے لحاظ سے اساتذہ کے کلام سے سند لائے ہیں۔ کہیں کہیں انہوں نے تلفظ کے لحاظ سے بھی تردد کی صورت میں دو دو اشعار پیش کرکے واضح فرمایا ہے کہ اساتذہ نے ان دونوں تلفظ کو صحیح مانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ چیز دوسری کتابوں میں نہیں ملتی۔
پھر بھی اگر کوئی شعر مل جائے (جو کہ مشکل لگتا ہے) تو توثیق ہوجائے۔ البتہ مجھے ذاتی طور پر جنگلی کا وزن فاعلن لگتا تھا، مگر انہوں نے کنگلا یا کنگلی، اور جنگلا اور جنگلی کو ہم وزن بتایا ہے تو مجھے اسے ماننے میں بھی کوئی تردد نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، مجھے کتابی عروض سے کچھ واقفیت نہیں، میں صرف عملی عروض کا آدمی ہوں۔ ااس لحاظ سے اگرچہ کئی معاملوں میں کوئی سند پیش کر دی جاتی ہے تو ماننا پڑتا ہے، لیکن دل قبول نہیں کرتا۔ یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ آسی بھائی کی طرح مجھے بھی ملی اور کلی کو قافیہ قبول کرنے میں تامل ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
اردو انسائکلوپیڈیا پر "جنگلی" کے تحت یہ شعر لکھا ہے:
نہ خسرو کے آگے میں ہر گز جھکوں
نہ اس جنگلی کی اطاعت کروں (بر وزن فاعلن)
اور اس کا حوالہ ہے: ( 1810ء، شمشیر خانی، 282 )
 
باب پنجم : بھالو

خموشی چھاگئی جِس دَم اکیلا سامنے آیا
وہیں جنگل کا اِک قانون اُس نے پھِر سے دُہرایا

’’اگر چاہیں کسی پلّے کو اپنے جھُنڈ میں لانا
تو پھِر لازِم ہے اُس کے حامیوں کا سامنے آنا

ذرا یہ غور سے سُن لیں جو ہیں سب حاضِر و ناظِر
ہمیں درکار ہیں دو جانور اِس کام کی خاطِر‘‘

یہ سننا تھا کہ بھالو کوُد کر یوں سامنے آیا
اور اِک بھونچال کی مانند اُس نے سب کو چونکایا

یہی بھالو تھا جو اِن سب کو مکتب میں پڑھاتا تھا
سبھی قانون جنگل کے اُنہیں پڑھ کر سُناتا تھا

اُسے حق تھا کہ اِس مجلِس میں اپنی رائے دے سکتا
یہ بھالو تھا کُچھ ایسا ہی کہ بس دِل موہ لے سب کا

کہا بھالو نے یہ بچہ ہے میرا اور میں اسِ کا ہوں
میں اِس انسان کے بچے کے حق میں رائے دیتا ہوں

’’چلویہ طے ہوا اب ایک بھالو اِس کا حامی ہے
مگر اب موگلی کے حق میں خالی اِک اسامی ہے

اگر دو جانور یک رائے ہوکر اِس کا دَم بھر لیں
تو شامل موگلی کو جھنڈ میں ہم آج ہی کرلیں‘‘

اُدھر ماما اکیلی دانت اپنے تیز کرتی تھی
وہ اپنے ناخنوں کو اپنے منہ سے بھی کُترتی تھی

کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ اُس کے خلاف آئے
تو پھر بیچارہ بچہ جان تو اپنی بچا پائے

میں اِس بچے کی خاطِر جان بھی اپنی گنوا دوں گی
جو اِس کو کھانے آئے گا، میں اُس کو بھی مِٹا دوں گی

باب چہارم : جنگل کا قانون


سید شہزاد ناصر ، شمشاد، سید عاطف علی ، @
 
آخری تدوین:
کیا کہنے جناب کے
آجکل کمال نہیں کمالات کر رہے ہیں
یہ اسلوب تو آپ پر ہی ختم ہے
ٹیگ کرنے کا شکریہ
اللہ آپ کو خوش خرم رکھے اور رمضان المبارک کی عبادات قبول فرمائے آمین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ذرا یہ غور سے سُن لیں جو ہیں سب حاضِر و ناظِر
ہیں اور حاضر کو ذرا دور کر نا شاید بہتر ہو کیوں کہ ہ اور ح اگر چہ ہم عجمیوں کے نزدیک ایک ہی ہوتے ہیں اس لئے اتنے قریب نہ ہوں تو شایدروانی اور بہتر ہو۔
یہ سننا تھا کہ بھالو کوُد کر یوں سامنے آیا
اور اک بھونچال کی مانند اُس نے سب کو چونکایا
یہاں یوں کی مناسبت سے کہ زیادہ فٹ لگ رہا ہے۔لہکن تکرار کی وجہ سے اور رکھا جاسکتا ہے ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ اُس کے خلاف آئے
یہاں بھی کہیں کے ساتھ کہ شاید زیادہ متناسب ہو
 
ذرا یہ غور سے سُن لیں جو ہیں سب حاضِر و ناظِر
ہیں اور حاضر کو ذرا دور کر نا شاید بہتر ہو کیوں کہ ہ اور ح اگر چہ ہم عجمیوں کے نزدیک ایک ہی ہوتے ہیں اس لئے اتنے قریب نہ ہوں تو شایدروانی اور بہتر ہو۔
یہ سننا تھا کہ بھالو کوُد کر یوں سامنے آیا
اور اک بھونچال کی مانند اُس نے سب کو چونکایا
یہاں یوں کی مناسبت سے کہ زیادہ فٹ لگ رہا ہے۔لہکن تکرار کی وجہ سے اور رکھا جاسکتا ہے ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ اُس کے خلاف آئے
یہاں بھی کہیں کے ساتھ کہ شاید زیادہ متناسب ہو
شکریہ محترم سید عاطف علی بھائی! تدوین کردی ہے۔
 
باب ششم : سیونی جھنڈ

اُدھر جب دیر گزری اور نہ کوئی سامنے آیا
جو دیکھا موگلی کو، بھیڑیوں کا جی بھی للچایا

عجب کیاتھا کہ اس بچے کو یونہی پھاڑ کھاتے وہ
عجب کیا تھا کہ ماما بھیڑیئے کا دِل دُکھاتے وہ

بگھیرا تیندوا اُس راہ سے گُذرا تو واں ٹھہرا
لگا پایا جو اُس نے بھیڑیوں کا راہ میں پہرا

تجسس غالب آیا اور وہ شامل ہوگیا اُس میں
جو یوں وہ کام آیا موگلی کے، اس تجسس میں

کہانی ساری سُن کر وہ بھی اس میدان میں آیا
اور اس بچے کے حق میں اِک نئی تجویز بھی لایا

کہا اِس جان کے بدلے تمہیں اِک جان دیتا ہوں
ابھی بھینسا کہیں پر مار کر میں چھوڑ آیا ہوں

یہ قانونی تقاضا اس طرح پورا کیا اُس نے
نیا اِک بھیڑیا ا ُس جھُنڈ کو یوں دے دیا اُس نے

خوشی سے پھول کر کُپا ہوئی ماما یہ سنتے ہی
ہنسی رُکتی نہ تھی ، یوں کھِل گئی تھی تھوتھنی اُس کی

یہاں پھر آؤ دیکھا اور نہ تاؤ اپنے بھالو نے
کہ جس کو خوش کیا تھا آنے والے اِس دیالو نے

بڑی ہی سادگی سے تیندوے کے وہ قریب آیا
اور اس کو گود میں لے کر اک ایسا ناچ دکھلایا

جسے دیکھا کیے بس دیر تک سب دیکھنے والے
بگھیرا سے بہت خوش تھے ، سبھی گورے، سبھی کالے

اکیلا نے یہ سارا ماجرا دیکھا تو یوں بولا
بہت کچھ سوچنے کے بعد اس نے اپنا منہ کھولا

یہ بچہ آج سے اک بھیڑیا ہے جھنڈ کا سُن لو
یہ میرا فیصلہ ہے، حکم ہے، میرا کہا، سُن لو
باب پنجم : بھالو

باب ہفتم :

ٌٌ ٌ​
 
آخری تدوین:
Top