ابن الوقت: بوائے!
ملازم: یس سر۔
ابن الوقت: کک کو بلاؤ۔
کک خاضر ہوا تو ابن الوقت نے پوچھا" آج کھانے میں کیا کیا ہے؟
باورچی: سوپ، مٹن چاپ، کٹ لس، آسٹن( آکس ٹنگ) ، بیل ریس (بوائل ریس)، پڈنگ۔
ابن الوقت" ان چیزوں میں کس میں شراب پڑتی ہے؟
باورچی: کسی میں نہیں مگر پڈنگ میں خمیر کے لئے شراب کا بھپارا دینا ہوتا ہے۔
ابن الوقت: پڈنگ نشہ لاتا ہے؟
باورچی: ذرہ نہیں۔ باورچی رخصت۔
حجتہ الاسلام: آپ نے دیکھا۔
ابن الوقت: کیا دیکھا؟ آپ کے سامنے باورچی کہہ نہیں گیا کہ پڈنگ نشہ نہیں لاتا۔ اسلام میں شراب کے حرام ہونے کی اصل وجہ نشہ ہے۔ جب نشہ نہیں تو پھر کیا حرج ہے اور اگر آپ کے نزدیک حرج ہے تو آپ پڈنگ نہ کھائیے۔
حجتہ السلام: مجھ پر خدانخواستہ ایسی کیا مصیبت پڑی ہے کہ اپنے گھر کا رزق طیب، لذیذ چھوڑ کا تمہارا پھیکا، مشتبہ بسا ہندا کھانا کھاؤں۔
ابن الوقت: یہ بلا کی توگرمی پڑ رہی ہے، آپ شہر میں جا کر بے فائدہ اپنی تندرستی کو خطرےمیں ڈالتے ہیں۔
حجتہ السلام: میری زندگی ایسی کونسی انوکھی زندگی ہے۔ آخر اتنا بڑا غدار شہر بستا ہے اور جو سب کا حال وہ میرا حال۔
ابن الوقت: آخر پھر ملاقات کی کیا صورت ہوگی؟
حجتہ الاسلام" تم تو میرے پاس آنے کا قصد مت کرنا۔ کیونکہ تمہارے دل میں آب و ہوا والے شہر کا پہلے ہی سے ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ کل ہے جمعہ ، مجھ کو فرصت ہونے کی نہین۔ پرسوں لوگوں سے ملنا ملانا ہوگا۔ انشاءاللہ اتوار کو دس بچے ساڑھے د بجے میں خود آؤں گا۔ اگر کوئی وجہ مانع نہ ہو، ذری اپنے داروغہ کو کل بعد مغرب میرے پاس بھیجنا۔ میں اس سے یہاں کے انگریزوں کے کچھ حالات دریاف کروں گا ور تمہارے بھی۔
فصل بست و پنجم
حجت الاسلام ساس سے ابن الوقت کے پاس ٹھہرنے
کا عذر کرتے ہیں
حجتہ الاسلام کے بے وقت گھر پہنچنے سے سب کو حیرت ہوئی۔ لوگ اس خیال سے کہ ابن الوقت کے پاس ٹھہریں گے کھاپی کر سو سلا رہے تھے۔ جوں اس نے گھر میں قدم رکھا ساس کو کہتے سنا کہ اے ہے۔ اگر کھانا بھی کھا کرن ہیں آئے تو اتنی رات گئے اب کیا ہواگا؟ خاگینہ بن سکتا ہے لیکن اس بلا کی گرمی پڑ رہی ہے اور راستے کی حرارت الگ، انڈے گرم آگ ، نوج کوئی کھائے، سویاں بنی ہوئی تیار ہیں رومالی میں اور بھننے میں بھی کسر نہیں رہی مگر آخر ہے تو میدا، حاشاللہ میں تو نہیں دوں گئی، کھچڑی پیاس بہت لگائے گی۔ اتنے میں تو داماد نے سامنے آکر سلام کے بعد چھوٹتے کے ساتھ ہی کہا کہ اماں جان بڑی زور کی بھوک لگ رہی ہے۔ بارے کچھ شامی کباب فیرنی کے خونچے بچوں کے لئے لگارکھے تھے، ٹوکری میں کچھ نان خطائیاں بچ گئی تھیں۔ سیب کا مریہ، اچار، گھر میں تھا۔ جلدی سے ماما نے توا رکھ پتلے پتلے دو تین پراٹھے پکادیے۔ غرض ایسے ناوقت بھی بات کی بات میں جو کھانا مہیا ہوگیا، ابن الوقت کے یہاں اہتمام سے بھی میسرن ہیں ہوتا۔ جتنی دیر داماد کھانا کھاتا رہا ساس پاس بیٹھی باتیں کیاکیں:"کیوں بیٹا راستے میں ایسی کہاں دیر لگی کہ تم کو یہ وقت ہوگیا؟ میں تو سمجھی تھی کہ تم کچھ دن رہے سے بھائی کے پاس پہنچ گئے ہوگے۔"
داماد: واقع میں، میں نے عصر کی نماز بھائی کی کوٹھی پر پڑھی اورمیرا ارادہ ان ہی کے پاس ٹھہرنے کا تھا۔
ساس:" پھر ایسی کیا بات ہوئی کہ تم اتنی رات گئے چل کھڑے ہوئے؟
داماد: اگر مجھ کو بھائی کے پاس ذری سیب بھی آسائش کی توقع ہوتی تو میں ہر گز نہ آتا اور یوں سمجھتا کہ سرائے میں نہ ٹھہرا ان ہی کے یہاں ٹھہرا سہی مگر وہاں تو مسلمان کے کھڑے ہونے تک کا ٹھکانا نہیں، ٹھہرنا اور رہنا تو دوکنار۔ عصر اور مغرب دو وقت کی نماز میں نے وہاں پڑھی، میرے دل کو تسلی نہیں کہ نماز ہوئی ہے۔ اب عشاء کے ساتھ دونوں کا اعادہ کروں گا۔ آدھ کوس کے گردے میں تو وہاں کہیں مسجد کا پتا نہیں۔ جماعت تو یوں گئی گزری ہوئی۔ بنگلے میں مارے تصویروں کے اتنی جگہ نہیں ایک کونے میں کوئی ایک شخص کھڑا ہو کر دو رکعت پڑھ لے۔ ناچار بر آمدے میں نماز پڑھی تو کسی مصیبت سے کہ کتے اوپر چلے آتے ہیں۔ دو تین کتے تو ایسے خونخوار اور ہیبت ناک تھے کہ اگر بھائی عین وقت پر نہ آن پہنچیں تو ضرور لپک کر میرا ٹینٹوالیں۔
ساس: دور پار ، تمہارے دشمنوں کا۔ پھر یہ لوگ مجھ سے کیا آ آ کر کہتے تھے کہ دشمنوں نے مارے جان کے بدنام کر رکھا ہے، جو ان کو بے دین کہے وہ خود بے دین۔
داماد: شروع میں نام لے کر تو کسی نے بھی کافر کہنے کا حکم نہیں اور بھائی ابن الوقت تو اپنے تیئں چوری چھپے بھی نہیں کھلے خزانے پکار پکار کر مسلمان کہتے ہیں اور مسلمان ہیں بھی مگر ان کا رہنا سہنا کھانا پینا، سب کچھ انگریزوں کا سا ہے، سر موفرق نہیں۔
ساس: اے ہے غدر کے دنوں میں کچھ ایسی گھڑی کا پیرا اس موئے فرنگی کا آیا تھا کہ بچے کی مت پھیردی۔ ہم سے تو ایسا چھپایا ایسا چھپایا کہ دن کو گورے شہر میں گھسے اور رات کو ہم نے جانا کہ سارے غدر ہمارے گھر میں فرنگی چھپا رہا۔ جس وقت فرنگی کو لائے تھے اگر ذرا بھی مجھ کو معلوم ہو تو میں اس کو کھڑا پانی نہ پینے دوں۔ خدا جانے کمبخت کہاں سے سے ہمارے گھر آمرا تھا۔ نہ آتا تو بچہ ہاتھ سے جاتا۔ آخر میرا صبر پڑا ہی پڑا۔ کسی کی آہ کا لینا اچھا نہیں ہوتا۔ خدا نے اس کے پیچھے ایسا روگ لگایا کہ سارے سارے دن اٹوانٹی کھٹوانٹی لئے پڑا رہتا تھا۔ آخر کو جاتے ہی بن پڑی۔ کالا منہ، خدا کرے پھر آنا نصیب نہ ہو۔
داماد: آپ اس انگریز کو ناحق کوستی ہیں۔ اس نے تو اتنا بڑا بھاری سلوک اس خاندان کے ساتھ کیا ہے کہ جس کی انتہاء نہیں۔ وہ اگر اس گھر میں آ کر نہ رہا ہوتا تو آج ساری عورتیں رانڈ ہو تیں ، تمام بچے یتیم ، محلے میں گدھوں کا ہل پھرگیا ہوتا، مال و اسباب کے نام کسی کو ایک پھوٹی کوڑی نہ ملتی۔ بھائی ابن الوقت کوئی دھود پیتے بچے تھے کہ بہکائے میں آگئے۔ پڑھے لکھے ، لائق، ہوشیار، ایک دم سے ڈپٹی کلکٹر کردئے گئے اور ڈپٹی کلکٹری کو ایسا سنبھالا کہ آج ڈپٹی کلکڑوں میں کوئی ان کا مدمقابل نہیں۔ ایسے شخص کو کون بہکاسکتا ہے اور وہ کویں کسی کے بہکائے میں آنے لگا ۔ وہ چاہے تو آپ ہزاروں کو بہکا کر چھوڑدے اور پھر کیا بہکائے میں آگئے؟ کرسٹان ہوگئے؟ انگریزوں کے مذہب کو تو اب ایسا لتاڑتے اور لتھیڑتے ہیں کہ ان ہی کا جی جانتا ہوگا۔ انگریز ان کو کیا بہکاتے وہ تو الٹے ان کی اس وضع سے جلتے اور خار کھاتے ہیں اور سارا جھگڑا تو اسی بات کا ہے۔ آج وہ ہندوستانی بن کر رہیں، صاحب کلکٹر سے صفائی کرادینے کا میرا ذمہ۔
ساس: پھر بیٹا تم ہی بھائی کو کچھ سمجھاؤ۔
داماد: میں تو ہزار دفعہ سمجھاؤں مگر کوئی سمجھنے والا بھی ہے؟ یہ جو صورت پیش آئی اس کا تو کسی کو خیال بھی نہ تھا مگر ہاں ، بھائی ابن الوقت کی غیر معمولی ذہانت اور بلند نظری دیکھ کر مجھ اچھی طرح سے یاد ہے بڑے حضرت فرمایا کرتے تھے کہ اس لڑکے کی حالت خطرناک ہے، یہ بڑا ہو کر نہیں معلوم کیا کرے گا!
ساس : "ابن صاحب مجھ سےکہہ گئے ہیں کہ وہ فرنگی ان کی ہوشیاری دیکھ کر لٹو ہوگیا تھا ور وہی ان کو اکسا کر لے گیا۔ اگر یہ ساتھ نہ دیں تو فرنگیوں کے لیے دلی کبھی نہ لی جائے۔ پھر میں یہی کہوں گی اس فرنگی نے میرے بچے کو کچھ کر دیا۔ خدا اس کو کھودے۔
داماد: ایک دم سے ڈپٹی کلکٹر کر دیا، جاگیردار کر دیا۔