دوبارہ سے پڑھئیے۔
عبدالصمد بھیا نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تھی کہ راستہ تو یاد ہے ،،، اس لئے ان سے پوچھا کہ وقت نہیں ملتا۔
ہم تو ہر وقت موجود ہوتے ہیں دماغ لڑانے کو بھی اور دماغ لگانے کو بھئ،
وعلیکم السلام
اچھی کوشش ہے۔ الفاظ کی درست ادائیگی اور تلفظ واقعی میں ابھی ایک مسئلہ ہیں۔
ایک ننھی سی کوشش یہ دیکھئیے ، ساتھی بھی شرمندہ ہوئے اور جام بھی۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor: نجانے کیونکر ہو جاتی ہے گڑ بڑ ۔
اچھی کوشش؟ کیا مطلب؟ کیا ابھی بھی میکوں صحیح سمجھ نہیں آئی؟
روفی بھیا کا ایک نمبر ہمیں دے کر پورے 100 کر دیجئیے۔
کہانی کی تو سمجھ آ گئی، جب اتنی سی بات سمجھ آ گئی کہ موجودہ عمر جو اس وقت عادل کی تھی ، بزرگ عادل اس عمر سے تیس سال بڑے تھے۔ ہم نے ابھی والی عمر کو موجودہ سمجھ لیا تھا تو ساری گڑ بڑ ہو گئی۔ :battingeyelashes:
ڑے ڑے دوسرا ہاتھ کا ہے کو استعمال نہ کرتے آپا۔ ہم نے بھی تو کاندھے کی چوٹ کے کارن دائیں کی بجائے بائیں ہاتھ سے لکھنا شروع کر دیا تھا نا وہ بھی دائیں ہاتھ کی سی اسپیڈ سے۔
ریختہ صفحہ 189
موجوداتِ عالم کے جس قدر خواص اور احوال اس پر منکشف ہوں، اُن سے دنیا کو آگاہ کرے۔ یا ایک طبیب کا فرض ہے کہ عقاقیر کے مَضّار و منافع سے بنی نوع کو تا بہ مقدور بے خبر نہ رہنے دے۔ یا ایک سیاح کا فرض ہے کہ انکشافاتِ جدیدہ سے اہلِ وطن کو مطلع کرے۔ اسی طرح شاعر کا فرض یہ ہونا چاہئیے کہ...
ریختہ صفحہ 188
یہی اصول ملحوظ رکھا ہے اور ہمیشہ ایسی زمینیں اختیار کی ہیں جن میں ہر قسم کے مضمون کی گنجائش ہو۔
قصیدہ۔۔قصیدہ بھی، اگر اُس کے معنی مطلق مدح و ذم کے لئے جائیں ، اور اُس کی بنیاد محض تقلیدی مضامین پر نہیں بلکہ شاعر کے سچے جوش اور ولولے پر ہو، تو شعر کی ایک نہایت ضروری صنف ہے۔ جس کے...
ریختہ صفحہ 187
مشّاق و ماہر استادوں کے سوا، عام شعرا کے قریب ناممکن کے ہو۔ ایسی زمینوں میں بڑا کمال شاعر کا یہ سمجھا جاتا ہے کہ قافیے اور ردیف میں جو منافرت ہو، وہ بہ ظاہر جاتی ہے۔ گویا تیل اور پانی کو ملایا جاتا ہے۔ ایسی غزلوں میں اور امیر خسرو کی ان مل میں کچھ تھوڑا ہی سا فرق معلوم ہوتا ہے۔...
ریختہ صفحہ 186
اس بات کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ شعر کے سر انجام دینے میں کوئی چیز ایسی مشکل نہیں جیسا مضمونِ شعر کے مناسب قافیہ بہم پہنچانا۔ اسی لئے جب کسی کو سخت دقت پیش آتی ہے، تو کہتے ہیں کہ اُس کا قافیہ تنگ ہو گیا۔ اسی قافیے کی مشکلات سے بچنے کے لیے یورپ کے شعرا نے آخر کار ایک بلینک درس یعنی...
ریختہ صفحہ 185
عجائب پرستی ہونے لگی اور خدا کا خیال جاتا رہا، اسی طرح ہمارے لٹریچر میں صنائعِ لفظی کی لَے بڑھتے بڑھتے ، آخر کار محض الفاظ پرستی باقی رہ گئی اور معنی کا خیال بالکل جاتا رہا۔ صنائع و بدائع کی پابندی ، دلی کے شعرا میں عموماًبہت کم پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہئیے کہ بالکل نہیں...