نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
عجب طرح رخ آئندگی کا رنگ اڑا
دیار ذات میں از خود گزشتگی ہی رہی
جون ایلیا
دیار
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق ومروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
علامہ اقبال
زندگی
ٹھہرے تو کہاں ٹھہرے آخر میری بینائی
ہر شخص تماشا ہے ہر شخص تمشائی
یہ حسن کا دھوکہ بھی دل کے لئے کافی تھا
چھونے کے لئے کب تھی مہتاب کی اونچائی
اسرار الحق
تماشا
ہم سخن کوئی نہیں ہے رازداں کوئی نہیں
ہو شریک آگہی جو وہ یہاں کوئی نہیں
دل کسے تو ڈھونڈتا وقت کی پرچھائی میں
ساعتیں نوحہ کناں ہیں رفتگاں کوئی نہیں
ساعتیں ،ساعت
یہ جو دھواں دھواں سا ہے دشت گماں کے آس پاس
کیا کوئی آگ بجھ گئی ہے سرحد جاں کے آس پاس
شور ہوائے شام غم یوں تو کہاں کہاں نہیں
سنیے تو بس سنائی دے درد نہاں کے آس پاس
آگ