بلند ہاتھ میں کاسہ ہے دستِ خالی کا
حرم کی سمت سفر ہے یہ مجھ سوالی کا
کبھی کبھی میری آنکھوں میں آ کے دیکھتی ہے
یہ اشتیاق عجب ہے لہو کی لالی کا
خیال بس میں نہیں لفظ دسترس میں نہیں
قصیدہ کیسے کہوں پیکرِ مثالی کا
مجال کیا کہ سمندر کو میں سمیٹ سکوں
کہ میرا ظرف ہے ٹوٹی ہوئی پیالی کا
ملالِ بے...