غزل
راہ دُشوار جس قدر ہوگی
جُستُجو اور مُعتبر ہوگی
آدمی آدمی پہ ہنستا ہے
اور کیا ذِلَّتِ بشر ہوگی
پتّھروں پر بھی حرف آئے گا
جب کوئی شاخ بے ثمر ہوگی
جاگ کر بھی نہ لوگ جاگیں گے
زندگی خواب میں بسر ہوگی
حُسن بڑھ جائےگا تکلّم کا
جس قدر بات مُختصر ہوگی
اعجاز رحمانی
غزل
بے اعتناعی کی بڑھتی ہُوئی سی یہ تابی
کہیں نہ جھونک دے ہم کو بجنگِ اعصابی
گئی نظر سے نہ رُخ کی تِری وہ مہتابی
لیے ہُوں وصل کی دِل میں وہ اب بھی بیتابی
مَیں پُھول بن کے اگر بُت سے اِک لِپٹ بھی گیا
زیادہ دِن تو میّسر رہی نہ شادابی
مِری نمُود و نمائش ہے خاک ہی سے ، مگر
سکُھا کے خاک...
عین ہنگامِ طَرَب، رُوحِ طَرَب تھرّا گئی
دفعتاََ دِل کے اُفَق پر اِک گھٹا سی چھا گئی
ایک آغوشِ تمنّا کا تقاضا دیکھ کر
ایک دِل کی سرد مِہری بھی مجھے یاد آگئی
مجاؔز لکھنوی
غزل
پردے میں ہر آواز کے شامِل تو وہی ہے
ہم لا کھ بدل جائیں، مگر دِل تو وہی ہے
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شِیرِیں !
محِفل ہو کوئی، رَونَقِ محِفل تو وہی ہے
محسُوس جو ہوتا ہے، دِکھائی نہیں دیتا
دِل اور نظر میں حدِ فاصِل تو وہی ہے
ہر چند تِرے لُطف سے محرُوم نہیں ہم
لیکن دلِ بیتاب کی مُشکل تو وہی...
موضوعِ سُخن ہے وہی افسانۂ شیریں
محِفل ہو کوئی، رونقِ محفِل تو وہی ہے
وہ رنگ ، وہ آواز، وہ سج اور وہ صُورت
سچ کہتے ہو تم، پیار کے قابِل تو وہی ہے
ناصؔر کاظمی
کیا یک دِلی ہے، ہم نے جو کہہ بھیجا اے نظیؔر !
تم بِن ہمارے دِل کو ستاتی ہے چاندنی
سُن کر پیامبر سے کہا جاکے تُو یہ کہہ !
البتہ اپنا جی بھی کُڑھاتی ہے چاندنی
گر ہم بغیر واںشبِ مہ سے ہو تم خفا
تو تم بغیر یاں کسے بھاتی ہے چاندنی
نظؔیر اکبر آبادی
تشکّر میری ٹائپو کی نشاندہی کے لئے :)
پیار، محبّت درست کردیا ہے
دریچہ ، صوت میں دریچے ہی ہے ہوسکتا ہے یوں ہی ہو
اب
منتظمین سرِ فہرست 'و' کو '،' سے بدل کر درست کردیں تو وہاں بھی درست ہو جائے
شکریہ
:)
بہرا بَنے پہ کم نہیں شِیرِیں سُخن کی داد
ہو طبع میری قندِ مکرّر سے خُوب شاد
غزل
نہیں کہ پیار ، محبّت میں کاربند نہیں
بس اُس کی باتوں میں پہلے جو تھی وہ قند نہیں
نظر میں میری ہو خاطر سے کیوں گزند نہیں
خیال و فکر تک اُس کے ذرا بُلند نہیں
کب اپنے خواب و تمنّا میں کامیاب رہے
ہم ایک وہ جو کسی مد میں بہرہ مند نہیں
تمام زیور و پازیب ہم دِلا تو چکے!
ملال پِھر بھی ،کہ...