صبر وحشت اثر نہ ہو جائے
کہیں صحرا بھی گھر نہ ہو جائے
رشک پیغام ہے عناں کش دل
نامہ بر راہبر نہ ہو جائے
دیکھو مت دیکھیو کہ آئینہ
غش تمھیں دیکھ کر نہ ہو جائے
ہجر پردہ نشیں میں مرتے ہیں
زندگی پردہء در نہ ہو جائے
کثرتِ سجدہ سے وہ نقشِ قدم
کہیں پامال سر نہ ہو جائے
میرے تغییرِ رنگ کو مت دیکھ
تجھ...