بے ضبطِ فُغاں راز نہاں ہو نہیں سکتا
اور تجھ سے دِلا! ضبط فُغاں ہو نہیں سکتا
ہم چشم مِری چشم سے، ہو ابر تو کیونکر !
اِس طرح وہ خُوننابہ فشاں ہو نہیں سکتا
بہادر شاہ ظفؔر
غزل
وہ جی گیا جو عِشق میں جی سے گُزر گیا
عیسیٰ کو ہو نَوِید کہ بیمار مر گیا
آزاد کُچھ ہُوئے ہیں اَسِیرانِ زندگی
یعنی جمالِ یار کا صدقہ اُتر گیا
دُنیا میں حالِ آمد و رفتِ بَشر نہ پُوچھ
بے اختیار آ کے رہا ، بے خبر گیا
شاید کہ شام ِہجر کے مارے بھی جی اُٹھیں
صُبحِ بہار ِحشر کا چہرہ اُتر گیا
آیا...
غزل
اُس کے غم کو، غمِ ہستی تو مِرے دِل نہ بنا
زِیست مُشکل ہے اِسے اور بھی مُشکل نہ بنا
تُو بھی محدُود نہ ہو، مجھ کو بھی محدُود نہ کر
اپنے نقشِ کفِ پا کو مِری منزِل نہ بنا
اور بڑھ جائے گی وِیرانیِ دل جانِ جہاں !
میری خلوت گہہِ خاموش کو محفِل نہ بنا
دِل کے ہر کھیل میں ہوتا ہے بہت جاں کا...