بُنیادِ اِفتراق ہیں دِین و زبان و مُلک!
اِن جُملہ فاصلوں کو مِٹاتے رہینگے ہم
اِس ہولناک شِدّتِ عُسرت کے باوجُود!
روز اِک نیا خزانہ لُٹاتے رہیں گے ہم
جوؔش ملیح آبادی
پِھر نگاہِ شوق کی گرمی ہے ، اور رُوئے نگار
پِھر عرق آلود اِک کافر کی پیشانی ہے آج
لرزشِ لب میں شراب و شعر کا طُوفان ہے
جُنبشِ مژگاں میں افسُونِ غزل خوانی ہے آج
مجاؔز لکھنوی
غزل
رَہِ شوق سے، اب ہَٹا چاہتا ہُوں
کشِش حُسن کی دیکھنا چاہتا ہُوں
کوئی دِل سا درد آشنا چاہتاہُوں
رَہِ عِشق میں رہنُما چاہتا ہُوں
تجھی سے تجھے چِھیننا چاہتا ہُوں
یہ کیا چاہتا ہُوں، یہ کیا چاہتا ہُوں
خطاؤں پہ، جو مجھ کو مائل کرے پھر
سزا ، اور ایسی سزا چاہتا ہُوں
وہ مخمُور نظریں، وہ مدہوش...
غزل
تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں
کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں
ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں
اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں
سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا
ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
تمھاری ذات، مِری ہر خوشی میں حائل تھی
تمھارے ساتھ مِری رُوح تک بھی گھائل تھی
کسی نے سچ بھی کہا تو، کہاں یقین کِیا !
کہے تمھارے ہر اِک جُھوٹ سے یُوں قائل تھی
شفیق خلشؔ