غزل
عذابِ زِیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
مِری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں
بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دَم سے تھیں شُنوائیاں، نہیں جاتیں
گو ایک عُمر جُدائی میں ہو گئی ہے بَسَر
خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں
مُراد دِل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں...
منصوُر ہر اِک دَور میں بیدار ہُوا ہے
افسانہ کہِیں ختم سَر ِدار ہُوا ہے
مُدّت میں جو اُس شوخ کا دِیدار ہُوا ہے
تا دیر ، سمجھنا مجھے دُشوار ہُوا ہے
بے نام و نِشاں ایسا بھی اِک وار ہُوا ہے
ہر عزم، ہر اِک حوصلہ بیکار ہُوا ہے
کیا کیا نہ تپایا ہے اِسے آتش ِغم نے
تب جا کے یہ دِل شُعلۂ بیدار ہُوا...