غزل
شرح ِبے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی، دِل کی مدارات نہ ہونے پائی
پِھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا !
پِھروہی بات، جو اثبات نہ ہونے پائی
پِھر وہ پروانے جنھیں اذنِ شہادت نہ مِلا
پِھر وہ شمعیں، کہ جنھیں رات نہ ہونے پائی
پِھر وہی جاں بہ لَبی، لذَّتِ مے سے پہلے!
پِھر وہ محفِل، جو...
شرح ِبے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی، دِل کی مدارات نہ ہونے پائی
پِھر وہی وعدہ، جو اِقرار نہ ہونے پایا
پِھر، وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
فیض احمد فیؔض
غزل
جُھوٹے اِقرار سے اِنکار اچھّا
تم سے تو مَیں ہی گُنہگار اچھّا
حبس چَھٹ جائے، دِیا جلتا رَہے!
گھر بس اِتنا ہی ہَوا دار اچھّا
عجز خواری ہے ، نہ ظاہر داری
عجز کو چاہئے معیار اچھّا
یہ عمارت ہے اِسی واسطے خُوب
اِس عمارت کا تھا معمار اچھّا
اب بھی اِک خدمتِ شہ خصلت میں!
شام کو جمتا ہے...
اِک سُخن مُطربِ زیبا ، کہ سُلگ اُٹّھے بدن !
اِک قدح ساقئِ مہوش، جو کرے ہوش تمام
ذکرِ صُبحے، کہ رُخِ یار سے رنگِیں تھا چَمن
یادِ شبہاکہ، تنِ یار تھا آغوشِ تمام
فیض احمد فیضؔ