بادِ صبا توں عُقدہ کُشا اُس کی ہو جیوں !
مجھ سا گرفتہ دِل اگر آوے نظر کہیں
باور اگر تجھے نہیں آتا توں دیکھ لے !
آنسو کہیں ڈھلک گئے، لختِ جگر کہیں
اشرف علی خاں فُغاؔں
خط دیجیو چُھپا کے، مِلے وہ اگر کہیں
لیجو نہ میرا نام تلک ، نامہ بر کہیں
رونا جہاں تلک تھا مِری جان رَو چُکا !
مطلق نہیں ہے چشم میں، نم کا اثر کہیں
اشرف علی خاں فُغاؔں
نہ پُوچھو کہ ، دِل شاد ہے یا حزیں ہے
نہیں یہ بھی معلوُم، ہے یا نہیں ہے
نہیں وہ رہے ہم سے تم، جو تھے پہلے !
زمانے کو تو، کُچھ تبدّل نہیں ہے
شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ
شفیق خلش
غزل
سائے ہیں بادلوں کے وہ، چَھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا
کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا
کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا
سُوجھے کوئی نہ بات ہَمَیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں...
غزل
چہرۂ وقت سے اُٹّھے گا نہ پردا کب تک
پسِ اِمروز رہے گا، رُخِ فردا کب تک
اُس کی آنکھوں میں نمی ہے، مِرے ہونٹوں پہ ہنسی
میرے اللہ! یہ نیرنگِ تماشا کب تک
یہ تغافُل ، یہ تجاہل ، یہ سِتم ، یہ بیداد
کب تک ، اے خانہ براندازِ تمنّا !کب تک
بن گیا گردشِ دَوراں کا نِشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ...