میرے ساتھ بالکل الٹا حساب ہے، میں ہر گورے کو جو میرا کھانا چکھنا چاہے، منع ہی کرتا ہوں اور 2،3 دفعہ پوچھ لیتا ہوں کہ بھائی اپنی مرضی سےکھا رہے ہو، بعد میں چلانا مت۔ لیکن جو خود کھانے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ واقعی کھا بھی لیتا ہے :)
ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا تھا جب ایک جرمن دوست نے کہا تھا کہ میں مرچ والا کھانا کھا سکتا ہوں۔ تو اس نے شرط لگا کر، قیمہ مٹر کے اوپر سجاوٹ کے لیے رکھی ہری مرچ اٹھا کر کھا لی تھی۔ اتنی برداشت کا مظاہرہ میں نےکبھی نہیں دیکھا کہ اس نے آواز تک نہ نکالی اور نہ ہی اس کے چہرے کی رنگت...
دیہاتی آدمی کوشش ہی نہیں کرے گا بہنا جی، یہ تو بیچارے گورے ہیں جن کو جیسے کہو ویسے کر لیتے ہیں۔ مجھے خیال آ رہا ہے کہ اگر میں اسے کہتا کہ یہ ہماری خاص ڈش ہے جو کھڑے ہو کر کھائی جاتی ہے تو بیچارہ کھڑا ہو کر کھاتا اور اف تک نہ کرتا :rollingonthefloor:
تو جناب یہ کوئی طنز و مزاح سے بھرپور تحریر تو نہیں لیکن میرا اپنے ساتھ بیتے کچھ دیرپہلے کے واقعے کو شریکِ محفل کرنے کا دل چاہا تو یہاں یہ دھاگہ کھول رہا ہوں۔ اگر کسی اور صاحب کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا ہو تو ضرور سنائیے گا۔
ہوا کچھ یوں کہ بیگم اور بیٹے کے پاکستان چلے جانے کے بعد دو کمروں کے گھر...
چاہے ایسے نہ بھی کوئی منصوبے پہ لگاتے، اپنے پاس ہی رکھتے یہ پیسہ لیکن اتنے طالبعلموں اور طالبات کا وقت ضائع کیا، پورے شہر کی ٹریفک روکی ہو گی، اور سب سے بڑھ کر بد نظمی پھیلی ہو گی کیونکہ ہمارے نوجوان ایسے موقعوں کے ہی تو انتظار میں رہتے ہیں :)
لیکن میں ایسے کسی ریکارڈ کے بارے میں یہاں کسی کو بتا تو نہیں سکتا نا کہ دیکھو ہمارے پاکستانیوں کا ریکارڈ۔ وہ تو طنزیہ ہنسیں گے نا۔
میں تو شرمندہ شرمندہ پھروں گا اس ریکارڈ کا بتا کر بھی کسی کو :(
چونکہ میں کسی نتیجے پر پہنچا نہیں ہوں بلکہ ابھی سوچنا شروع ہی نہیں کیا تو مشوروں کی تو بحرحال ضرورت ہے۔ لہٰذا میں کچھ سوچتا ہوں آپ کے مشورے کے بارے میں بھی :)
میں دفتر میں بیٹھا زبردستی ہنسی روکتا ہوں اور مسکرانے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ خاص طور پر جب قیصرانی بھائی جگتیں (اپنی تئیں گہری اور سنجیدہ باتیں شاید) مارتے ہیں :rollingonthefloor: