غزل
(حسن بریلوی)
حُسن جب مقتل کی جانب تیغِ برّاں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بہ جُولاں لے چلا
چُھٹ گیا دامن کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے
لے چلا دل چھین کر وہ دشمنِ جاں لے چلا
آرزوئے دیدِ جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دیدِ جاناں لے چلا
بے مروّت ناوک افگن آفریں صد آفریں
دل کا دل زخمی...
غزل
(پنڈت رتن پنڈوری)
جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے
الگ نہیں ہیں تو پھر کس کی آرزو کرتے
ملا نہ ہم کو کبھی عرضِ حال کا موقع
زباں نہ چلتی تو آنکھوں سے گفتگو کرتے
اگر یہ جانتے ہم بھی انہیں کی صورت ہیں
کمالِ شوق سے اپنی ہی آرزو کرتے
دلِ حزیں کے مکیں تو اگر صدا دیتا
تری تلاش کبھی ہم نہ کُو بہ...
غزل
(رئیس امروہوی)
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارا مرے عقب میں چلا
آگے آگے کوئی بگولہ سا
عالمِ مستی و طرب میں چلا
میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا
اور کبھی شدتِ غضب میں چلا
نہیں کھلتا کہ...
تعارفِ شاعر:
سید محمد مہدی المعروف رئیس امروہوی۔ برِ صغیر کے بلند پایہ شاعر، ممتاز صحافی اور ماہررموزِ علوم تھے۔ 12 ستمبر 1914 ء کو یوپی کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد 19 اکتوبر 1947ء کو ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور روزنامہ جنگ سے منسلک ہو گئے۔
رئیس امروہوی کی تصانیف درج ذیل ہیں...
غزل
(رئیس امروہوی)
صبحِ نَو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے
اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے
صدمہء زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیس
بخدا یہ نہ ترے درد کے درماں ہوں گے
میری وَحشت میں ابھی اور ترقی ہوگی
تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے
آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات
ہم ابھی اور اسیرِ غمِ...
جاڑے
(ساغر خیامی)
ایسی سردی نہ پڑی ایسے نہ دیکھے جاڑے
دو بجے دن کو اذاں دیتے تھے مرغ سارے
وہ گھٹا ٹوپ نظر آتے تھے دن کو تارے
سرد لہروں سے جمے جاتے تھے مے کے پیالے
ایک شاعر نے کہا چیخ کے ساغر بھائی
عمر میں پہلے پہل چمچے سے چائے کھائی
آگ چھونے سے بھی ہاتھوں میں نمی لگتی تھی
سات کپڑوں میں بھی...
غزل
(خواجہ عزیز الحسن مجذوب)
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
ایک تم سے کیا محبت ہو گئی
ساری دنیا سے عداوت ہو گئی
یاس ہی اس دل کی فطرت ہوگئی
آرزو جو کی وہ حسرت ہو گئی
جو مری ہونی تھی حالت ہو گئی
خیر اک دنیا کو عبرت ہو گئی
دل میں وہ داغوں کی کثرت ہو گئی
رُونما اک شان...
غزل
(ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی مرحوم و مغفور رحمتہ اللہ علیہ)
مت پوچھ دل کی باتیں وہ دل کہاں ہے ہم میں
اُس تخم بے نشاں کا حاصل کہاں ہے ہم میں
موجوں کی زد میں آئی جب کشتیِ تعیّن
بحرِ فنا پکارا ساحل کہاں ہے ہم میں
خارج نے کی ہے پیدا تمثال آئینے میں
جو ہم سے ہے نمایاں داخل کہاں ہے ہم...
غزل
(ساغر صدیقی)
جب سے دیکھا پَری جمالوں کو
مَوت سی آ گئی خیالوں کو
دیکھ تشنہ لبی کی بات نہ کر
آگ لگ جائے گی پیالوں کو
پھر اُفق سے کِسی نے دیکھا ہے
مُسکرا کر خراب حالوں کو
فیض پہنچا ہے بارہا ساقی
تیرے مستوں سے اِن شوالوں کو
دونوں عالم پہ سرفرازی کا
ناز ہے تیرے پائمالوں کو
اس اندھیروں کے عہد...
غزل
(ساغر صدیقی)
ہر شے ہے پر ملال بڑی تیز دھوپ ہے
ہر لب پہ ہے سوال بڑی تیز دھوپ ہے
چکرا کے گر نہ جاؤں میں اس تیز دھوپ میں
مجھ کو ذرا سنبھال بڑی تیز دھوپ ہے
دے حکم بادلوں کو خیاباں نشیں ہوں میں
جام و سبو اچھال بڑی تیز دھوپ ہے
ممکن ہے ابر رحمت یزداں برس پڑے
زلفوں کی چھاؤں ڈال بڑی تیز دھوپ ہے...
غزل
(ساغر صدیقی)
نظر نظر بیقرار سی ہے نفس نفس پر اسرار سا ہے
میں جانتا ہوں کہ تم نہ آؤ گے پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
مرے عزیزو! میرے رفیقو! چلو کوئی داستان چھیڑو
غم زمانہ کی بات چھوڑو یہ غم تو اب سازگار سا ہے
وہی فسر دہ سا رنگ محفل وہی ترا ایک عام جلوہ
مری نگاہوں میں بار سا تھا مری نگاہوں میں...
غزل کی پسندیدگی کے لیئے تمام محفلین کا شکریہ۔
غزل
(ساغر صدیقی)
میں تلخیء حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام، پریشان تھی زلف یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں، کوئی...