نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں آن بیٹھے ہیں
خُدا کرے، وہ حقِیقت میں ہم کو ہوں حاصِل
جنھیں، ہم اپناتصوّر میں مان بیٹھے ہیں
شفیق خلؔش
میرے رشکِ قمر، تو نے پہلی نظر، جب نظر سے مِلائی مزا آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزا آ گیا
جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مُسکرائی مزہ آگیا
چاند کے سائے میں اے مِرے ساقیا! تُو نے ایسی پِلائی مزا آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رِنداں میں ساغر کھنکنے لگے...
اِلتجا
کہاں ہو، کہاں ہو،
نئی صُبح کی مہرباں نرم کِرنوں
مِرا جسم ، مجھ سے بغاوت پہ آمادہ ہے
کانپتی ہے مِری رُوح
آؤ بچاؤ
مجھے شب کے زِنداں سے باہر نکالو
مَیں دِن کے سمندر کی گہرائیاں ناپنا چاہتاہُوں !
شہریاؔر
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر...
بہت بسیط ہے دشتِ جفا کی تنہائی
قریب و دُور کوئی آہُوئے وفا بھی نہیں
مجھے تو عہد کا آشوب کر گیا پتّھر
میں درد مند کہاں، درد آشنا بھی نہیں
عارف عبدالمتین