غالب کی اس غزل میں مطلع ملاحظہ فرمائیں:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا
جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی...