نہیں ہو پاس بھی ہو پاس تم مگر میرے
وہ اور بات تھی ہوتے جو تم اگر میرے
رہینِ دِل ہو تو ہر فکر، ہر خیال میں تم
رہے ہو تم ہی تو ہر راہ ہمسفر میرے
شفیق خلؔش
سِراؔج اورنگ آبادی
جاناں پہ جی نثار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
اُس راہ میں غُبار ہُوا کیا بَجا ہُوا
مُدّت سے رازِ عِشق مِرے پر عیاں نہ تھا
یہ بَھید آشکار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
تازے کِھلے ہیں داغ کے گُل، دِل کے باغ میں !
پِھر موسمِ بہار ہُوا، کیا بَجا ہُوا
دِل تجھ پری کی آگ میں سِیماب کی مثال
آخر کو...
ہر چند مِری قوتِ گُفتار ہے محبُوس
خاموش مگر طبعِ خود آرا نہیں ہوتی
معمورۂ احساس میں ہے حشر سا برپا
انسان کی تذلِیل گوارا نہیں ہوتی
نالاں ہُوں میں بیداریِ احساس کے ہاتھوں
دُنیا مِرے افکار کی دُنیا نہیں ہوتی
بیگانہ صِفت جادۂ منزِل سے گُزر جا
ہر چیز سزاوارِ نظارا نہیں ہوتی
فطرت کی مشیّت...