نئی آبادی
سنبھل سنبھل کے چلے دوستانِ عہدِ طرَب
کوئی قدیم رفاقت گلے نہ پڑ جائے
ستم زدوں کی محبّت گلے نہ پڑ جائے
کہِیں پُکار نہ لے درد کی کوئی چِلمن
کہِیں خلُوص کے شُعلے پکڑ نہ لیں دامن
اُتر نہ جائے رُخِ دست گیر کا غازہ
لِپٹ نہ جائے قدم سے وفا کا دروازہ
دیارِ غم کی صداقت گلے نہ پڑ جائے
اِدھر...