دستور
کل رات کو محرابِ خرابات تھی روشن
اشعار کے حلقے میں تھی آیات کی آمد
اربابِ حکایت نے سجائی تھی ادب سے
افکار کے قالین پہ اقوال کی مسند
اخلاص کے رشتوں پہ چھلکتے تھے نئے جام
با وضع قدیمانۂ اخلاقِ اب و جد
رقصندہ و رخشندہ و تابندہ و پُرکار
جوّالہ و قتّالہ و سوزندہ و سرمد
ہر ذرّہ گراں مایہ...