کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اُجڑتی ہے، ایک سمت بستی ہے
بے دلوں کی ہستی کیا، جیتے ہیں نہ مرتے ہیں
خواب ہے نہ بیداری، ہوش ہے نہ مستی ہے
کیمیائے دل کیا ہے، خاک ہے مگر کیسی؟
لیجیے تو مہنگی ہے، بیچیے تو سستی ہے
خضرِ منزل اپنا ہوں، اپنی راہ چلتا ہوں
میرے حال پر دنیا، کیا سمجھ کے ہنستی...