ٹیگ کرنے کا بہت شکریہ! میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا کہ کس سلسلے میں مدد درکار ہے ۔ وضاحت فرمائیے گا ۔
اللہ کریم آپ کی مدد فرمائے، ہر مشکل کو دور فرمائے ۔ ہر مرض سے شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے ۔ تمام دوستوں کو اپنی امان میں رکھے! آمین ۔
شمع کو تمام معتبر اردو لغات نے بر وزن فاع ہی درج کیا ہے ۔ سید احمد دہلوی نے فرہنگ میں جو اشعار سند میں لکھے ہیں ان سب میں شمع بروزن فاع ہے ۔ نیز سید صاحب نے تو یہ وضاحت بھی درج کی ہے: "یہ فقط عربی میں بہ فتح اول و دوم موم کے معنی میں آتا ہے ۔ مگر اختلاطِ عرب و عجم وغیرہٗ سے بہ سکون ثانی مستعل...
امجد صاحب ، اس آنلائن لغت میں ٹائپنگ کی تو بے تحاشہ اغلاط ہیں ۔ شاید ہی کوئی اندراج غلطی سے خالی ہو ۔ اگر لفظ میں غلطی نہیں ہے تو اسناد اور حوالہ جات میں متعدد ٹائپو ہوتے ہیں اور اکثر مضحکہ خیز ہوتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ لغت ٹائپ کروانے کے بعد اس کی پروف خوانی سرے سے کی ہی نہیں گئی اور اسے یونہی...
عاطف بھائی ، مجھے تو امجد علی چیمہ صاحب والے ربط پر بھی "مِیں" برسنا ہی سنائی دے رہا تھا ۔ اب آپ کے مراسلے کے بعد دوبارہ جاکر اس کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ڈیسک ٹاپ پر مینہ کی فہرست کا جو ربط کھلتا ہے اس کےشروع میں مینہ برسنا دو دفعہ لکھا ہوا ہے اور اس کے بعد مینہ کے دیگر محاورات لکھے ہوئے ہیں...
لگ رہا ہے کہ ہم لوگ شاید املا اور تلفظ کے دو الگ الگ معاملات کو خلط ملط کررہے ہیں۔ مینہ اور مینھ دونوں املا رائج رہے ہیں اور اسی لئے دونوں بجا طور پر لغت میں موجود ہیں۔ اگرچہ معیاری املا مینھ ہونا چاہئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک لفظ کے چار املا مونہہ، مونھ، منہ اور منھ ملتے ہیں ۔ ان تمام الفاظ...
راحل بھائی ، ممکن ہے ایسا ہی ہو ۔ لیکن لفظ کے آگے یہ وضاحت تو کی جانی چاہیئے کہ یہ غلط العام ہے یا فصیح ۔ ورنہ لغت کا پھر کیا فائدہ۔ ایسے تو طالب علم کے گمراہ ہونے کا خدشہ ہے۔
عاطف بھائی ، سن کر ہی جواب دیا تھا ۔ خاتون اس لفظ میں یا کو یائے معروف پڑھ رہی ہیں ۔ مینہ کو بروزن چِیں پڑھا ہے جبکہ یہاں آواز یائے معروف کی نہیں بلکہ یائے مجہول کے قریب کی ہے ۔
"یا" اردو میں دو طرح کی ہے ۔ چھوٹی یا (ی) جسے یائے معروف اور یائے تحتانی بھی کہا جاتا ہے اور بڑی یا (ے) جسے یائے مجہول اور یائے معکوس بھی کہا جاتا ہے ۔ اردو کے ابتدائی دور میں ان دونوں کی کتابت میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا تھا ۔ اکثر اوقات بڑی یا کو بھی "ی" لکھا جاتا تھا اور پڑھنے والا...
بچپن اور لڑکپن میں تو جو لکھی ہوئی چیز سامنے آجائے وہ پڑھا کرتا تھا ۔ حد یہ کہ بازار سے گزرتے ہوئے تمام دکانوں کے سائن بورڈ بھی پڑھ ڈالتا تھا ۔ :D
جب شعور آیا (؟) تو مطالعہ میں تخصیص برتنے لگا ۔ بالکل آپ ہی کی سی عادت ہے میری بھی ۔ جو کتابیں یا تحریریں پسند ہیں وہ بار بار پڑھتا ہوں ۔ دیوانِ غالب...
جن خواتین و حضرات نے میٹھی زبان پنجابی میں تین مصرعے یا ٹپے لکھے ہیں وہ سب کے سب باؤنسر کی طرح ٹپّا کھاکے میرے سر پر سے گزر گئے۔ :)
اگر ترجمہ بھی لکھ دیا جائے تو مجھ جیسے ناخواندہ لوگوں کا بھلا ہوجائے گا ۔:)
ان تمام محبتانہ انتسابات کے کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ! یقیناً ان اشعار میں غلو کا عنصر آپ سب کے خلوصِ دل کا غماز ہے ۔ اللہ کریم آپ بہنوں اور بیٹیوں کوآخری سانس تک اپنی عافیت میں رکھے، دین و دنیا کی تمام نعمتیں عطا فرمائے اور انہیں ہمیشہ بے زوال رکھے۔ آمین !