تم سے ملنا تھا کیے پھر سے بہانے آئے
زخم کا داغ بنا ، تجھ کو دکھانے آئے
اک مدعو نامہ لئے دوستوں کی مجلس کا
بڑی امید سے ھم، تجھ کو بلانے آئے
جی ٹھہرتا ہی نہیں تھا کسی کل بھی پاگل
جی نے بے چین کیا، قصّّے سنانے آئے
کچھ نیا سوچ کے رکھنا ہے تمہاری خاطر
کوئ آفت ہے نئی ، دوست پرانے آئے
ایک تُو ہے...