حقیقت کوفسانہ کر گیا ہے
مجھے وہ یوں دوانہ کر گیا ہے
مِرے ہی کام کا وہ حصہ بن کر
سخن میں اب ٹھکانہ کر گیا ہے
یہ دل تو تھا مرا ویرانہ لیکن
اِسے وہ آشیانہ کر گیا ہے
کسی کے راستے میں ہی نہیں تھا
وہی در آستانہ کر گیا ہے
تکبُّر سے بھرا تھا ذہن اظہر
اُسے وہ عاجزانہ کر گیا ہے
اُستاد...