جو یاد میں باقی ہے نگاہوں میں سمایا ہے
اک دستِ حنائی ہے اور شام کا سایا ہے
کیا تجھ کو بتائیں ہم اے ہمدمِ دیرینہ
یادوں سے تری ہم نے کیا لطف اٹھایا ہے
جینے کے بہانے تو پہلے بھی ہزاروں تھے
جینے کا مزا تیری چاہت ہی سے آیا ہے
وہ پیکرِ رعنائی دیکھا تو کہا دل نے
فرصت سے نظارہ یہ قدرت نے بنایا ہے...