کوئی تصوِیر مُکمل نہیں ہونے پاتی !
دُھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے
پہلے بھر دیتے ہیں سامانِ دوعالَم دِل میں
پھر کسی شے کی تمنّا، نہیں رہنے دیتے
احمد مشتاؔق
دِل میں ہجرت کے، نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش
بے اثر تیرے کِیے سارے عمل ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش
شفیق خلؔش
ہر شے میں دیکھتا ہُوں مَیں رنگِ بہار اب !
آئی جہان بھر کی یہ چاہت تمہی سے ہے
لو آج تم سے کہتا ہُوں دِل میں چُھپائی بات !
جو خود سے بڑھ کے ہے، وہ محبّت تمہی سے ہے
شفیق خلؔش
غزل
گُھپ اندھیرے میں چُھپے سُوئے بنوں کے اور سے
گیت برکھا کے سُنو ، رنگوں میں ڈُوبے مور سے
شام ہوتے ہی دِلوں کی بے کلی بڑھنے لگی
ڈررہی ہیں گوریاں چلتی ہَوا کے زور سے
رات کے سُنسان گُنبد میں رچی ہے راس سی
پہرے داروں کی صداؤں کے طلِسمی شور سے
لاکھ پلکوں کو جُھکاؤ ، لاکھ گھونگھٹ میں چُھپو...
غزل
داؔغ دہلوی
دِل گیا اُس نے لِیا ہم کیا کریں
جانے والی چیز کا غم کیا کریں
ہم نے مرکر ہجر میں پائی شفا
ایسے اچّھوں کا وہ ماتم کیا کریں
اپنے ہی غم سے نہیں مِلتی نِجات !
اِس بِنا پر، فِکرِ عالَم کیا کریں
ایک ساغر پر ہے اپنی زندگی !
رفتہ رفتہ اِس سے بھی کم کیا کریں
کرچُکے سب اپنی اپنی...