دوری
مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،
تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تُو،
وہ پہلی شبِ مہ شبِ ماہِ دو نیم بن جائے گی
جس طرح سازِ کہنہ کے تارِ شکستہ کے دونوں سرے
دو افق کے کناروں کے مانند
بس دور ہی دور سے تھرتھراتے ہیں اور پاس آتے نہیں ہیں
نہ وہ راز کی بات ہونٹوں پہ لاتے ہیں
جس نے مغنّی کو دورِ زماں...