نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    بہار آئی بہار آئی تو جیسے یک بار لَوٹ آئے ہیں پھر عدم سے وہ خواب سارے، شباب سارے جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے نِکھر گئے ہیں گلاب سارے جو تیری یادوں سے مُشکبو ہیں جو تیرے عُشّاق کا لہو ہیں اُبل پڑے ہیں عذاب سارے ملالِ احوالِ دوستاں بھی خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی غُبارِ...
  2. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    یہ موسمِ گُل گرچہ طرب خیز بہت ہے احوالِ گُل و لالہ غم انگیز بہت ہے خوش دعوتِ یاراں بھی ہے یلغارِ عدو بھی کیا کیجیے دل کا جو کم آمیز بہت ہے یوں پیرِ مغاں شیخِ حرم سے ہوئے یک جاں میخانے میں کم ظرفیِ پرہیز بہت ہے اک گردنِ مخلوق جو ہر حال میں خم ہے اک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے کیوں مشعلِ...
  3. فرخ منظور

    فنا بلند شہری میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر ( فنا بلند شہری)

    جام میں گھول کر حُسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آگیا اس مصرع میں "مزا" ہونا چاہیے۔ چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا! تو نے ایسی پلائی مزا آ گیا اس مصرع میں "مرے" ہونا چاہیے۔ آنکھ ان کی لڑی یُوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزا آ گیا اس مصرع میں مری ہونا چاہیے۔ آج سے پہلے یہ کتنے مغرور...
  4. فرخ منظور

    فنا بلند شہری میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر ( فنا بلند شہری)

    واہ واہ! مزا آ گیا۔ کیا ہی پر لطف غزل ہے۔ املا کی معمولی غلطیوں نے بھی مزا کرکرا نہیں کیا۔
  5. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    ایک شہر یہ سب سے نیا، اور سب سے بڑا اور نایاب شہر یہاں آکے رکتے ہیں سارے جہاں کے جہاز یہاں ہفت اقلیم کے ایلچی آ کے گزرانتے ہیں نیاز درآمد برآمد کے لاریب چشموں سے شاداب شہر یہ گلہائے شبّو کی مہکوں سے، محفل کی شمعوں سے، شب تاب شہر یہ اک بسترِ خواب شہر دیبا و سنجاب شہر! یہاں ہیں عوام اپنے فرماں...
  6. فرخ منظور

    قطعات ۔ صوفی تبسم

    وفورِ کاہشِ پیہم سے تیرا جسمِ نزار ترے شعور کا بارِ گراں اٹھا نہ سکا پگھل کے خون ہوا قبلِ نازنیں تیرا یہ جام تندیِ صہبا کی تاب لا نہ سکا
  7. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    ڈھاکہ سے واپسی پر ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مُلاقاتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبّے دھُلیں گے کتنی برساتوں کے بعد تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ...
  8. فرخ منظور

    جولائی ایلیا کی موشگافیاں

    ہم بھی بہت عجیب ہیں، اتنے عجیب ہیں کہ بس ملک تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں (جولائی ایلیا)
  9. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا جُدا تھے ہم تو میسّر تھیں قربتیں کتنی بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا...
  10. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    ہم تو مجبور تھے اس دل سے ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس میں ہر دم گردشِ خوں سے وہ کُہرام بپا رہتا ہے جیسے رندانِ بلا نوش جو مل بیٹھیں بہم میکدے میں سفرِ جام بپا رہتا ہے سوزِ خاطر کو ملا جب بھی سہارا کوئی داغِ حرمان کوئی، دردِ تمنّا کوئی مرہمِ یاس سے مائل بہ شِفا ہونے لگا زخمِ اُمّید کوئی پھر سے...
  11. فرخ منظور

    ذوق نگہ کا وار تھا دل پر، پھڑکنے جان لگی ۔ ابراہیم ذوق

    غزل نگہ کا وار تھا دل پر، پھڑکنے جان لگی چلی تھی برچھی کسی پر، کسی کے آن لگی ترا زباں سے ملانا زباں جو یاد آیا نہ ہائے ہائے میں تالو سے پھر زبان لگی کسی کے دل کا سنو حال دل لگا کر تم جو ہووے دل کو تمہارے بھی، مہربان لگی تو وہ ہے ماہ جبیں مثلِ دیدۂ انجم رہے ہے تیری طرف چشمِ یک جہان لگی خدا...
  12. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    نمرود کی خدائی یہ قدسیوں کی زمیں جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خوابِ سحر گہی میں، ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمۂ جانفروز کی آرزو کا پرتو! یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے: "وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟ ___وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟" اے فلسفہ گو، کہاں وہ رویائے آسمانی! کہاں یہ نمرود کی خدائی! تو...
  13. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی سراب - مصطفٰی زیدی

    سراب ہر صدا ڈوب چُکی، قافلے والوں کے قدم ریگ زاروں میں بگو لوں کی طرح سو تے ہیں دُور تک پھیلی ہوئی شام کا سناٹا ہے اور مَیں ایک تھکے ہارے مسافر کی طرح سو چتا ہُوں کہ مآلِ سفرِ دل کیا ہَے کیوں خَزف راہ میں خورشید سے لڑ جاتے ہَیں تِتلیاں اُڑتی ہَیں اور اُن کو پکڑنے والے یہی دیکھا ہَےکہ اپنوں سے...
  14. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    گیت چلو پھر سے مسکرائیں چلو پھر سے دل جلائیں جو گزر گئی ہیں راتیں اُنہیں پھر جگا کے لائیں جو بسر گئی ہیں باتیں اُنہیں یاد میں بُلائیں چلو پھر سے دل لگائیں چلو پھر سے مسکرائیں کسی شہ نشیں پہ جھلکی وہ دھنک کسی قبا کی کسی رگ میں کسمسائی وہ کسک کسی ادا کی کوئی حرفِ بے مروّت کسی کُنجِِ لب سے پھُوٹا...
  15. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    اے شام مہرباں ہو! اے شام مہرباں ہو اے شامِ شہرِ یاراں ہم پہ مہرباں ہو دوزخی دوپہر ستم کی بے سبب ستم کی دوپہر درد و غیظ و غم کی بے زباں درد و غیظ و غم کی اس دوزخی دوپہر کے تازیانے آج تن پر دھنک کی صورت قوس در قوس بٹ گئے ہیں زخم سب کھُل گئے ہیں داغ جانا تھا چھٹ گئے ہیں ترے توشے میں کچھ تو ہو گا...
  16. فرخ منظور

    واعظ کی سنیں کیا کہ نہ طاقت ہے نہ فرصت۔۔ایسے میں ہمیں رندِ خرابات بہت ہے (فرخ منظور)

    واعظ کی سنیں کیا کہ نہ طاقت ہے نہ فرصت۔۔ایسے میں ہمیں رندِ خرابات بہت ہے (فرخ منظور)
  17. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    ویران کشید گاہیں مَری کی ویراں کشید گاہوں میں اُس فتیلے کو ڈھونڈتا ہوں جو شیشہ و جام و دستِ ساقی کی منزلوں سے گزر کے جب بھی بڑھا ہے آگے تو اُس کے اکثر غموں سے اُجڑے ہوئے دماغوں کے تیرہ گوشے اَنا کی شمعوں کی روشنی سے جھلک اٹھے ہیں! میں اس فتیلے کے اس سرے پر، کھڑا ہوں، مجذوب کی نظر سے مَری کی...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کراہتے ہوئے دِل ۔ مصطفیٰ زیدی

    کراہتے ہوئے دِل مَیں اسپتال کے بستر پہ تم سے اتنی دُور یہ سوچتا ہُوں کہ ایسی عجیب دُنیا میں نہ جانے آج کے دن کیا نہیں ہُوا ہو گا کِسی نےبڑھ کے ستارے قفس کیے ہوں گے کسی کے ہات میں مہتاب آگیا ہو گا جلائی ہوں گی کِسی کے نفَس نے قِندیلیں کِسی کی بزم میں خورشید ناچتا ہو گا کِسی کو ذہن کا...
  19. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    سجاد ظہیر کے نام نہ اب ہم ساتھ سیرِ گُل کریں گے نہ اب مل کر سرِ مقتل چلیں گے حدیثِ دلبراں باہم کریں گے نہ خونِ دل سے شرحِ غم کریں گے نہ لیلائے سخن کی دوست داری نہ غم ہائے وطن پر اشکباری سنیں گے نغمۂ زنجیر مل کر نہ شب بھر مل کے چھلکائیں گے ساغر بنامِ شاہدِ نازک خیالاں بیادِ مستیِ چشمِ غزالاں...
  20. فرخ منظور

    مکمل شام شہر یاراں ۔ فیض احمد فیض

    پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو ہم کیا کرتے کس رہ چلتے ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے اُن رشتوں کے جو چھوٹ گئے اُن صدیوں کے یارانوں کے جو اِک اِک کر کے ٹوٹ گئے جس راہ چلے، جس سمت گئے یوں پاؤں لہولہان ہوئے سب دیکھنے والے کہتے تھے یہ کیسی رِیت رچائی ہے یہ مہندی کیوں لگائی ہے وہ کہتے تھے، کیوں قحطِ وفا کا ناحق...
Top