سرگوشیاں
"پھر آج شام گاہ سرِ رہگزر اُسے
دیکھا ہے اس کے دوشِ حسیں پر جھکے ہوئے!"
"یارو وہ ہرزہ گرد،
ہے کسبِ روزگار میں اپنا شریکِ کار،
راتوں کو اُس کی راہگزاروں پہ گردشیں
اور میکدوں میں چھپ کے مے آشامیِ طویل
رسوائیوں کی کوئی زمانے میں حد بھی ہے!"
"یہ غصہ رائیگاں ہے، ہمیں تو ہے یہ گلہ
وارفتہ کیوں...