نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں، در کھلا رکھنا
گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا
ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا
نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگِ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا
اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف
جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا
ابھی...