نتائج تلاش

  1. رضوان

    دیوان غالب

    رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے میناے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے بالِ تدرو جلوہ موجِ شراب ہے زخمی ہوا ہے پاشنہ پاے ثبات کا نے بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے جادادِ بادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے نظّارہ کیا حریف ہو...
  2. رضوان

    دیوان غالب

    زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب ہم بھی کیا یاد کرینگے کہ خدا رکھتے تھے ××××××××××××××××××××××××××××××××××× اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا میں اور جاؤں در سے ترے بن صدا کیے رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجّادہ رہنِ...
  3. رضوان

    دیوان غالب

    ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے صبحِ وطن ہے خندہ دنداں نما مجھے ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی جس کی صدا ہو جلوہ برقِ فنا مجھے مستانہ طے کروں ہوں رہ وادیِ خیال تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں آنے لگی ہے نک‌ہتِ گل سے حیا مجھے کھلتا کسی...
  4. رضوان

    دیوان غالب

    عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت تری شہرت ہی سہی قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو آگہی گر نہیں غفلت...
  5. رضوان

    دیوان غالب

    رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں ورنہ یاں بے رونقی سودِ چراغِ کشتہ ہے ×××××××××××××××××××××××××××××××××××××× چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے سرمہ تو کہوے کہ دودِ شعلہ آواز ہے پیکرِ عشّاق سازِ...
  6. رضوان

    دیوان غالب

    پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے ×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××× مری ہستی فضاے حیرت آبادِ تمنّا ہے جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو کوئی موسم ہو وہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال و پر کا ہے...
  7. رضوان

    دیوان غالب

    تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھو حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر نہ گریہ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے ××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××× ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا سو بھی مٹ گیا ظاہراً کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے...
  8. رضوان

    دیوان غالب

    گر خامشی سے فائدہ اخفاے حال ہے خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ دل فردِ جمع و خرچِ زبانہاے لال ہے کس پردے میں ہے آئنہ پرداز اے خدا رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی اے شوقِ منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے مشکیں...
  9. رضوان

    دیوان غالب

    سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے تسکیں کو دے نوید کہ مرنے کی آس ہے لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے ہے وہ غرورِ حسن سے بیگانہ وفا ہرچند اس کے پاس دلِ حق شناس ہے پی جس قدر ملے...
  10. رضوان

    دیوان غالب

    درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا...
  11. رضوان

    دیوان غالب

    کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے جس میں کہ ایک بیضہ مور آسمان ہے ہے کائنات کو حرکت تیرے ذوق سے پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے کی اس نے گرم سینہ اہلِ ہوس میں جا آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے کیا...
  12. رضوان

    دیوان غالب

    غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی کھلےگا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغز کے جلانے کی لپٹنا پرنیاں میں شعلہ آتش کا آساں ہے ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی انہیں منظور اپنے زخمیوں کا دیکھ آنا تھا...
  13. رضوان

    دیوان غالب

    تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے غالب ترا احوال سنا دینگے ہم ان کو وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے ××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××× گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سو ہے
  14. رضوان

    دیوان غالب

    ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے ہے دورِ قدح وجہ پریشانیِ صہبا یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے بیدادِ وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے
  15. رضوان

    دیوان غالب

    بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلّف سے تکلّف بر طرف تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا...
  16. رضوان

    دیوان غالب

    مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے بھوں پاس آنکھ قبلہ حاجات چاہیے عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے دے داد اے فلک دلِ حسرت پرست کی ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے مے سے غرض...
  17. رضوان

    دیوان غالب

    صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے دیوار بارِ منّتِ مزدور سے ہے خم اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے یا پردہ تبسّمِ پنہاں اٹھائیے
  18. رضوان

    [زاویہ] تبصرے اور تجاویز

    ماوراء خوب اچھی جا رہی ہو۔ کہاں تک لکھ ڈالا؟ ویسے ہے نا جان جوکھم کا کام؟ اسی مستقل مزاجی سی لگی رہو۔ ،،بابا کی تعریف،، تو شمشاد بھائی سی لکھوانی تھی یا میں لکھ دیتا :lol: اتنا اپنا ،ایک دن، دیکھو کیا فراٹے بھر رہا ہے۔
  19. رضوان

    [دیوان غالب] تبصرے اور تجاویز

    ردیف واؤ کی چھپائی کافی حد تک کر دی ہے، باقیماندہ کی بھی کوشش ہے کہ جلد ہی مکمل کر لیں۔ نوک پلک سنوار لیں گے آخر میں۔
  20. رضوان

    دیوان غالب

    از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئنہ طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئنہ ××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××× ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے دشواریِ رہ و ستمِ ہم رہاں نہ پوچھ
Top