دھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے
دھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے
اپنے قدموں سے مرے گھر کبھی چل کر آتے
ذہن‘ نایافت بشارت کا سمندر ہوتا
حرف تہذیب کی خوشبو میں جو پل کر آتے
اس الاؤ سے مجھے خوف بہت آتا ہے
اجنبی! پیار کے کپڑے تو بدل کر آتے
سہل‘ فردا کے تقاضوں کی مسافت ہوتی
غم دیروز...