نُورِ جاں کے لئےکیوں ہو کسی کامِل کی تلاش
ہم تِری صُورتِ زیبا کا تماشا نہ کریں
حال کُھل جائے گا بیتابیِ دِل کا، حسرتؔ!
بار بار آپ اُنھیں شوق سے دیکھا نہ کریں
حسرتؔ موہانی
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اِک شرحِ حیات ہو گئی ہے
جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری !
تصویرِ حیات ہو گئی ہے
جو چیز بھی ،مجھ کو ہاتھ آئی
تیری، سوغات ہو گئی ہے
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
غزلِ
فراؔق گورکھپُوری
(رگھوپتی سہائے)
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اِک شرحِ حیات ہو گئی ہے
جب دِل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے
غم سے چُھٹ کر، یہ غم ہے مجھ کو !
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے ؟
مُدّت سے خبر مِلی نہ دِل کی
شاید کوئی بات ہو گئی ہے
جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری
تصویرِ حیات...
گُنگ اِیمائے لبِ یار سے گویا ہووے
آنکھیں تلووں سے مَلےکور، تو بِینا ہووے
چُھپ سکی بادِ سَحر سے نہ تِری زُلف کی بُو
مؐشک کا چَور یقیں ہے یہ کہ رُسوا ہووے
خواجہ حیدر علی آتؔش
بدنام محبّت نے تِری ہم کو کِیا تھا
رُسوائے سرِ کُوچہ و بازار ہِمَیں تھے
ہم سا نہ کوئی چاہنے والا تھا تمھارا
مرتے تھے ہَمِیں، جان سے بیزار ہَمِیں تھے
خواجہ حیدر علی آتؔش