کُچھ ااُن کے اِلتفات نے زحمت نہ کی قبول
کُچھ نقص میرے حالِ پریشاں میں رہ گئے
دِل میں، جو چند عارضی جذبے خوشی کے تھے
وہ بھی دبے ہُوئے غمِ پنہاں میں رہ گئے
سیمابؔ اکبر آبادی
بنے بنائے سے رستوں کا سِلِسلہ نِکلا
نیا سفر بھی، بہت ہی گُریز پا نِکلا
نہ جانے کِس کی ہمَیَں عُمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا، وہ دُوسرا نِکلا
خلؔیل الرحمٰن اعظمی
غزل
سمائیں آنکھ میں کیا شُعبدے قیامت کے
مِری نظر میں ہیں جَلوے کسی کی قامت کے
یہاں بَلائے شبِ غم، وہاں بہارِ شباب !
کسی کی رات، کسی کے ہیں دِن قیامت کے
سِتارے ہوں تو سِتارے، نہ ہوں تو برقِ بَلا !
چراغ ہیں تو یہ ہیں بےکسوں کی تُربت کے
اُلٹ دِیا غمِ عِشقِ مجاز نے پردہ
حجابِ حُسن میں...
درد کے جھونکوں نے اب کی دِل ہی ٹھنڈا کر دیا
آگ برساتا تھا آگے دِیدۂ خُوں بار بھی
بیٹھے بیٹھے جانے کیوں بیتاب ہو جاتا ہے دِل
پُوچھتے کیا ہو مِیاں، اچھّا بھی ہُوں بیمار بھی
ناصؔر کاظمی
غزل
عاشقی پیشہ ہے اے دِل! تو یہ بیداد نہ کر
ستمِ یار سے بھی شاد ہو، فریاد نہ کر
دیکھ اُس جلوۂ پنہاں کی زیارت ہے محال
ہمّتِ شوق کو بے فائدہ برباد نہ کر
بے پر و بال کہاں چُھوٹ کے جائیں صیّاد
ہم اسِیرانِ وفا کوش کو آزاد نہ کر
ہم تِری یاد کو بُھولیں ہیں نہ بُھولیں گے کبھی
توُ ہمَیں بُھول...
سر میں شوق کا سودا دیکھا
دہلی کو ہم نے بھی جا دیکھا
جو کُچھ دیکھا ، اچّھا دیکھا
کیا بتلائیں کیا کیا دیکھا
کُچھ چہروں پر مَردی دیکھی
کُچھ چہروں پر زردی دیکھی
اچّھی خاصی سردی دیکھی
دِل نے، جو حالت کردی دیکھی
ڈالی میں نارنگی دیکھی
محفل میں سارنگی دیکھی
بے رنگی، با رنگی دیکھی
دہر کی رنگا رنگی...
عجیب ہنگامِ بے بسی ہے، نہ موت ہی ہے، نہ زندگی ہے !
حیات ایڑی رگڑ رہی ہے، قضا بھی دامن جھٹک رہی ہے
نگاہِ مضطر فِراقِ جاناں میں اِس طرح مضطرب ہے احساؔں
کہ ریگ زاروں میں جیسے بُلبُل، تلاشِ گُل میں بھٹک رہی ہے
احساؔن علیم